ماہِ ربیع الاول کی آمد اور تقاضا: نور نبوت سے دنیا کے ہر طبقے کو فیضیاب کریں!
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے کامیابی اور ہدایت کی روشنی بکھیر گئے۔ جس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے وہ زمانہ اپنی ظلمت کیلئے اس قدر مشہور تھا کہ اہل بصیرت اور تاریخ نویسوں نے اسے زمانہ جاہلیت سے موسوم کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی تاریکی میں کسی ایسی روشنی کی ضرورت تھی جو ایک ایک گوشے کو منور کردے۔ اسی کے تعلق سے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ’’بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضورؐ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔ ‘‘ (المائدہ: ۱۵)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے روشنی اندھیروں کا قلع قمع کردیتی ہے، اسی طرح قرآن اور حامل قرآن مینارۂ نور ہیں، جن سے جہالت اور گمرہی کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی۔
ہمارا تجربہ ہے کہ جب گھٹا ٹوپ تاریکی میں اچانک روشنی ہوتی ہے تو ہماری نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور سامنے کی چیزیں بھی صاف نظر نہیں آتیں لیکن رفتہ رفتہ جب ہماری نگاہیں اس روشنی کا متحمل ہو جاتی ہیں تو آس پاس کی تمام چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں۔ کچھ اسی طرح جب نورِ نبوت کی ضیاپاش کرنوں نے جہالت کی تاریکی میں اپنے جلوے بکھیرے تو اہل عرب کی نگاہیں بھی خیرہ ہو گئیں لیکن خوش نصیب ترین لوگ بہت جلد اس روشنی سے مانوس ہوگئے اور اپنے آپ کو منور کر لیا اور باقی افراد جوں جوں اس روشنی سے مانوس ہوتے گئے، اپنے آپ کو منور کرتے رہے۔
یہاں سمجھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر زمانے میں تین طرح کے لوگ پائے جا تے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں کہ جو روشنی اور تاریکی میں خود فرق سمجھ لیتے ہیں، دوسرے وہ لوگ ہیں جو روشنی اور تاریکی کا فرق سمجھانے سے سمجھتے ہیں مگر اُن کا شمار سمجھ لینے والوں میں ہوتا ہے، اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو نہ خود روشنی اور تاریکی کا فرق سمجھتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے سمجھانے سے سمجھتے ہیں بلکہ ہمیشہ عجیب کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ نبیؐ اکرم کی حیات ِ مبارکہ میں مذکورتینوں جماعتوں میں سے اول جماعت کی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نور نبوت کو فوراً ہی پہچان لیا اور بالکل شروع میں شمع رسالت کے پروانے بن گئے جیسے حضرت ابوبکر، حضرت علی، حضرت خدیجہ وغیرہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)۔ دوسری جماعت کی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے سمجھانے کے بعد نور نبوت سے اپنے ضمیر کو روشن کیا، ان میں حضرت عمر اور حضرت ابو سفیان (رضی اللہ عنہما) جیسی شخصیتیں شامل ہیں اور تیسری جماعت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ خود نور نبوت کو سمجھا اور نہ سمجھانے سے سمجھے، اس جماعت میں کون لوگ شامل تھے یہ بتانے کی چنداں ـضرورت نہیں البتہ ایک نام اشارۃً لیا جاسکتا ہے جو ابو جہل کا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج بھی کیوں لاکھوں افراد از خود نور نبوت کو پہچان کر دامن اسلام میں پناہ لیتے ہیں ! یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی تحقیق اور جستجو کے نتیجے میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوکر دامن رسالت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کثیر تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دعوت و تبلیغ کے مختلف ذرائع سے فیضیاب ہوکر نور نبوت کے شیدائی بنتے ہیں۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور نبیؐ اکرم پوری دنیا کیلئے رحمت ہیں اسی وجہ سے کثیر تعداد میں لوگ آپؐ کا امتی بننے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ چنانچہ عالمی ریلیجن ڈیٹا بیس اورپیو ریسرچ سینٹر کے مطابق ۲۰۵۰ء تک مذہب اسلام کو ماننے والی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی دنیا میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا موجود ہے جو نہ خود نور نبوت کو پہچانتے ہیں اور نہ سمجھانے سے سمجھتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے تعلق سے کاتب تقدیر نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:’’اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، نیز ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ ‘‘ (البقرہ: ۷) صاحب آسان تفسیر نے اس آیت کی بہت عمدہ تشریح کی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے اندر حق کو قبول کرنے کی فطری استعداد رکھی ہے؛ لیکن جب آدمی عناد کے جذبہ سے کسی بات کے نہ ماننے پر بہ ضد ہوجاتا ہے تو اس کی یہ استعداد آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے، اب دل میں حقائق کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، کان موجود ہیں ؛ لیکن کان سے دلوں کا فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ سنی اَن سنی ہوجاتی ہے، آنکھیں موجود ہیں ؛ لیکن وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر خدا تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ اسی کیفیت کا اس آیت میں ذکر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کے مہر لگانے کی وجہ سے وہ کفر پر بہ ضد ہیں ؛ بلکہ جانتے بوجھتے ان کے انکار و عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے اور ان کو بے توفیق اور محروم کردیا ہے گویا ان کا انکار و عناد سبب ہے اور بے توفیقی اس کا نتیجہ۔ ‘‘
اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم محسنؐ انسانیت کی سنت کی روشنی میں تینوں طبقوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا آپؐ نے کیا تھا۔ نبیؐ اکرم نے پہلے طبقے کے ساتھ جنہوں نے برضا و رغبت از خود دامن رسالت سے اپنے آپ کو وابستہ کیا اس طرح کا معاملہ فرمایا کہ ان کے خوشی اور غم کو اپنی خوشی و غم بنالیا اور ان کے ساتھ اہل خانہ جیسا معاملہ روا رکھا۔ دوسرے طبقے کے لئے آپؐ نے بلا تھکے ہارے تبلیغ کے فریضے کو انجام دیا اور ان کے لئے راتوں کو اٹھ کردعائیں کیں اور تیسرے طبقے کے ساتھ جو کہ محروم ِازلی تھے آپ ؐ نے انسانیت کی بنیاد پر ہمدردی کا برتاؤ کیا۔ اگر ہم نے مذکورہ تینوں طبقوں کے تعلق سے اسوہ نبویؐ کو اپنا رہنما بنالیا تو خود بھی چین سے جئیں گے اور دنیا بھی ہماری وجہ سے امن کی جگہ بن جائے گی۔ ان شاء اللہ