زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے
ازــــــ محمد توقیر رحمانی
ایک زمانہ تھا جب سورج علم کے افق پر مشرق سے طلوع ہوتا تھا۔ جب عربوں کے خیموں سے نکلتی فکری روشنی اندلس سے بخارا تک پھیلتی تھی۔ جب بغداد کی درسگاہیں، قاہرہ کے کتب خانے، اور قرطبہ کے مدارس دنیا کے اذہان کو مہمیز دیتے تھے۔ اس وقت علم، فلسفہ، سائنس اور روحانیت کا مرکز عالمِ اسلام تھا، اور "سفر برائے علم” ایک فخر تھا، اگر وہ عالمِ عرب کی طرف ہوتا۔
مگر آج… وہی قافلہ علم، جو مکہ و مدینہ کے گلی کوچوں سے گزرتا تھا، اب مغرب کے جامعات کے دریچوں میں کھو چکا ہے۔ اب عالم کا قبلہ تبدیل ہو چکا ہے؛ زبان، لباس، طرزِ فکر، اور حتیٰ کہ روحانی سانچے بھی مغربی ڈھب پر ڈھل چکے ہیں۔ یہ فطری ہے؛ تاریخ کی کتاب بتاتی ہے کہ محکوم قومیں حاکم قوموں کی ظاہری اور باطنی روش اپنا کر فخر محسوس کرتی ہیں۔
آج یورپ کی حکمرانی صرف معیشت، سیاست اور ٹیکنالوجی تک محدود نہیں، بلکہ ایک فکری نوآبادیاتی نظام بھی پوری شدت سے نافذ العمل ہے۔ اور اس نظام کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: الحاد و دہریت کا فکری سیلاب—ایک ایسا سیلاب جو صرف ایمان کو نہیں بہاتا، بلکہ انسان کے وجود کی معنویت کو بھی ڈبو دیتا ہے۔ جب کسی قوم میں اپنی تہذیب پر یقین متزلزل ہو جائے، تو وہ بالضرورت غالب اقوام کے افکار و اطوار کو برتر سمجھ کر اپنانے لگتی ہے؛ کیونکہ انسان اپنی فطرت میں غلبے کو معیارِ حق ماننے کا میلان رکھتا ہے۔ محکوم قوموں کا حاکم اقوام کے ظاہری و باطنی اطوار کو اپنانا دراصل ان کے فکری استغراق، نفسیاتی انفعال اور اپنی تہذیب و اقدار پر ایمانی ضعف کی علامت ہوتا ہے۔
الحاد: عقل پرستی کی آڑ میں روح کی انکار
الحاد، جو سطحی طور پر ایک سادہ سا انکارِ خدا ہے، درحقیقت ایک گہری فکری بیماری ہے۔ ملحد یہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے—مگر اس انکار کے پیچھے جو عقلی مغالطے، روحانی محرومیاں، اور وجودی بحران چھپے ہیں، وہ قابلِ غور ہیں۔
یہ کہنا کہ کائنات بس ایک اتفاقیہ ہے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی دعویٰ کرے کہ ایک عظیم الشان محل خودبخود تعمیر ہو گیا ہو—بغیر معمار، بغیر منصوبہ، بغیر مقصد۔ عقل تو فطرت کے قوانین کی تابع ہے، مگر الحاد عقل کو آزادی کا نام دے کر بے لگام کر دیتا ہے؛ اور جب عقل وحی کے سائے سے نکلتی ہے، تو وہ نور کے بجائے نار بن جاتی ہے۔
الحاد کا اصل خمیر مغرب کی اس "سائنس پرستی” میں چھپا ہے جس نے عقل کو آخری میزان بنا دیا۔ مگر کیا عقل وہ میزان ہے جو خیر و شر کا فیصلہ کر سکے؟ اگر ہر شے عقل کے ترازو پر تولی جائے تو محبت، ایثار، قربانی، حتیٰ کہ جمالیات بھی بے معنی ہو جائیں۔ کیا عقل کبھی بتا سکتی ہے کہ آنکھوں میں آنسو کیوں آتے ہیں جب ہم اذان سنتے ہیں یا کسی شہید کے لہو سے بھیگی مٹی کو دیکھتے ہیں؟
دہریت: مادّیت کی بند گلی میں بھٹکتی انسانیت
دہریت کا فکری چہرہ الحاد سے کم مخرّب نہیں۔ دہریہ شخص خدا کا صریح انکار نہیں کرتا، مگر اسے زندگی کے منظرنامے سے غیر ضروری قرار دے دیتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک حیاتیاتی عمل، کائنات ایک کیمیاوی حادثہ، اور انسان محض پروٹینز اور نیورونز کا مجموعہ ہے۔

ایسا تصور انسان کو اس کی بلندی سے گرا کر حیوانوں کی سطح پر لے آتا ہے۔ اگر ماورائیت بےمعنی ہے، تو اخلاق بھی ایک فریب، محبت ایک ہارمونی کا کیمیائی ردعمل، اور موت محض فنا کا ایک لمحہ۔ پھر انسان جئے یا مرے، اس میں کیا فرق؟ یہی دہریت کی خوفناک منزل ہے: زندگی بے معنی، موت بے مقصد، اور وجود بے سمت۔
زندیقیت: جب دل ایمان کا دعویٰ کرے اور دماغ دہریہ ہو جائے
افسوس کہ یہ سیلاب صرف غیر مسلم اقوام کو نہیں بہا رہا، بلکہ ہمارے گھروں، ہمارے اسلامی یونیورسٹی اور کالجز، ہمارے اذہان میں سرایت کر چکا ہے۔ آج ہم بظاہر مسلمان ہیں—نمازی، روزہ دار، حتیٰ کہ واعظ و خطیب—مگر ہماری فکر، ہمارا طرزِ جُستجو، اور ہماری اقدار مغرب کے سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔ یہ ہے زندیقیت—ایسا فکری تضاد جس میں انسان نہ خالص مؤمن رہتا ہے، نہ صاف کافر۔ وہ عبادت گاہ میں خدا کو پکارتا ہے، اور کلاس روم میں اس کے انکار کو علم سمجھتا ہے۔
زندیق وہ ہے جو کلمہ پڑھ کر بھی خدا کے بجائے سسٹمز، مٹیریلزم، اور ہیومنزم میں ایمان رکھتا ہے۔ اور زندقیت، الحاد و دہریت کی اس مکسڈ ڈوز کا نام ہے جو انسان کو ایمان کے لباس میں کفر کی غذا کھلاتی ہے۔
تدارک: فکری طوفان کے مقابل شعوری بیداری کا سفر
الحاد و دہریت کا جو فکری طوفان آج دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، اس کے سامنے اگر ہم محض جذباتی نعرے یا سطحی وعظ کو تلوار بنائیں گے، تو یہ سیلاب ہمارے اذہان، معاشروں اور نسلوں کو نگل جائے گا۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہے ایک سنجیدہ، تدریجی اور باوقار مزاحمت کی۔ ایک ایسی مزاحمت جو نہ صرف عقیدے کی گہرائیوں سے جنم لے، بلکہ عقل، علم، فہم اور اخلاص کی بنیادوں پر استوار ہو۔ ہمیں ایسا نظامِ تدارک اپنانا ہوگا جو عملی بھی ہو، آسان بھی، اور ہر باشعور فرد کے لیے قابلِ عمل بھی—ایسا محسوس ہو کہ: ہاں، یہ میرے بس کی بات ہے، میں یہ کر سکتا ہوں۔
سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی فکر کی تعمیر نو کریں۔ روزمرہ کی مصروفیات سے ہٹ کر روزانہ چند لمحے نکالیں اور اپنے وجود سے جڑے بنیادی سوالات پر غور کریں: میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ میرے وجود کا مقصد کیا ہے؟ کائنات اتنی باقاعدہ کیوں ہے؟ کیا کوئی خالق ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے؟ یہ سوالات صرف فلسفیوں کا موضوع نہیں، بلکہ ہر زندہ دل انسان کے اندر جاگتے رہنے چاہئیں۔ یہی سوالات فکری شعور کو جھنجھوڑتے ہیں، اور انسان کو الحاد کے جمود سے نکال کر تلاشِ یقین کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔
دوسرا قدم یہ ہے کہ ہم قرآنِ حکیم کے ساتھ اپنا رشتہ صرف تلاوت تک محدود نہ رکھیں بلکہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی سطح پر استوار کریں۔ روزانہ ایک آیت بھی اگر ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھی جائے اور اس پر چند منٹ غور کیا جائے کہ یہ میرے حالات یا دل کی کیفیت سے کیسے جڑتی ہے، تو قرآن محض رسم نہیں رہتا بلکہ حیات کا رہنما بن جاتا ہے۔ وحی سے جُڑی یہ فکری بیداری انسان کو اس کا اصل تعارف کراتی ہے، اور مادّیت کے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بن کر اُبھرتی ہے۔
