’ریل‘ اور ’شارٹ‘ میں روحانیت کہاں؟
مدثر احمد قاسمی
اگر کوئی شخص روحانیت کی تلاش میں ہو اور وہ کام ایسے کرتا ہو جو روحانیت کے منافی ہوں تو وہ کبھی بھی روحانیت کے منازل طے نہیں کر سکتا۔ ہاں! اس صورت حال میں وہ روحانی تنزلی کی آخری منزل پر ضرور پہونچ سکتا ہے۔ روحانیت کوئی ایسی چیز نہیں جو محض دلی خواہش سے، روحانیت کے موضوع پر اعلی ترین کتابوں کے مطالعے سے یا کسی باکمال پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے حاصل ہو جائے؛ بلکہ روحانیت کے حصول کے لیئے یہ ضروری ہے کہ انسان شریعت میں مطلوب اعمال پر جمنے کے ساتھ تمام مناہی سے بھی بچتا رہے۔ اس اعتبار سے رب کائنات کی مرضی کے مطابق اعمال صالحہ کرنے یا برے اعمال کے ترک میں مجاہدہ و ریاضت سے جو نورانیت پیدا ہوتی ہے اسی کا نام روحانیت ہے۔
روحانیت کے مذکورہ اتار چڑھاؤ کو ہم قرآن مجید کی ذیل کی آیتوں سے صاف طور پر سمجھ سکتے ہیں: "جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے پروردگار کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا، اس نے مراد کو پالیا۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو؛ حالاں کہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔” (سورہ الاعلی 15,16,17)
یہاں سمجھنا یہ ہے کہ ہمارے اندر فطری طور پر روحانیت کی جستجو موجود ہے لیکن ہم اس جستجو کو منزل آشنا کرنے کے لیئے جس تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں کر پاتے ہیں بلکہ ستم یہ کرتے ہیں کہ الٹے سمت میں سفر جاری کر دیتے ہیں۔ ایک زاویے سے یہی بات اوپر کی آیتوں میں کہی گئی ہے کہ کامیابی کے لیئے روحانیت والے اعمال ضروری ہیں لیکن ہم ہیں کہ دوسری ہی دنیا میں مگن ہیں؛ جہاں کامیابی کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔
انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ روحانیت کے حصول میں مانع اعمال کی شکلیں ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے لوگ باہر نکل کر بد نظری کے مرتکب ہوتے تھے اور گانوں کی محفلوں میں شرکت کرکے کان کے لیئے سامان لذت فراہم کرتے تھے لیکن اب اس کے لیئے نہ ہی باہر جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی محفل میں شرکت کی ضرورت ہے بلکہ ہر ایک ہاتھ میں جو موبائل نامی شئی موجود ہے، اس میں روحانیت کا جنازہ نکالنے والی مذکورہ بیماریاں پہلے سے بھی کہیں زیادہ باعتبارکمیت اور کیفیت موجود ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج لوگ اگر ‘ریل’ اور ‘شارٹ’ اچھی معلومات سننے کے لیئے بھی چلاتے ہیں تو وہ ‘اسکرول’ کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہونچ جاتے ہیں۔
یہیں سے وہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور وجہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ نیک اعمال کرنے کے باوجود دماغی اطمینان اور دلی سکون حاصل نہیں ہے اور روحانی کمزوری دور نہیں ہو رہی ہے! ظاہر کہ جب انسان نماز، ذکر و تسبیح اور دیگر نیک کاموں کے بعد فورا موبائل پکڑنے کا عادی ہوگا اور کچھ بھی دیکھنے اور سننے میں لگ جائے گا تو اس کی یہ حالت ہونی ہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک انسان بالٹی میں پانی بھرنے کی کوشش کرے اور اس بالٹی میں نیچے سے سوراخ ہو۔ جس طرح یہ بالٹی کبھی نہیں بھر سکتی اسی طرح بداعمالی کے ساتھ نیک اعمال روحانیت کی کیفیت پیدا نہیں کرسکتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ پیچیدگیوں سے نکلنے کے لیئے ہمیں علمائے ربانیین کے بیان کردہ اس فلسفے کو سمجھنا ہوگا کہ روحانیت کی سب سے پہلی منزل اوصاف رزیلہ کا انسان کے دل سے نکلنا ہے اوردوسری منزل دل کا اوصاف حمیدہ کا خوگرہو نا ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیئے سب سے پہلے ہمیں سچے دل سے توبہ کرنی چاہیئے اور پھر روحانیت کے حصول کے لیئے نیک راستوں پر چل پڑنا چاہیئے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں اسی امر کی طرف بلایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: ” اور اے ایمان والو ! سب مل کر اللہ کے سامنے توبہ کرو ؛ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔” (النور:31)
(مضمون نگار مدثر احمد قاسمی ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹرنیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔)