نیٹ ۲۰۲۴ : NEET 2024: چند توجہ طلب پہلو

Eastern
Eastern 12 Min Read 1 33 Views
12 Min Read

نیٹ ۲۰۲۴ : NEET 2024: چند توجہ طلب پہلو

محمد خالد اعظمی

بارہویں پاس کر لینے کے بعد طلبہ کے اوپر اپنا کیریئر چننے کا بھی ایک دباؤ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں طب کا پیشہ کئی معنوں میں بڑا امید افزا اور کامیابی کی دلیل کے ساتھ بڑے سماجی رتبے کا معیار بھی مانا جاتا ہے اس لئے انٹر پاس کرنے کے بعد بچے بچیوں کی بڑی تعداد میڈیکل کی تعلیم اور ڈاکٹری کے پیشے کیلئے نیٹ کا امتحان دیتی ہے۔ اس سال بھی ہمارے ملک میں 23,33,297 طلبہ نے نیٹ کے امتحان میں قسمت آزمائی کی جس میں 13,16,268 طلبہ کامیاب قرار پائے۔ یعنی اس امتحان میں 56.41 فیصد بچے کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس سال کے امتحان میں ایک خاص بات اور رہی جس پر کچھ لوگ محتاط خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ کل 67 طلبہ نے اس امتحان میں 720/720 نمبر حاصل کئے جس میں چار مسلم طالب علم بھی شامل ہیں ۔ یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ سو فیصد نمبر لاکر بھی اپنی پسند کے میڈیکل کالج ( مثال کے طور پر AIIMS – Delhi، جس میں کل 125 سیٹوں میں جنرل کٹیگری میں صرف 32 سیٹیں ہیں) میں داخلہ کے لئے پر اعتماد نہیں ہو سکتے۔ ٹاپ کرنے والوں کی یہ تعداد اپنے آپ میں ایک ناقابل یقین ریکارڈ ہے۔ عام طور سے 650 سے اوپر ایک اچھا اسکور مانا جاتاہے اور امید ہوتی ہے کہ اتنا نمبر لانے والے بچے کسی اچھے سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ پا سکتے ہیں لیکن اس سال کا نیٹ رزلٹ کا ٹاپ اسکور اتنا زیادہ ہے کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک خبر اور بھی ہے کہ ان ٹاپ کرنے والے طلبہ میں 8 طالب علم کسی ایک ہی سنٹر کے ہیں جو اپنے آپ میں پھر رزلٹ کے تعلق سے خدشات پیدا کرتا ہے۔

نیٹ کے یہ نتائج 14 جون کو جاری ہونے والے تھے لیکن NTA نے کس مجبوری یا منصوبہ بندی کے تحت اپنی دی ہوئی تاریخ سے دس روز قبل ہی عین لوک سبھا عام انتخابات کے نتائج کے دن ہی جاری کر دیا، یہ بھی عام آدمی کی سمجھ سے بالا ترہے۔ اس سال کے نیٹ کے امتحان کے روز ہی اس کا پرچہ لیک ہونے کی خبر بھی آئی تھی جس پر NTA نے کچھ ٹائمنگ اور طلبہ کے امتحان ہال میں چلے جانے کے بعد پرچہ آؤٹ ہونے کی صفائی دے کر اپنا پلہ جھاڑ لیاتھا، لیکن اس طرح کے امتحانات میں پرچہ لیک ہونے جیسا الزام لگ جاناہی اس کی شفافیت پر سوال کھڑے کر دیتا ہے۔ اس سال خلاف معمولُ NTA نے گریس مارک بھی متعارف کیا ہے اور اس کی وجہ سے بچوں کے نمبر معمول سے ہٹ کر بھی ملے ہیں لیکن ٹیسٹنگ ایجنسی نے یہ بھی نہیں بتا یا کہ یہ گریس مارک کن بنیادوں پر دئے گئے ہیں ۔ نیٹ کے امتحانات کیلئے انگریزی زبان منتخب کرنے والے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سال 2024 میں بھی کل تیئیس لاکھ تینتیس ہزار رجسٹرڈ طلبہ میں سےتقریبا انیس لاکھ ( %81) طالب علموں نے امتحان کے لئے انگریزی زبان کا انتخاب کیا، تین لاکھ اٹھاون ہزار (%15)نے ہندی زبان کو منتخب کیا ، سب سے کم طلبہ یعنی صرف ایک ہزار پانچ سو پینتالیس ( %0.066) نے اردو زبان کو اپنے امتحان کیلئے منتخب کیا تھا- طلبہ امتحان کیلئے زبان کا انتخاب بھی اسکولوں میں ذریعۂ تعلیم کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں، ملک میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد بھی برائے نام ہی ہے۔

اس سال جنرل کٹیگری میں نیٹ کا کٹ آف اسکور 164 ہے جبکہ مختلف پیمانوں کی محفوظ کٹیگری میں یہ 129 تک ہے یعنی نیٹ سے منظور شدہ کسی بھی کورس میں داخلے کیلئے کم از کم اتنا نمبر ہونا ضروری ہے جس سے کم ہونے پر کوئی بھی طالب علم کہیں بھی داخلے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اتنے معتبر اور باوقار امتحان میں اتنا کم کٹ آف ( داخلے کا پاسنگ مارک ) اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ نجی زمرے کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کیلئے اہل طلبہ کی وافر رسد جاری رہے ساتھ ہی کم اسکور والے بچوں کو دیہی اور نصف شہری علاقوں میں آیورویدک اور یونانی طبیہ کالجز میں داخلہ آسانی سےمل جائے اور سیٹیں خالی نہ رہیں ۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ایم بی بی ایس میں داخلہ اور ڈاکٹری کی تعلیم کو سماجی حیثیت کی ایک عالی شان علامت کے طور پر تسلیم کر لیا گیاہے، جس کی بنیادی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس تعلیم میں کامیابی کے بعد انسان کے اندر بے تحاشہ دولت کمانے کی ہوس اورصلاحیت پیدا ہو جاتی ہے،اگرچہ انسانی خدمت بھی اس شعبے کا نہایت اہم حصہ ماناجاتا ہے لیکن اب وہ شائد ہی کہیں نظر آتاہو۔

ہر سال جتنے طلبہ نیٹ کے امتحان میں قسمت آزمائی کرتے ہیں انکی نصف سے کچھ اوپر تعداد کامیاب قرار دے دی جاتی ہے۔ ان کامیاب طلبہ میں بھی صرف آٹھ سے دس فیصد ایسے ہوتے ہیں جو ایم بی بی ایس کی تعلیم کیلئے منتخب ہوپاتے ہیں بقیہ ڈینٹل ،آیوروید، یونانی، ہومیوپیتھ یا مویشی ڈاکٹر جیسے کورسز میں داخلہ کے اہل ہوتے ہیں۔ اس سال نیٹ کے امتحان میں تیرہ لاکھ سولہ ہزار دو سو اڑسٹھ طلبہ کامیاب قرار پائے ہیں جو امتحان میں شامل ہونے والی کل تعداد کا چھپن فیصد (%56.41)ہے ۔ کامیاب طلبہ کا یہ فیصد تو وہی ہے جو 2023 میں تھا لیکن طلبہ کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے تقریبا دو لاکھ زیادہ ہیں جبکہ اس ایک سال میں میڈیکل یا دیگر کورسز کی سیٹوں میں اضافہ برائے نام ہی ہوا ہے۔ ملک کے سرکاری اور نجی میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی کل سیٹ تقریبا ایک لاکھ ہے، جس میں گورنمنٹ امداد یافتہ میڈیکل کالجوں میں صرف سینتالیس ہزار ہی سیٹیں ہیں جو ملک بھر میں میڈیکل سیٹ کی کل تعداد کے نصف سے بھی کم ہے۔ جن طلبہ کو اس سال نیٹ میں کا میاب قرار دیا گیا ہے ان میں صرف سات اعشاریہ چھ فیصد (%7.6) ہی ایم بی بی ایس میں داخلہ کے اہل ہیں اور اس میں بھی آدھے سے بھی کم (% 3.57) ہی کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ پا سکتے ہیں، باقی پرائیویٹ میڈیکل کالج کا رخ کر سکتے ہیں جہاں فیس اور دوسرے متعلقہ اخراجات کی شکل میں ایک بڑی رقم خرچ ہوتی ہے اور اتنی زیادہ فیس ادا کرنے کی مالی حیثیت نہ ہونے کی صورت میں بہت سارے بچے نجی کالجوں میں داخلہ نہ لیکر اگلے سال کی تیاری میں دوبارہ لگ جاتے ہیں ۔ اس کے بعد بقیہ کامیاب قرار دئے گئے طلبہ ڈینٹل، آیوروید، یونانی ، ہومیوپیتھ وغیرہ دیگر کورسز میں جگہ پا سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیٹ میں تیرہ لاکھ سولہ ہزار طلبہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن میڈیکل کالج کا دروازہ ایک ہزار میں صرف چھہتر خوش قسمت طالب علموں کیلئے ہی کھلے گا اور ان چھہتر میں بھی صرف پینتیس خوش قسمت ہی کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ پاسکتے ہیں۔ ان حالات میں طلبہ اور سر پرستوں کو زمینی حقائق کا پورا علم ہونا چاہئے اور ان امتحانی نتائج کو ان کے صحیح تناظر میں کھلے دل سے قبول کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔

ہمارے ملک میں امتحان کے خراب نتائج اکثر ذہنی پژمردگی، تناؤ اور سماجی المیہ کا سبب بن جاتے ہیں ۔ طلبہ پر امتحان پاس کرنے کیلئے صرف اپنا ہی نہیں بلکہ خاندان اور سماج کا بھی بہت دباؤ ہوتا ہے اور نتیجہ خراب ہونے کی صورت میں انہیں اپنا مستقبل اور کیرئر خراب ہونے سے کہیں زیادہ اپنے والدین کی سماجی حیثیت خراب ہوجانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ امتحان پاس نہ کر پانے کی صورت میں طلبہ کو مایوس ہونے کے بجائے اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اپنی صلاحیت کا جوہر دکھانے کیلئے اللہ کی یہ دنیا بہت وسیع اور متنوع ہے جہاں ایم بی بی ایس کے علاوہ بھی پیسہ کمانے اور انسانیت کی خدمت کرنے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں میڈیکل کی تعلیم ایک نشان افتخار اور سماج میں فوقیت حاصل کرنے کی علامت بن گئی ہے جسکے لئے سماج اور والدین کے ساتھ خود طالب علم کا بھی اپنے اوپر ایک قسم کا شدید نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے اور ناکامی کی صورت میں بہتوں کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کر نا پڑ جاتا ہے۔

ہندوستان جیسے وسیع اور متنوع زبان و ثقافت کے حامل ملک میں جہاں ہر صوبہ اور مرکز کے الگ الگ تعلیمی بورڈ ، جداگانہ ذریعۂ تعلیم، مختلف مادری زبانیں، نصاب اور طریقۂ تعلیم ہر ایک کا منفرد اور دوسرے سے الگ ہے، وہاں نیٹ یا جے ای ای جیسے کل ہند امتحان کے سوالوں میں یکسانیت اور مختلف بورڈوں کے نصاب سے ہم آہنگی بھی ایک بڑا انتظامی مسئلہ ہے اور ملک کے مختلف صوبوں اور ملحقہ بورڈوں کے طلبہ کو امتحانی سوالنامے میں غیر یکساں نصاب اور سوالنامے کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر نیٹ کے امتحانی پرچے علاقائی زبانوں میں بھی فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو سوالات کے علمی سطح میں تفاوت ناگزیر ہوگیا، جس کی شکایت مختلف بورڈوں کے طلبہ عام طور پر کررہے ہیں کہ کسی علاقائی زبان کے سوالات آسان اور کسی کے مشکل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا گمبھیر مسئلہ مرکزی بورڈ ( سی بی ایس ای ) اور علاقائی تعلیمی بورڈوں کے نصاب میں فرق اورغیر یکسانیت کا ہے۔ امتحان کے پرچے مرکزی بورڈ کے نصاب کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں جبکہ صوبائی بورڈ وں کا نصاب، زبان اور طرز تعلیم کا مختلف ہونا طلبہ کی تیاری اور امتحان کے دوران ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے، جو انہیں کوچنگ کلاس جوائن کرنے کیلئے مجبور کرتا ہے، بغیر کوچنگ کی مدد لئے اپنے طور پر تیاری کرکے امتحان دینا بچوں کیلئے اب ناممکن سا ہوتا جارہا ہے۔

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی از: طہ جون

Eastern Eastern

رمضان میں بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر آئیں!

  مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔

Eastern Eastern

آئیے اس رمضان کو احساس کی بیداری کا ذریعہ بنالیں!

    مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر

Eastern Eastern

روزے کی خوشی!

مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ محنت

Eastern Eastern

Quick LInks

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب ازــــ مفتی جنید احمد

Eastern Eastern

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا دی جائے: مولانا بدرالدین اجمل

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا

Eastern Eastern

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی فہرست میں لگاتار سولہویں مرتبہ شامل کئے جانے پر مبارکباد

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی

Eastern Eastern