مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
ہندوستان سیکولر ملک ہے ، یہاں جمہوریت ہے اور آئین کی حکومت ہے ، ملک کے آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی دی ہے ، وہ اپنی پسند کے مطابق جس مذہب یا دھرم کو چاہے اختیار کر سکتا ہے اور اس کے مطابق زندگی گذار سکتا ہے ، حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔
ہمارا ملک بھارت مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے ، اس میں برسوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے آرہے ہیں ، سبھی مذاہب کے ماننے والے ہمیشہ آپسی میل محبت سے رہے ، مذہبی تنازع سے دور رہے ، کبھی ایسا کوئی تنازع ہوا بھی تو جلد اس کو ختم کر لیا گیا ،اور پھر آپسی میل و محبت اور قومی یکجہتی کا ماحول پیدا ہوگیا ، جب ملک آزاد ہوا تو ملک میں آئین کی حکومت قائم ہوئی تو قومی یکجہتی کو مزید فروغ ہوا ، تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اس ملک کی حکومت نے کبھی کسی کی مذہبی آزادی میں مداخلت نہیں کی اور نہ مذہبی آزادی کو ختم کرنے کا کام کیا ، مگر افسوس کی بات ہے کہ ملک کی آزادی کو ابھی 8/ دہائی بھی نہیں گزری کہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا ، اکثریت اور اقلیت کا سوال اٹھا کر اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جانے لگی، افسوس تو اس پر ہے کہ ملک کی سیکولر اور آئینی حکومت بھی اس کی حمایت کرنے لگی ہے ، ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیاہے ، اور عملی اقدام کرتے ہوئے لا کمیشن نے تنظیموں اور عوام سے مشورہ بھی طلب کرلیا ہے ، جبکہ یونیفارم سول کوڈ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے ۔
یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان ہوتے ہی ملک کے بسنے والے لوگوں کے درمیان بے چینی پیدا ہوگئی ہے ، ملک کی کئی اقلیتوں نے یونیفارم سول کوڈ کو مذہبی آزادی ے خلاف قرار دے کر اس کی مخالفت شروع کردی ہے ، سکھوں نے اس کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے اور قبائلیوں نے بھی اس کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے ،اور حکومت سے یونیفارم سول کوڈ نہ نافذ کرنے کی اپیل کی ہے ، ملک کی بڑی اقلیت مسلمانوں نے بھی یونیفارم سول کوڈ کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے ، اور اس کے نقصانات سے حکومت کا آگاہ کیا ہے ، اور اس کو نہ نافذ کرنے کی اپیل کی ہے ، دیگر مذہبی اقلیتوں کی جانب سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ، ویسے بھی یہ ادنی سمجھ کا آدمی بھی جانتا ہے کہ ملک میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں ، سب کے مذاہب الگ الگ ہیں ، سبھی کے مذہبی عقائد ، رسم و رواج اور روایات الگ الگ ہیں ، جو ان کے مذہب اور دھرم کے اصول سے اخذ کئے گئے ہیں ، اس میں کسی قسم کی تبدیلی مذہب اور دھرم کے اصول میں تبدیلی ہوگی ، جو سبھی دھرم و مذہب کے ماننے والوں کے لیے ناقابل قبول ہوگا ، پھر بھی مرکزی حکومت ووٹ کی سیاست کے لئے ایسا کرنے جارہی ہے ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔
موجودہ وقت میں یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ چھڑا ہوا ہے ، یہ معاملہ مرکزی حکومت کی جانب سے اٹھایا گیا ہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، موجودہ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اصل بنیادی مسائل سے عوام کے ذہن کو ہٹانے کے لیے اس طرح کے غیر ضروری چیزوں میں الجھاتی رہتی ہے ،تاکہ لوگ اس کے خلاف آواز نہ بلند کریں ، یونیفارم سول کوڈ بھی اسی طرح کا شوشہ ہے ، جیسا کہ چند سال قبل سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کا شوشہ چھوڑا گیا تھا ، جس پر حکومت کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جس پر ملک کی تاریخ آج بھی گواہ ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی سے ظالم کا حوصلہ بلند ہوتا ہے ، اس لئے ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے ، اس لئے ظلم کے خلاف ہر زمانہ میں آواز بلند کرنے کی روایت رہی ہے ، اور آواز بلند کر کے ہی فتنہ کا دفاع ہوتا رہا ہے ، ہمارے ملک میں جمہوریت ہے ،ہمارے ملک کے آئین نے ہمیں اپنے حقوق سلب کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق دیا ہے ، اگر ہماری حق تلفی ہو رہی ہے تو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں آواز بلند کرنے اور احتجاج درج کرانے کا حق حاصل ہے ، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل ہے ، قانونی چارہ جوئی کی مختلف شکلیں ہیں ، حق تلفی کرنے والے کے خلاف ہم کورٹ میں کیس مقدمہ کرسکتے ہیں ، مقامی تھانہ میں کیس درج کرسکتے ہیں ، غرض ہمیں اس کا حق ہے کہ ہم حق تلفی کے خلاف آئین کے دائرے میں قانونی چارہ جوئی کریں ،اور حوصلہ سے کام لیں۔
موجودہ وقت میں مرکزی حکومت نے پھر یونیفارم سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے ،جس کی وجہ سے ہر طرف بے چینی ہے ، اسی درمیان میڈیا میں یہ خبر آرہی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ نافذ کیا جائے گا ،تو مسلمانوں کے علاوہ دیگر کچھ مذہبی طبقات کو اس سے مستثنیٰ کردیا جائے گا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قانون صرف مسلمانوں اور ان کے مذہبی اصول پر لاگو ہوگا ، حالانکہ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ایسا بھید بھاؤ حکومت کس قانون کی بنیاد پر کرے گی ، جبکہ یہ ملک کے آئین کے خلاف بھی ہے ، اس کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگ بھی پریشانی میں ہیں کہ کہیں یونیفارم سول کوڈ کو لاگو کر دیا جائے ، اور اس کی وجہ سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہو جائے ۔
ہمارا ملک جمہوری ملک ہے ، اس لئے حکومت سے ایسی امید تو نہیں ہے ، مگر تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب حکومت ظلم پر اترتی ہے تو حد سے تجاوز کر جاتی ہے ،اور پھر غلط اور صحیح کے درمیان تمیز ختم ہو جاتی ہے ، اور وہ بصیرت اور بصارت دونوں سے محروم ہو جاتی ہے ، پھر وہ الٹا سیدھا قانون لاکر لوگوں کو تکلیف میں ڈالنے لگتی ہے ، اس وقت کچھ لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ،کچھ اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ، اور ملک کے آئین کے دائرے میں اپنی بات حکومت تک پہنچاتے ہیں ، خاموشی سے احتجاج درج کراتے ہیں ۔ چنانچہ جب حکومت کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ، تو قبائلیوں اور سکھوں کی جانب سے آواز بلند ہوئی اور اس کے لئے سخت لہجہ اختیار کیا تو حکومت نے فورا ًان کو یونیفارم سول کوڈ سے مستثنیٰ کرنے کا اعلان کر دیا ، ہمارے ملک کا جمہوری نظام اور ہمارے ملک کا آئین ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے ، حکومت وقت سے مل کر اپنے مطالبات رکھنے اور حکومت سے مل کر افہام و تفہیم کی اجازت دیتا ہے ، اس لئے ہر شہری کے لئے لازم ہے کہ حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرے ، بغیر کسی ہنگامہ کے حکومت کو میمورنڈم دے اور اعلی عہدیداروں سے مل کر اپنے مطالبات پیش کرے ، وقت و حالات سے خائف نہ ہوں ، حوصلہ سے کام لیں۔
موجودہ وقت نہایت ہی نازک ہے ، ایسے وقت میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے ، پھر بھی ہم منتشر ہیں ، عوام تو عوام ہے ، خواص میں زیادہ انتشار ہے ، جو نہایت ہی افسوس کی بات ہے ، اگر ایسے وقت میں بھی ہم ایک جگہ جمع نہیں ہوسکے ،تو پھر یہ ہماری بد نصیبی ہی سمجھی جائے گی ، اور کچھ نہیں ۔
اس موقع پر اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ سول کوڈ رسم و رواج اور روایات کا نام نہیں ہے کہ اس کو بدل کر یکساں کردیا جائے ،تو کوئی حرج کی بات نہیں ہوگی ، جیساکہ ہمارے بعض دانشور سمجھ رہے ہیں ، بلکہ سول کوڈ مذاہب اور دھرم کے اصول پر مبنی ہیں ، اسی لئے ملک کی ہر مذہبی اقلیتوں کے الگ الگ سول کوڈ ہیں ، نیز بہت سے دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ سول کوڈ میں نماز ،روزہ ، حج ،زکوۃ بھی شامل ہیں ، جبکہ ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ سول کوڈ میں صرف عائلی قوانین شامل ہیں ، ان میں نکاح ،طلاق ،عدت ، وراثت ، ہبہ ، متبنی وغیرہ قوانین آتے ہیں، یہ سب قوانین قرآن و احادیث کی بنیاد پر ہیں ، اس لئے مسلم پرسنل لا کو یکساں کرنے کے لئے ان میں تبدیلی کرنی پڑے گی ، اور یہ تبدیلی مذہبی قوانین میں تبدیلی ہوگی ، یہ سمجھنا کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں ، یہ فقہاء کے اجتہاد پر مبنی ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد قرآن اور احادیث پر ہے۔
یونیفارم سول کوڈ ملک کے آئین کے خلاف ہے اور ملک کے بسنے والے تمام مذہبی طبقات کے لئے نقصاندہ ہے ، اس لئے اس کی ضرورت ہے کہ اس لڑائی کو مشترکہ طور پر لڑنے کے لیے ملک کے دیگر مذہبی طبقات کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے ، اور آپسی اتحاد بنایا جائے ، خوشی کی بات ہے کہ ہماری ملی تنظیموں نے اسی انداز پر کام کرنا شروع کیا ہے ، ملی تنظیموں کے قائدین جہاں مذہبی طبقات کے لوگوں سے مل کر حمایت حاصل کر رہے ہیں ، اور مشترکہ پلیٹ فارم بنا رہے ہیں ،وہیں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران سے بھی ملاقات کر رہے ہیں ، اسی طرح اس تحریک کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ، البتہ ایک سطح پر کام باقی ہے ،جس پر زیادہ مضبوطی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،وہ ہے مرکزی حکومت کے وزراء اور عہدیداران سے ملاقات ، ملی تنظیموں کے قائدین کو اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے ، موجودہ وقت میں حکومت وقت سے ملنا اور اس کے سامنے اپنی بات کو پیش کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے ۔