تیسرا اور نہایت اہم قدم ہے: ایمان کو دلیل کے ساتھ سیکھنا۔ آج کا نوجوان صرف جذبات سے نہیں جیتا، بلکہ وہ دلیل مانگتا ہے، تجزیہ چاہتا ہے، اور منطق سے قائل ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم علمِ کلام یا اسلامی عقائد پر مبنی سادہ اور مدلل کتابوں کا مطالعہ کریں—ہفتے میں ایک مختصر باب یا مضمون ہی سہی، مگر ایسا مطالعہ جو ہمارے عقائد کو عقل کی بنیاد پر استوار کرے۔ اس میدان میں معاصر علماء جیسے مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر اسرار احمد، یا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا صادق صاحب پوترک وغیرہ کی تحریریں رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
چوتھا مرحلہ سماج میں مکالمے کو فروغ دینا ہے۔ آج کا نوجوان یا بچہ جب سوال کرتا ہے: "اللہ کہاں ہے؟”، "کائنات کیسے بنی؟”، "اگر تقدیر طے شدہ ہے تو کوشش کا کیا فائدہ؟”—تو ہمیں اسے خاموش کرانے یا ڈانٹنے کے بجائے اس کے سوال کو سراہنا چاہیے، اور مکالمے کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ہم جواب نہ جانتے ہوں تو صاف کہہ دیں: "آؤ، ہم مل کر تلاش کرتے ہیں۔” یہی طرزِ مکالمہ زندقیت کے خلاف سب سے موثر ہتھیار ہے، اور یہی نسلوں کو ایمان کی روشنی منتقل کرنے کا نبوی طریقہ بھی ہے۔
پانچواں قدم سوشل میڈیا کے میدان کو نظرانداز نہ کرنا ہے۔ آج دنیا کے نظریات انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ ایسے میں ہفتے میں ایک بار ہی سہی، مگر ہم کسی ایک فکری، روحانی یا خدا پرستی سے جُڑی تحریر، اقتباس یا ویڈیو شیئر کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ طویل وعظ ہو، بلکہ مختصر مگر فکر انگیز بات ہو، جو کسی کے ذہن میں سوال اُبھار دے، یا دل میں ایک چنگاری سلگا دے۔ یاد رکھیے، الحاد کی بنیاد نفرت پر نہیں بلکہ خلا پر ہے، اور ہم نے اس خلا کو محبت، بصیرت اور فکر سے پُر کرنا ہے۔

چھٹا اور آخری قدم صالح صحبت کی تلاش ہے۔ ہر انسان کو زندگی میں کم از کم ایک ایسا دوست، بزرگ یا مربی چاہیے جو اس کی فکری اور روحانی رہنمائی کرتا رہے۔ اگر ایسا کوئی شخص میسر نہ ہو، تو ان کے افکار، کتابیں یا تقاریر کو اپنا ساتھی بنا لیجیے۔ ذہن کی بیداری اور روح کی حفاظت کے لیے ایسے رفیقوں کا ساتھ آکسیجن کی طرح ہے—خاموش، مگر ناگزیر۔
الغرض، الحاد و دہریت کی اس یلغار کے خلاف ہماری بیداری کا آغاز صرف ایک معمولی قدم سے ہو سکتا ہے: روزانہ ایک آیت، ایک سوال، ایک مکالمہ۔ ہفتہ وار ایک کتاب، ایک ویڈیو، ایک مجلس۔ ماہانہ ایک مضمون، ایک فکری نشست، یا ایک تربیتی حلقہ۔ یہی وہ چھوٹے چھوٹے قدم ہیں جو آگے چل کر فکری انقلاب کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔
ہمیں طوفان کا رونا نہیں رونا، ہمیں چراغ جلانے ہیں۔ اور وہ چراغ ہر اس شخص کے ہاتھ میں ہے جو رات کی تنہائی میں سجدے کی نمی رکھتا ہے، اور دن کی روشنی میں دلیل کے ساتھ ایمان کا مقدمہ لڑتا ہے۔
