_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _
از : محمد زکریا قاسمی
متعلم گورنمنٹ طبی کالج اینڈ ہاسپٹل پٹنہ
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا تعلق محسوسات سے ہوتا ہے، خواہ وہ فرحت و مسرت کے لمحات سے ہوں یا پھر حسرت و یاس کی جاں گداز گھڑی ، جنہیں چاہ کر بھی انسان سپرد قرطاس/ کیبورڈ نہیں کر سکتا کیونکہ:
جذبات اک عالم اکبر ہے الفاظ کی دنیا چھوٹی سی۔
انہیں خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ مؤرخہ 13/11/2024 کو مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے بوجھل دل لے کر، بذریعہ اتکل اکسپریسر، دہلی کے لئے روانہ ہوا؛ جہاں تک بات غم کی ہے تو ظاہر ہے کہ چمن سے بوقت رخصت بلبل کا تڑپنا تو بنتا ہے٬ اور خوشی اس بات کی کہ عرصۂ دراز بعد ان روح پرور، مشام جاں کو معطر کر نے والی فضاؤں میں واپسی ہوئی تھی جن کی آغوش میں پل کر جواں ہوئے تھے جہاں کی زرخیزی اور رجال ساز ماحول نے کچھ پڑھنے لکھنے کا شعور بخشا، اور آج جو کچھ بھی ہیں اسی مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی دین اور اسی کے رہین منت ہے ، ورنہ:
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل؟
یقیناً اس کے فراق میں مجھ جیسے ہزاروں فرزندان دارالعلوم کا بھی وہی حال ہوتا ہوگا جس کا اظہار ایک عربی شاعر نے کچھ یوں کیا ہے:
يا بَيتَ عاتِكَةَ الَّذي أَتعزَّلُ
حَذَرَ العِدى وَبِهِ الفُؤادِ مُؤَكَّلُ
( اے شبستان عاتکہ! خوف عدو کی وجہ سے تجھ سے دوری میری مجبوری ہے، مگر دل کیا کریں یہ بے چارا تو تجھ ہی سے چمٹا پڑا ہے)
بعینہ یہی صورت حال یہاں کے فضلاء کی ہوتی ہے کہ مسائل روزگار اور ذمہ داریوں کی وجہ سے دوریاں ضرور پیدا ہوگئیں ہیں، مگر وہ لوگ دارالعلوم دیوبند کی زیارت اور اس کے در و دیوار کے دیدار کو بے قرار رہتے ہیں، اور ان کے لئے یہ کیفیت ایک طبعی امر ہے کیونکہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند اپنے گوناگوں خصوصیات کی بناء پر اپنے محبین کی خاطر اپنے اندر ایسی کشش رکھتا ہے کہ اس کے دیوانے اس کی طرف پروانہ وار چلے آتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند، جو جویان حق اور طالبان علوم نبوت کا ماویٰ وملجا ہے، جہاں سے قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں ایک مدتِ دراز سے بلند ہو رہی ہیں، جس کی گونج اس کے فرزندوں کے توسط سے دنیا کے گوشے گوشے میں سنی جارہی ہے، یہ علم و ادب کا گہوارہ اور تاریخ کا ایک شہ پارہ ہے،اخلاص کا ایسا مینارہ نور ہے جہاں کہسار دب جاتے ہیں، طوفان رک جاتے ہیں، خورشید جس کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے,مہتاب جس کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے ،یہ سادات کے سچے اور صاف عمل کا اک شیش محل، خلوص و للہیت کا اک تاج محل ہے، اس وادئ ایمن سے تعلیم کلیم طور عام کی جاتی ہے، طیبہ کی مئے مرغوب یہاں ہر رند اور میکش کو سفال ہندی میں دی جاتی ہے ، رندان ہدایت پر تقدیسِ طلب یہاں عیاں ہوتی ہے، امداد و رشید و اشرف کا یہ ایک قلزم عرفاں ہے، جو عرصۂ دراز سے تا وسعت امکان پھیلتا چلا آرہا ہے، اور ان شاءاللہ تاقیامت پھیلے گا، اس میکدے سے نکلنے والا ہر رند پیر مغاں کہلاتا ہے،اس صنم خانے میں محمود تراشے جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ دارالعلوم دیوبند رعد کی گونج، بادل کی گرج، ہوا کا فراٹا، فضا کا سناٹا ،صبح کا اجالا، چاندی کا چھالا،ریشم کی جھلملاہٹ، ہوا کی سرسراہٹ ،گلاب کی مہک، سبزے کی لہک،آبشاروں کا بہاؤ ، شاخوں کا جھکاؤ،طوفان کی کڑک ، سمندروں کا جوش و خروش ،پہاڑوں کی سنجیدگی ، صباء کی چال، أوس کی نمی، چنبلی کا پیراہن ، تلوار کا لہجہ ، بانسری کی دھن، عشق کا بانکپن ، حسن کا اغماض اور کہکشاں کی مسجع و مقطع عبارتوں کی تصوری و نظری خوبصورتیوں کو یکجا کیا جائے تو جو دلکش و دل ربا تصویر سامنے ابھر کر آئے گی وہ دارالعلوم دیوبند ہو گا۔ یہی وہ عزیز تر آ ئینۂ جہاں نما ہے جو ” _ہر ذرہ دامن دل می کشد کہ جنت ایں جا است”_ کی واضح تفسیر ہے، جس کو دنیائے صحافت و خطابت کے بے تاج بادشاہ حضرت شورش کاشمیری نے یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ:
