Eastern
Eastern 7 Min Read 1 View
7 Min Read

نوجوانوں کو ‘کمفرٹ زون’ سے باہر نکالنے کے لیئے نصیحت کرتے رہیں

مدثر احمد قاسمی

اسسٹنٹ ایڈیٹرایسٹرن کریسنٹ, ڈائریکٹر الغزالی انٹرنیشنل اسکول

ایک خوبصورت سماج کی تشکیل کے لیئے جس طرح سماج کے ہر فرد کا فعال اور متحرک ہونا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ سماج میں ایک طبقہ ایسا ہو جو فعال بنے رہنے کی تحریک کو تازہ دم رکھے۔اس وجہ سے کہ انسان کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی؛ کبھی وہ خوب فعال اور متحرک ہوتا ہے اور کبھی سست پڑجاتا ہے،یہی وہ موقع ہوتا ہے جب سماجی مصلح کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ سست پڑتے لوگوں کی روح میں چستی کی ہوا بھریں اور انہیں ناکارہ ہونے سے بچالیں۔

جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ متحرک رہنے اور رکھنے کی صفت ان کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔چنانچہ ان کی اکثر مجلسیں اور ملاقاتیں صرف اس وجہ سے ہوتی تھیں کہ زندگی کی حرارت برقرار رہے تاکہ انسانیت کی کامیابی و ترقی کی تاریخ رقم ہوتی رہے۔ فعال رہنے اور رکھنے کی اس تحریک میں ایمان کو مرکزی مقام حاصل تھا، چنانچہ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ زندگی کے تمام شعبوں کو زندہ رکھنے کے لیئے ایمان کی لو کو مدھم نہ پڑنے دیا جائے۔ لہذا بخا ری شریف کی ایک روایت کے مطابق صحابہ کرام کا یہ ایک مستقل مشغلہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کو ایمان تازہ کرنے کے لیئے بیٹھنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہمارے لیئے دعوت فکر و عمل ہے۔عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بے شک ایمان تم میں سے کسی شخص کے سینے میں اسی طرح بوسیدہ ہوجاتاہے، جس طرح (پرانا) کپڑا بوسیدہ ہوجاتا ہے، پس تم اللہ سے سوال کیا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کر دے“ (مستدرک حاکم)

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ایمان کے تعلق سے فعال و متحرک رہنے اور رکھنے کی کوشش کے بعد زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی فعال و متحرک رہنے اور رکھنے کی جد و جہد کیا کرتے تھے۔یہاں سے یہ نکتہ بھی نکل کر آتا ہے کہ اگر ایمان میں حرارت ہے تو اس حرارت کا اثر زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی یقینی پڑیگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام نے نہ صرف حصول علم میں فعالیت کا مظاہرہ کیا بلکہ تبلیغ دین سے لے کر خدمت خلق تک اور معیشت سے لے کر معاشرت تک زندگی کا بھر پور ثبوت پیش فرمایا۔ یہی وہ مصروفیت تھی جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں منفی رجحانات، بے عملی اور مقصدیت سے دوری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

مذکورہ پس منظر کے آئینے میں جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ عمومی طور پر اکثر لوگ اور خصوصی طور پر نسل نو زندگی کے اکثر شعبوں اور موقعوں میں غیر فعال و غیر متحرک نظر آتی ہے۔اگر حقیقت کا اعتراف کر لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہیں سہل پسندی کی بیماری لگ گئی ہے۔ جدید اصطلاح میں اسے ‘کمفرٹ زون’ میں جانا کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی کامیابی کے حصول کے لیئے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا یعنی سہل پسندی کے مرض سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔

جیسا کہ ہم نے مضمون کے شروع ہی میں یہ واضح کردیا تھا کہ سماج کے مصلحین کے لیئے سماج کے افراد کو فعال و متحرک رکھنا بہت اہم ہے، اس لیئے یہ تحقیق بھی ضروری ہے کہ کہیں ذمہ داران اس تعلق سے غفلت کے شکار تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اس قرآنی آیت پر ضرور غور کرنا چاہئیے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے: "اور سمجھاتے رہئے ؛ کیوں کہ سمجھانا ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔”(الذاریات:55) ظاہر ہے کہ دنیا کے عظیم ترین
مصلح کو جب یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھاتے رہیں کیونکہ فعال و متحرک رکھنے کا یہ سب سے بنیادی آلہ ہے، تو ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم بھی افہام و تفہیم کا سلسلہ قائم اور جاری رکھیں، بصورت دیگر نسل نو کی تباہی کے ذمہ دار ہم بھی ہوں گے۔

اب ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ نسل نو کو مثبت معنی میں فعال و متحرک رکھنے کے لیئے ہمار پاس کیا منصوبے ہیں اور ہم ان منصوبوں کو کس حد تک عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ خود کے خول میں اس طرح بند ہوگئے ہیں کہ نسل نو اجتماعی قتل گاہ پر پہونچ گئی ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نفرادی و اجتماعی کوششوں کے بجائے ہمارا کام محض نسل نو کو کوسنا اور ان کی غلطیوں پر واویلا مچانے کا رہ گیا ہے۔ کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ انہیں موبا ئل کی لت لگ گئی ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ خود سر ہو گئے ہیں بات نہیں مانتے۔ یہاں ہم پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ ہم نے انہیں موبائل کا کیا متبادل دیا ہے یا انہیں فرمانبردار بنانے کے لیئے کیا جتن کیئے ہیں۔ ان سوالوں کا ہمارے پاس معقول جواب نہیں ہے،اس لیئے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہے اور نسل نو کو فعال و متحرک رکھنے کے لیئے لچکدار اور موثر منصوبہ بنانے کے ساتھ اس پر عمل در آمد کو یقینی بنانا ہے، نہیں تو ہمارا حال بھی تباہ ہوگا اور مستقبل بھی تاریک۔

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern