اخلاقی تعاؤن کے بغیر مضبوط ملت کا تصور ناممکن ہے!

Eastern
Eastern 6 Min Read 120 Views
6 Min Read

مدثر احمد قاسمی

مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار ہیں۔

ہم جس جگہ اور جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں آسان اور پر سکون زندگی گزار نے کے لیئے انتہائی ضروری عمل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو متعلقہ کاموں میں تعاؤن دیں۔ اس تعاؤن کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں؛ جیسے مالی، جسمانی، وقتی اور اخلاقی۔ یاد رکھیں!اگر ہمارے اندر تعاون پیش کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ہماری زندگی اس اعتبار سے مشکل ہو جائے گی کہ ہمیں بھی دوسروں کا تعاؤن نہیں ملے گا۔

زیر نظر مضمون میں ہم تعاؤن کے ایک اہم پہلو کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ تعاؤن کے اس پہلو کو عرف عام میں ‘اخلاقی تعاؤن’ کہا جاتا ہے۔ تعاؤن کا یہ پہلو نسبتا آسان مگر اہمیت کے اعتبار سے بہت اعلی ہے۔ آسان اس اعتبار سے ہے کہ اس میں انسان کو نہ مال و دولت اور نہ قوت و طاقت خرچ کر نے کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ صرف حوصلہ افزاء کلمات سے دوسروں کے کاموں کی تائید و تصدیق کرنی ہوتی ہے اور اہمیت کے حساب سے بہت اعلی اس وجہ سے ہے کہ کام کرنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پشت پر مخلصین کھڑے ہیں اس وجہ سے ان کا کام مضبوطی سے آگے بڑھے گا اور انہیں کامیابی ملے گی۔

چونکہ اخلاقی تعاؤن کا انسانی زندگی کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں ایک اہم کردار ہے، اس وجہ سے اسلام نے اس پہلو کی طرف خصوصی رہنمائی کی ہے اور صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا اسے کر دکھا یا ہے۔ اس سلسلے میں ماخذ کی حیثیت رکھنے والی قرآن مجید کی اس آیت پر ہمیں ضروری توجہ دینی چاہیئے: ‘اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو ، گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرو، اور ﷲ سے ڈرتے رہو ، بے شک ﷲ سخت عذاب دینے والے ہیں۔ (المائدہ:2) یہ آیت تعاؤن اور عدم تعاؤن کے سلسلے میں بہت ہی جامع و مانع ہے۔ جہاں شرعی حدود میں رہتے ہوئے جانی، مالی، علمی، دینی، دعوتی اور وقتی تعاؤن اس میں شامل ہے وہیں تمام جائز معاملات میں اخلاقی تعاؤن بھی اس میں شامل ہے۔ اسی کے ساتھ تمام غیر شرعی معاملات میں عدم تعاؤن کا اصول بھی ہمیں اس آیت سے ملتا ہے۔

آئیے! اب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے اخلاقی تعاؤن کا سبق سیکھتے ہیں۔ ‘ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی حجرے سے باہر آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں دو حلقے لگے تھے۔ ان میں سے ایک حلقہ قرآن کریم کی تلاوت اور دعا میں مشغول تھا؛ جب کہ دوسرا حلقہ سیکھنے سکھانے میں مشغول تھا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر حلقہ اچھے کام میں مشغول ہے۔ وہ سب قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور اور دعا میں مشغول ہیں؛ لہذا اللہ چاہیں، تو انھیں عطا کریں گے اور اگر نہ چاہیں تو عطا نہیں کریں گے۔ اور وہ سب (دوسرا حلقہ) سیکھنے سکھانے میں مشغول ہیں اور میں بحیثیت معلم بھیجا گیا ہوں۔ پھر آپ ان (سیکھنے سکھانے والے ) کے ساتھ بیٹھ گئے۔ (سنن ابن ماجہ: 229 )

اس حدیث پاک سے صاف طور پر ہمیں اخلاقی تعاؤن کی دلیل ملتی ہے اور وہ اس طور پر کہ آپ نے مسجد میں بیٹھی دونوں جماعتوں کی حوصلہ افزائی فرمائی، جس سے ان دونوں جماعتوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ اپنے کاموں میں آگے بڑھیں اور بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کریں۔

فرض کریں کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں جماعتوں کو اپنے کاموں میں مشغول چھوڑ کر، ذاتی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتے تو ان لوگوں کے سامنے مذکورہ خیر کی باتیں نہی آتی اور وہ لوگ اس طرح اپنے کاموں کے حوالے سے اخلاقی تعاؤن سے محروم رہ جاتے۔ اس نظیر سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر انسان تن تنہا ذاتی طور پر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مشغول ہو اور آس پاس کے لوگوں کے کاموں سے کوئی واسطہ نہ رکھے تو اسکی افادیت محدود ہو جاتی ہے اور خیر کا وہ پہلو سامنے نہیں آتا ہے جو بصورت دیگر آنا چاہئیے۔

اب تک کی بحث سے اخلاقی تعاؤن کی اہمیت صاف طور پر سمجھ آگئی۔ اس تعلق سے ہمارے معاشرے کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ دوسرں کو اخلاقی تعاون دینا تو کجا؛دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانے اور خلل ڈالنے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے کاموں میں مخلص ہیں اور قوم و ملت کے لیئے کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں, مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور کبھی تو ہمت بھی ہار جاتے ہیں۔ یاد رکھیں! جب تک اس روش میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک اجتماعی کامیابی اور ترقی کا خواب ادھورا رہے گا اور ہم ایک مضبوط ملت کی حیثیت سے ابھر نہیں پائیں گے۔

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern