مولانا سید طاہر حسین گیاوی کی رحلت
نایاب حسن قاسمی
نہایت ذہین،متیقظ ،بیدارمغز اور ممتاز عالم دین مولانا سید طاہر حسین گیاوی کا طویل علالت کے بعد آج انتقال ہوگیا۔مولانا کی عمر کم و بیش پچہتر سال رہی ہوگی۔انھوں نے بڑی ماجرا پرور زندگی گزاری۔طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا ذہن مناظرانہ، مباحثانہ اور محققانہ تھا،جس میں بعد کے دنوں میں پختگی آتی گئی اور انھوں نے اپنے لیے میدانِ عمل بھی شعبہ مناظرہ و مباحثہ کو ہی بنایا اور اس میں وہ بہت کامیاب بھی رہے۔ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا، گفتگو بڑی مرتب کرتے تھے، حافظہ بھی حیرت انگیز پایا تھا؛چنانچہ بے شمار حدیثیں سندوں کے ساتھ انھیں یاد تھیں ،جنھیں وہ حسبِ موقع اپنی تقریروں میں پڑھتے اور ان کی روشنی میں خطاب کرتے۔مجھے انھیں دو بار براہِ راست سننے کا اتفاق ہوا۔ایک دارالعلوم بالاساتھ(سیتامڑھی) کی طالب علمی کے زمانے میں،۲۰۰۶ء میں جس سال وہ اس ادارے کے جلسے میں خصوصی مقرر کے طورپر بلائے گئے تھے اور علاقے بھر میں ان کی آمد سے پہلے اور بعد بڑا مسلکی ہنگامہ رہا؛کیوں کہ بالاساتھ کے گرد و پیش کے بیشتر گاؤوں کی اچھی خاصی مسلم آبادیاں بریلوی مسلک کے متبعین کی تھی اور مولانا طاہر گیاوی ردِ بریلویت کے حوالے سے خاص شہرت و شناخت رکھتے تھے،انھوں نے بالاساتھ میں اپنی تقریر میں بھی انھی موضوعات کو چھیڑا جو اہل دیوبند و بریلی کے درمیان مختلف فیہ چلے آتے ہیں۔ اسی جلسے میں جھارکھنڈ کے ایک شاعر جمشید جوہر بھی پہلی بار مدعو تھے، تب ان کی آواز بڑی شیریں اور پرکشش تھی، انھوں نے’السلام السلام ‘ سے شروع ہونے والی ایک بہت خوب صورت نعت اس جلسے میں پڑھی تھی،جس کے بعد شمالی بہار میں انھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور کئی سال تک اس خطے کے دینی جلسوں میں بلائے جاتے رہے۔ اس جلسے میں انھوں نے مولانا گیاوی کی تعریف میں ایک نظم بھی پڑھی تھی، جو خاصامناظرانہ رنگ لیے ہوئے تھی،اس کا پہلا مصرعہ ہی یوں تھا’جہاں چاہو،بلالو ہر جگہ تیار ہیں طاہر‘۔اس جلسے کے بعد علاقے بھر کے بریلوی مسلمانوں نے گویا طبلِ جنگ بجادی اور کئی ہفتے تک روزانہ کسی نہ کسی گاؤں میں دیوبندیوں کے خلاف جلسہ ہوتا رہا۔
دوبارہ مولانا گیاوی کو دیوبند کے ایک مدرسے میں سننے کا اتفاق ہوا،یہ چوں کہ طلبہ کی مجلس تھی؛اس لیے اس میں مولانا نے مختصر ناصحانہ خطاب کیا اور عقائد کی پختگی پر زور دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی زبان بڑی صاف تھی، طرز استدلال بڑا قوی اور یقین و اعتماد سے بھرپور ہوتا تھا،حوالے اور مستدلات انھیں از بر ہوتے تھے، ان کے شعلۂ گفتار کے سامنے اچھے اچھوں کی خطابی ہنرمندیاں کجلا جاتی تھیں اور بڑے بڑے لسان العصر ہکلانے لگتے تھے، انھی خصوصیات کی وجہ سے انھیں مناظروں اور مذہبی مباحثوں میں خاص طورپر بلایا جاتا تھا،مختلف زمانوں میں ان کے بعض مناظرے بڑے مشہور بھی ہوئے۔انھوں نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی کچھ توجہ دی اور متعدد اختلافی مسائل و موضوعات پر کتابیں لکھیں ، ان میں ان کا مناظرانہ انداز حاوی ہے۔
