حفاظتِ دین کے لیے اللہ کا دو غیبی نظام
ازـــــ محمدسلمان عالم قاسمی
دینِ اسلام کوئی انسانی منصوبہ یا وقتی ضابطۂ حیات نہیں بلکہ یہ ربِ ذوالجلال کا اتارا ہوا وہ آسمانی دین ہے جس کی رہنمائی قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہے۔ اس دین کی حفاظت کا وعدہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
"إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون” (سورہ الحجر: 9)
بلاشبہ ہم نے ہی یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
یہ صرف قرآن کی حفاظت کا نہیں بلکہ پورے دینِ اسلام کی بقا، سلامتی اور فروغ کا وعدہ ہے، کیونکہ قرآن ہی دین کا بنیادی سرچشمہ ہے، جس کے ساتھ سنتِ نبوی ﷺ اور اجماعِ امت کی شکل میں مکمل نظامِ حیات موجود ہے۔
چنانچہ اسلام کے روز اول سے ہی اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کے لیے دو دائمی اور غیبی انتظامات فرمائے ہیں :
١۔ کامل اور زندہ تعلیمات کا مکمل گلدستہ
اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺ کو جو شریعت عطا فرمائی، وہ ہر زمانے کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ قرآن و سنت کے وہ اصول جو چودہ سو سال قبل دیے گئے، آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں، بلکہ جدید دنیا کی فکری طور پر بھٹکی ہوئی اقوام کو امن، عدل، اور ہدایت کی راہ دکھانے میں سب سے مؤثر ہیں۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے ہر دور کے فکری اور تہذیبی طوفانوں کا سامنا کیا اور ہمیشہ کامیاب ہوئیں۔
٢ ۔باکمال رجالِ کار کی تیاری:
دوسرا اور سب سے مؤثر غیبی نظام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے باکمال افراد پیدا فرماتا رہا ہے، جو نہ صرف دین کے سچے ترجمان ہوتے ہیں بلکہ اس پر عمل کر کے امت کو عملی رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان حضرات نے جب جب دین پر مختلف حملے ہوتے ہوۓ دیکھے، علم، تقویٰ، اخلاص اور قربانی کے ہتھیار سے لیس ہوکر ان کا دفاع کیا۔
امام غزالیؒ نے فلسفے کے زہر کو ختم کیا، مجدد الف ثانیؒ نے تصوف کو شریعت کے تابع بنایا، حضرت شاہ ولی اللہؒ نے دین کو سماجی نظام سے جوڑا، اور برصغیر کے علمائے دیوبند نے دین کے دفاع، مدارس کے قیام، اور عوامی بیداری کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔
آج کا دور فتنوں، مادیت پرستی، سوشل میڈیا کی یلغار، دینی بیزاری، مغربی افکار کے غلبے، اور دینی تعلیم سے دوری کا ہے۔ ایسے حالات میں دین کے دفاع کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کا غیبی نظام آج بھی متحرک ہے۔ ہر علاقے میں، ہر زبان میں، کوئی نہ کوئی مردِ مومن دین کا پرچم تھامے کھڑا ہے، چاہے وہ خطیب ہو یا مصنف، استاد ہو یا طالب علم، مجاہد ہو یا مصلح۔
یہ اللہ کی خاص عنایت ہے کہ دین کی حفاظت کسی ایک فرد یا قوم کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ خود اس کے نظامِ ربانی پر قائم ہے۔ البتہ ہر فردِ امت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کی خدمت کے لیے اپنی استعداد کے مطابق کردار ادا کرے، کیونکہ یہی عمل اسے بھی اللہ کے غیبی لشکر کا حصہ بناتا ہے۔
لہذا ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کا غیبی قانون دینِ اسلام کی حفاظت کے لیے ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ یہ ایک ایسا الٰہی وعدہ ہے جس پر تاریخ گواہ ہے۔ اور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس غیبی نظام پر بھروسہ رکھتے ہوئے خود بھی دین کے سپاہی بنیں، علم حاصل کریں، باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، اصلاحِ نفس و امت کا بیڑہ اٹھائیں، اور اللہ کی اس سنت میں شامل ہو جائیں جس کے تحت وہ اپنے دین کو سربلند رکھتا ہے۔
I like what you guys are up too. Such clever work and reporting! Carry on the superb works guys I’ve incorporated you guys to my blogroll. I think it’ll improve the value of my website :).