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
ہندوستان کے سر پہ ہے احسان مصطفیٰ
تاحشر اس پہ رحمت پروردگار ہو
پیدا کئے ہیں جس نے فدایان مصطفیٰ
اس مدرسے کے جذبہء عزت سرشت سے
پہنچا ہے خاص و عام کو فیضان مصطفیٰ
گونجے گا چار کھونٹ نانوتوی کا نام
بانٹا ہے جس نے بادۂ عرفان مصطفیٰ
مقام شکر ہے کہ تاریخی حقائق سے یہ بات پائہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی کو کھ سے ایسے رجال کار اور مرد میدان پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے حدود شریعت کی ایسی حفاظت کی ہیں کہ خلاف شرع کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کیا اور بلا خوف لومة لائم حق کی پاسبانی کی، اور بھرپور بصیرت کے ساتھ اس کی ترجمانی کی ہے۔ اور پوری ملت اسلامیہ، خصوصاً اسلامیہ ہندیہ کی خالص دینی ،علمی ، فکری اور روحانی رہنمائی میں وہ نمایاں کردار ادا کیا ہے کہ بجا طور پر جن کے بارے میں، تشکّر آمیز افتخار کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ:
مشہور جو اک قافلۂ اہل جنوں ہے
اس قافلے کے قافلہ سالار ہمیں ہیں
بانیانِ دارالعلوم دیوبند کی فراست، دورسی، دور اندیشی اور دور بینی کے حوالے سے، – بفضل اللہ وکرمہ – ماثور ” فراست مومن” ثابت ہوئی ہے.
آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں اس سے دھوکہ کھائیں کیا؟
دل تو عاجز دیکھ رہا ہے حد نظر سے آگے بھی
دارالعلوم دیوبند نے اپنے قیام کے روز اول ہی سے دنیا کو وہ افراد فراہم کئے ہیں جن میں ایسی خدا داد صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جن سے وہ احوال امروز کو پرکھ لیتے ہیں اور ان کے سیاق و سباق سے آنے والے احوال فردا کو بھی آسانی سے آنک لیتے اور تاڑھ لیتے ہیں، یا یوں کہئے کہ قسام ازل نے نبض شناسی سے ان کو وافر مقدار میں حصہ دیا ہے، جس کی بدولت وہ حالات کے تقاضوں کو پرکھ کر اور نوشتۂ دیوار کو پڑھ کر، قول خدا : ” وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط……” پر عمل پیرا ہونے کی – الحمد لله – ہرممکن کوشش کرتے ہیں، جس کی ایک زندہ مثال محسن ملت حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ذات گرامی قدر ہے، جو بقول اکابر ملهم من الله ہیں جنہوں نے دعوت وتبلیغ کے تقاضوں اور دفاع اسلام کی ضرورتوں کو محسوس کیا اور اکابر علماء دیوبند کے صلاح و مشورے سے علماء کرام کو ایک آفاقی زبان یعنی انگریزی زبان وادب سے لیس کرنے کا فیصلہ لیا، جس کے لئے اُنہیں علماء کی زیرنگرانی، ملک کے دارالسلطنت دہلی میں 15/04/1994 کو ایک ادارہ قائم کیا جس کو دنیا آج مرکز المعارف کے نام سے جانتی ہے، حالانکہ اس کے نصاب کی تعلیم و تدریس کا آغاز سرزمین انقلاب یعنی دیوبند میں واقع مدنی مسجد میں اس سے قبل ہی ہو چکا تھا، اس ادارے نے اپنے تیس سالہ کامیابی و کامرانی اور تجربات سے بھرپور سفر کے بعد ایک تاریخی قدم "مر کز آنلائن مدرسہ” کی طرف اٹھایا ہے اور اس کی شروعات کےلئے پھر اسی روحانی اور انقلابی سرزمین کا انتخاب کیا، جس کی تحریکات دنیا بھر میں مشہور ہیں، جس کے فضل و کمال کی خوشبو پوری دنیا میں محسوس کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ (جاری)