وقف قانون پر سپریم کورٹ کا فیصلہ امید افزا مگر اس متعصب قانون کے خلاف مزید جد وجہد جاری رکھنے کی ضرورت: مولانا بدرالدین اجمل
ممبئی (15ستمبر): آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈ یمو کریٹک فرنٹ(AIUDF) کے قومی صدر و سابق رکن پارلیمنٹ نیز جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے وقف ترمیمی قانون پر آج سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلہ کو انصاف کے حصول کے لئے حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے اس قانون کے خلاف مزید قانونی جدو جہد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ وقف ترمیمی قانون مکمل طورپر ظالمانہ اور متعصبانہ ہے اسی لئے ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ اس قانون کو مکمل طور پر کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ سرکار اس قانون کو محض مسلمانوں کو پریشان کرنے اور وقف جائداد کو ہڑپنے اور اس کو بندر بانٹ کرنے کی نیت سے لیکر آئی ہے۔ لیکن بہر حال عدالت عظمی نے ابھی محض کچھ سیکشن کی قانونی حیثیت پر ہی غور وفکر کیا تھا اور آ ج کا فیصلہ مسلمانوں نیز تمام انصاف پسندوں کے لئے امید افزا ہے۔ یقینا مسلم تنظیموں بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند (دونوں گروپ)،مسلم اور انصاف پسند مسلم رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے انفرادی طور پر اس ظالمانہ قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے اسے کالعدم قرار دینے کی قانونی لڑائی بڑے حوصلہ کے ساتھ لڑی ہے جس کے نتیجہ میں یہ فیصلہ آیا ہے۔ اس کے لئے یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں مگر میرے خیال سے یہ پہلا قدم ہے۔ اسلئے اس سیاہ قانون کے دیگر تمام متعصابہ سیکشن کو مسترد کرنے کے لئے مزید قانونی لڑائی جاری رہنی چاہئے۔

مولانا اجمل نے کہا کہ آج کے فیصلہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئے قانون کے تحت سرکاری نامزد آفیسر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ کسی بھی زمین سے متعلق جب تک وہ یہ رپورٹ نہ پیش کر دے کہ یہ وقف کی ہی زمین ہے اور یہ قبضہ کی ہوئی نہیں ہے تب تک وہ وقف جائداد نہیں رہتی مگر عدالت نے اس بے جا اختیار کو سلب کر دیا ہے۔ اسی طرح نئے قانون میں کلکٹر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی زمین کو غیر وقف قرار دے اور اسے وقف کے ریکارڈ سے ہٹا کر سرکاری ریکارڈ میں اندراج کروا دے مگر آج عدالت نہ اس اختیار کو بھی ختم کرکے اسے وقف ٹریبیونل اور عدالت کو دے دیا ہے وہي کسی زمین کے وقف ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ حربہ تھا جسے استعمال کرکے سرکار وقف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی مگر بہر حال عدالت نے اس راستہ کو بند کر دیا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ مرکزی وقف کونسل کے کل 20 میں سے زیادہ سے زیادہ 4 ممبران ہی غیر مسلم ہو سکتے ہیں، اور ریاستی وقف بورڈ میں 11 میں سے زیادہ سے زیادہ 3 ممبران ہی غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ جہاں تک ممکن ہو وقف کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مسلمان ہی ہونا چاہئے۔ در اصل سرکار وقف جائداد کے مینیجمنٹ میں زیادہ سے زیادہ اپنے لوگوں کو شامل کرکے وقف کی جائداد سے متعلق اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے ارادہ سے ہی یہ سب سیکشن لیکر آئی تھی۔مولانا اجمل نے کہا کہ در اصل سرکار ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے اسی لئے وہ ایسے ایسے متنازع قانون بنا رہی ہے جس میں الجھ کر لوگ اس کی ناکامی پر سوال نہ اٹھا سکیں، اسلئے تمام طبقہ کے لوگوں کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