مولانا مرحوم خود بھی بڑے ذی استعداد اور براق و وقاد شخصیت کے مالک تھے اور دوران طالب علمی ان کی رفاقت بھی ایسے لوگوں کے ساتھ رہی جو بعد میں علمی ،تدریسی و فقہی میدانوں میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ان کے خاص رفقا میں مفتی عزیز الرحمن فتحپوری جو مفتی اعظم مہاراشٹر بھی کہلاتے ہیں،اسی طرح مشہور عالم و مصنف مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔۱۹۶۹ء میں مولانا طاہر گیاوی دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ کے طالب تھے اور اس سال جو تاریخی اسٹرائک ہوئی تھی، اس کے سرخیلوں میں یہی حضرات تھے۔انھی دنوں ہمارے استاذ محتر م مولانا نورعالم خلیل امینی بھی دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے تھے اوران کا یہ پنجم عربی کا سال تھا۔مولانا نے اپنی کتاب’رفتگانِ نارفتہ‘ میں مولانا طاہر گیاوی سے اپنے تعارف کے پس منظر اور ان کی خطیبانہ، مناظرانہ و قائدانہ صلاحیتوں کا تذکرہ بڑے خوب صورت انداز میں کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’مولانا سید طاہر حسین گیاوی بن سید سلطان احمد اسٹرائک کے سال درجہ ہفتم عربی کے طالب علم تھے،راقم نے اسٹرائک کے بپا ہونے سے قبل کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ وہ میرے لیے اسٹرائک کے دنوں کی نئی دریافت تھے۔ وہ از خود یا کسی تجربہ کار کے مشورے سے اسٹرائک کے لائق وفائق اور مطلوبہ صلاحیت کے قائد بن کر ابھرے اور طلبہ کے انبوہ پر جس طرح چھا گئے، راقم نے اس کی مثال اپنی طالب علمانہ اور مدرسانہ دونوں زندگیوں میں تادم تحریر نہیں دیکھی ۔ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ، وہ سیلِ رواں کی طرح بہتی، کسی توقف یا انقطاع سے ان کا سلسلۂ کلام جتنا نا آشنا تھا، اس کو میں صحیح تعبیر دینے سے بالکل قاصر ہوں۔ اس سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ وہ طلبہ پرایسی حکومت کرنے لگے تھے، جیسی کوئی غیر معمولی رعب داب کا مالک مطلق العنان خودسر ڈکٹیٹر کرتا ہے، جس کے پاس اپنی بات من وعن منوانے کے لیے فوجی طاقت، اقتدار کی قوت، ملک کے سارے وسائل، انتظامی اداروں کی آہنی گرفت اور حدود و قیود نا آشنا اپنے عزم و ارادے کی زبردست کمک ہوتی ہے، وہ جب چاہے عوام کے سروں کی پکی ہوئی فصل کو یک لخت کاٹ ڈالنے کے لیے مکمل انتظام کے ساتھ تیار رہتا ہے۔ وہ طلبہ سے کہتے بیٹھ جاؤ ،تو اسی سکنڈ میں سب بیٹھ جاتے ، کہتے کھڑے ہو جاؤ، تو سبھی آن کی آن میں کھڑے ہو جاتے ،سر جھکالو،تو سبھی اس لمحے سرنگوں ہو جاتے ، صرف دائیں طرف دیکھو، تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ نفاذ حکم کے پورے دورانیے میں بائیں طرف دیکھ لے، سبھی طلبہ تین منٹ میں فلاں جگہ جمع ہو جائیں، تو دو ہی منٹ میں سب اس جگہ آ موجود ہوتے۔ ـان کی ساری اداؤں میں نظم و ضبط ہوتا ، ڈسپلن ہوتا ، قائدانہ انداز ہوتا ، خطیبانہ شان ہوتی ، مربیانہ وقار ہوتا ، استادانہ مہارت ہوتی ،منتظمانہ دوررسی وحکمت عملی ہوتی اور وہ سب کچھ ہوتا، جس کی وجہ سے کوئی واجب التعظيم ومحترم المقام اور باعثِ فرماں برداری ہوتا ہے ‘‘۔(ص:۱۲۷-۱۲۸)
مولانا اعجاز احمد اعظمی نے اپنی خود نوشت’حکایت ہستی‘ کے دسویں باب میں تفصیل سے اس اسٹرائک کے مالہ و ماعلیہ پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے دلچسپ انداز میں ساری روداد رقم کی ہے۔ اسٹرائک کی شدت کی وجہ سے اس وقت کی انتظامیہ نے کچھ دنوں کے لیے دارالعلوم کو بند کردیا تھا اور اس میں شریک بہت سے طلبہ کا اخراج ہوگیا تھا، جن میں مذکورہ تینوں حضرات سرفہرست تھے۔ مولانا اعظمی اور ان کے دوستوں نے اخراج کے بعد چند ماہ سخت پریشانی و سرگردانی کے عالم میں گزارے ،جس کا احوال بھی انھوں نے اس باب میں لکھا ہے۔ اسی ذیل میں ایک ایسا واقعہ بھی تحریر کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اسٹرائک کا ملک بھر کے مدارس کے حلقوں میں کتنا شہرہ تھا اور اس میں شریک طلبہ کے حوالے سے عام لوگوں کے تاثرات کیا تھے،وہ لکھتے ہیں:
’’ دیوبند کے ہنگامے نے ہم لوگوں کو پورے ملک میں مشہور کر دیا تھا، اللہ جانے لوگوں نے ہم لوگوں کے بارے میں کیا کیا تصور قائم کر لیے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ہم لوگوں کے ساتھ پیش آیا، ایک دن میں اور مولوی طاہر کسی ضرورت سے امروہہ سے مراد آباد گئے تھے، غالبًا مولوی عزیز الرحمن بھی ساتھ تھے ، شام کو وہاں سے واپسی ہوئی ،مغرب کا وقت تھا، ایک بڑے میاں جو دیکھنے میں مولوی معلوم ہوتے تھے، وہ بھی ساتھ میں ٹرین میں تشریف فرما تھے، راستے میں مدارس ، اساتذہ اور طلبہ کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی، اس وقت دارالعلوم کا ہنگامہ ہر مولوی کے یہاں زیر بحث رہتا تھا؛ چنانچہ انھوں نے بھی یہی موضوع اٹھایا اور طلبہ کی شکایتیں کرنے لگے، میں نے عرض کیا کہ ساری غلطی طلبہ کے سرلگا دینا بے انصافی ہے، پانی کہیں اور بھی مرتا ہے، پھر میں نے اس پر بہت تفصیل سے کلام کیا، بڑے میاں بہت متاثرہوئے، کہنے لگے آپ لوگ کہاں پڑھاتے ہیں؟ میں نے کہا پڑھاتے نہیں پڑھتے ہیں، بولے کہاں؟ ہم نے امروہہ کا نام لیا۔ انھوں نے تعجب سے کہا کہ امروہہ جیسی جگہ اتنے باصلاحیت طلبہ جو اساتذہ پر بھی فوقیت رکھتے ہیں! آپ لوگوں کو تو دار العلوم دیوبند میں ہونا چاہیے تھا، یہ سننا تھا کہ دل پر زخم سالگا یا یہ کہیے کہ زخم کے ٹانکے کھل گئے؛ لیکن ہم لوگ سنبھل گئے ، میں نے کہا ہاں زمانے کی نیرنگیاں ہیں، انھوں نے کہا کہ بجنور میں میرا ایک مدرسہ ہے، میں ابھی سے دعوت دیتا ہوں ، فارغ ہو کر وہیں آجائیے ، پھر اور باتیں ہوتی رہیں ۔ امروہہ قریب آگیا، تو بڑے میاں نے فرمایا کہ آپ حضرات اپنا نام بتادیں، میں نے کہا جانے دیجیے ، مسافر ہیں، ادھر سے آئے ادھر چلے گئے، کیا کیجیے گا نام پوچھ کر، مگر وہ بضد ہو گئے ، میں نے کہا جب نہیں مانتے تو بتا نا ہی پڑے گا: یہ طاہر حسین گیاوی اور میں اعجاز احمد اعظمی ! یہ دونوں نام سننے تھے کہ بڑے میاں ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گئے ، میں نے کہا آپ گھبرائیے مت، آرام سے تشریف رکھیے ، وہ چپ چاپ بیٹھ گئے، پھر ایک لفظ نہیں بولے،امروہہ گاڑی ٹھہری تو ہم لوگ سلام کرکے اتر گئے اور وہ بے حس و حرکت پڑے رہے‘‘۔(ص:۲۶۲-۲۶۳)
الغرض ! یہ تھے مولانا طاہر حسین گیاوی۔ اپریل ۱۹۴۷ء ان کا سال پیدایش ہے،۱۰ جولائی ۲۰۲۳ء کو وفات ہوئی۔تعلیم انھوں نے گیا کے مدرسہ انوارالعلوم،بنارس کے مظہر العلوم،مظاہر علوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی اور ۱۹۷۰ء میں مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ سے فضیلت کی تکمیل کی۔فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس اور دیگر متعدد اداروں میں چند سال پڑھاتے رہے،اس کے بعد پلاموں (جھارکھنڈ) میں ایک ادارہ قائم کیا، جس کے ذریعے تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ پوری زندگی اپنی طلاقتِ لسانی اور زورِ خطابت سے ایک دنیا کو مسحور کیے رکھا۔ اللہ پاک ان کی خدمات و حسنات کو قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگذر فرما کر ان کی مغفرتِ کاملہ فرمائے۔