معزز علماء کرام سے اپیل
ازــــ محمد برہان الدین قاسمی
امارت شرعیہ کے قضیۂ نامرضیہ پر آپ ضرور گفتگو کریں اور اپنے خیالات تفصیل سے پیش کریں۔ یہ باصلاحیت اور معتدل مزاج علماء کا گروپ ہے، اس لیے آپ سے متوازن اور سنجیدہ بحث کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن ہر حال میں اس بات کا خیال رکھیں کہ گفتگو میں تلخی نہ آئے اور باہمی دوری پیدا نہ ہو۔ بہتر ہوگا کہ سوال، جواب اور پھر جواب الجواب ایک ایک لائن میں لکھنے کے بجائے، اپنے خیالات ایک ساتھ پیش کریں اور دوسروں کی آراء کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں، چاہے آپ ان سے اتفاق نہ کرتے ہوں۔ اگر کبھی گفتگو تلخ ہونے لگے تو بہتر ہے کہ ہم خود کو اس بحث سے الگ کر لیں۔ یاد رکھیں کہ یہ سبھی حضرات جو آج ایک دوسرے کے خلاف نظر آ رہے ہیں، لمبے وقت تک ایک ہی گروپ کے افراد رہے ہیں اور کل یہ پھر ایک ساتھ ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں آپ کے سخت مؤقف کا کیا بنے گا؟
کسی کی غیر ضروری حمایت یا مخالفت کی ضرورت نہیں۔ امارت شرعیہ امت کا ایک فعال ادارہ رہا ہے، اب اگر اس کو نقصان پہنچے تو افسوس ضرور ہوگا، لیکن ہم میں سے جو لوگ اس کے ممبر نہیں ہیں، وہ اس میں عملی طور پر کوئی خاص مثبت کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اس لیے صبر و تحمل کے ساتھ ان کے اختلافات ختم ہونے کی دعا کرنا ہی بہتر ہے۔
آج یکم اپریل، شام 4:30 بجے جب میں یہ پیغام ٹائپ کر رہا تھا، ایک معروف ٹی وی چینل کے غیر مسلم اینکر صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے صبح ایک DM بھی کیا تھا جسے میں دیکھ نہیں پایا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے:
"قاسمی صاحب، کل وقف ترمیمی بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہوگی، اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس دوران ہمارے چینل پر لائیو بحث میں شامل ہوں۔ ہمارا کیمرہ مین، آپ کی سہولت کے مطابق، آپ کے ادارے میں ہی سیٹ لگا دے گا۔ ہندوستان بھر سے مزید آٹھ یا دس افراد، اپنی اپنی جگہ سے یا ہمارے اسٹوڈیو سے، اس بحث میں شامل ہوں گے جو بل کی حمایت یا مخالفت میں دلائل دیں گے۔”
میں نے ان سے پوچھا کہ پارلیمنٹ میں جاری بحث کے دوران ہمارے ٹی وی پر ہونے والی گفتگو سے کیا بل کے پاس ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اثر پڑے گا؟ ان کا جواب تھا:
"… یہ کہنا مشکل ہے۔”
میں نے کہا:
"یہ مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے۔ ٹی وی پر ہماری بحث کا پارلیمنٹ کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ ہندوستانیوں میں مزید نفرت اور انتشار پیدا ہوگا۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں کسی ایسے کام کا حصہ بننا چاہیے جس کا مثبت نتیجہ نہ نکلنے کا یقین ہو۔”
وہ مجھے سالوں سے جانتے ہیں، اس لیے کچھ حد تک اصرار بھی کر رہے تھے، لیکن میری طرف سے صاف انکار رہا۔ پھر عید کی مبارکباد اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد بات ختم ہوئی۔
اس واقعے کا تذکرہ یہاں دو وجوہات سے کر رہا ہوں۔
1. ہر بحث میں حصہ لینا، خواہ آپ میں صلاحیت موجود ہو، ضروری نہیں ہوتا۔ ہمیں بحث کے ممکنہ نتائج پر پہلے سے نظر رکھنی چاہیے۔
2. وقف ترمیمی بل کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی حد تک بہت محنت کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے، جس میں جمعیت، جماعت اسلامی، امارت شرعیہ اور دیگر تنظیموں کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ بل پہلے ہی پارلیمنٹ میں پیش ہو چکا ہے، اور اب جے پی سی کے بعد، لگتا ہے کہ سی اے اے اور تین طلاق بل کی طرح، آخرکار شور شرابے کے بعد یہ بھی پاس ہو جائے گا۔ اس لیے ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ جہاں ممکن ہو، ہمیں اپنے بڑوں کا تعاون کرنا چاہیے۔
حالات آج خراب ہیں، ان شاء اللہ کل بہتر بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر بہتری کے لیے ہم سب کی اجتماعی سمجھ داری اور محنت کی ضرورت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ امت پر رحم فرمائے اور ہم سب کو صحت و تندرستی کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی دولت سے نوازے۔ آمین۔
نوٹ: یہ تحریر علماء کے ایک مخصوص گروپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی گئی تھی، عام افادہ کے مد نظر اسے ایسٹرن کریسنٹ میں شائع کیا گیا ہے۔