اکبر نگر، لکھنؤ، بلڈوزر کلچر
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ــــــــــــــــ بول زباں اب تک تیری ہے
طہ جون پوری
16 – جون – 202
ـــــــــــــــــــــــ
ابھی 2024 کا انتخاب ختم نہیں ہوا، کہ اکبر نگر لکھنؤ کے ہزاروں رہائشیوں پر جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ چلنا شروع ہوچکی ہیں اور ماضی کی طرح غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا سہارا لے کر، اُن مکینوں کے گھروں کو تاش کے پتوں کو طرح بکھیرا جا رہا ہے.
اس ملک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستان کوئی نئی نہیں ہے. بس نوعیت بدلتی رہی ہے. فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے. بے گناہوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں میں سڑانے کی بات ہی الگ ہے. ادھر اب بلڈوزر سے گھر کو مسمار کرنے کا ایک الگ کلچر چل پڑا ہے.
سر کے اوپر چھپر کا انتظام کرنا کتنا مشقت بھرا کام ہے. انسان کے عمر بھر کی کمائی لمحوں میں، پانی کی طرح بہ جاتی ہے. لیکن ظلم و بربریت کرنے والوں کو اس کا احساس کہاں ہوگا. اسی لیے معروف شاعر جناب بشیر بدر (ولادت: 15 / فروری / 1935 فیض آباد) نے کہا تھا:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں، ایک گھر بنانے میں ــــــــــــــــــتم ترس نہیں کھاتے، بستیاں جلانے میں
کچھ یہی صورت حال لکھنؤ کے اکبر نگر کی ہے. یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سالہا سال سے آباد ہے، لیکن اب لکھنؤ ڈویلپمنٹ اتھاڑتی یعنی ایل ڈی اے نے کُکرَیل رِیوَرْبِڈ کی تزئین اور دریا کی توسیع کے نام پر، کارروائی شروع کردی ہے اور کئی سو اسٹرکچرز مثلاً مکانات، دکانیں، مسجد وغیرہ زد میں آچکی ہیں.
انگریزی کے مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، بسنت کنج یوجنا کے تحت ہردوئی روڈ پر تعمیر شدہ مکانات میں 892 خان دان منتقل ہوچکے ہیں، جب کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 1800 سو سے زائد متاثرہ خاندان کو رہائش دی جاچکی ہے. (اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں)
خیر سوشل میڈیا کے توسط سے جو تصویریں یا ویڈیوز موصول ہورہی ہیں، وہ انتہائی دل خراش ہیں. ماؤں کی چیختی آوازیں، بچوں کی سسکیاں، بوڑھوں کی بلکتی آنکھیں، جوانوں کی ہچکیاں پکار پکارکر کہ رہی ہیں، کہ اے میرے ہم مذہبوں آؤ میری حفاظت کرو. اے ہمارے ملی قائدین، ہمارے مکانات کے تحفظ کے لیے، خواب گاہوں سے باہر نکلو. اے مذہبی رہنماؤ! بلا تفریقِ مذہب و ملت ہماری کَس مَپُرسی کے لیے سینہ سِپَر ہوجاؤ. وہ دیکھو 74 سالہ آہنی خاتون برندا کرات کو، اپریل 2022 میں کس طریقے سے جان جوکھم میں ڈال کر، عدالت عظمیٰ کا آرڈر لے کر، جہانگیر پور دہلی میں بلڈوزر کے سامنے سینہ سپر ہوگئی اور یہ پیغام دے چکی ہے، کہ غیرقانونی قبضہ کرکے، آسانی سے گھروں کو زمین دوز نہیں کیا جاسکتا. مظلوموں کی آہیں آواز دے رہی ہیں کہ حُکَّام سے پوچھو:
* اگر یہ مکان غیر قانونی تھے، تو ان کے ووٹر کارڈ کیسے بنے؟
* بجلی بل کیسے ان کو ایشو کی گئی؟
* اگر یہ سب غیر قانونی تھے، تو ان کے آدھار کارڈ، پین کارڈ کیسے بنا دیے گئے؟
* کونسلر، ایم ایل اے اور ممبر پارلیمنٹ ان کے ووٹوں سے کیسے منتخب ہوئے؟
* جو دکانیں چل رہی تھی، ان کے لائسنس کیسے ایشو کیے گئے؟
* گھر کا ٹیکس، پانی کا ٹیکس کن بنیادوں پر وصول گیا؟
اگر یہ ساری چیزیں ہیں، تو ان کا جواب پوچھنا چاہیے. یہ جمہوریت ہے. اور جمہوریت میں خاموشی موت ہے. یہاں حکومت سے سوال کرنا یہ آپ کا حق ہے.
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں ــــــــــــ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس لیے ابھی بھی وقت ہے، کھڑا ہونے کی ضرورت ہے، شاید کہ اس حرکت میں کچھ برکت ہوجائے، کیوں کہ جد و جہد کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آنے والا. ورنہ نا جانے کتنے آشیانے ابھی اور زد میں آئیں گے.