اپنے پیاروں سے بے جا ہمدردی نہ کریں!
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روز نامہ انقلاب کے کالم نگار ہیں۔
کسی سی حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ وہ کام کریں جس سے آپ کے محبوب کو نفع ہو نہ کہ نقصان۔اس حوالے سے ایک عجیب غلط فہمی جس کے ہم شکار ہیں وہ یہ ہے کہ ہم بسا اوقات اپنے پیاروں کو مشقت سے بچانے کے لیئے اور بظاہر انہیں فائدہ پہونچانے کے لیئے وہ کام کر جاتے ہیں جو در حقیقت انہیں پریشانی میں ڈالتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کی ایک عام فہم مثال یہ ہے کہ ہم کبھی کبھار اپنےبچوں کو شادی بیاہ یا کسی تقریب میں شرکت کروانے کے لیئے ضرورت سے زیادہ کئی کئی دن اسکول یا مدرسے سے چھٹی کروا دیتے ہیں جس سے ان بچوں کی تعلیم سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور انہیں پٹری پر واپس لوٹنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم ستم یہ کرتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد پھر کسی غیر اہم کام کے لیئے بچوں کی چھٹی کروا دیتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہمارا یہ طرز عمل جو بظاہر بچوں کی محبت میں ہوتا ہے, ان کے مستقبل کے لیئے کسی زہر سے کم نہیں ہوتا؛ کیونکہ اس سے جہاں بچے مستقل مزاج نہیں بن پا تے جو کسی بھی کامیابی کے لیئے ضروری ہے، وہیں وہ سہل پسند بھی بن جاتے ہیں۔ یہ عادتیں انہیں آگے قدم بڑھانے سے روکتی ہیں۔
اس تعلق سے جب ہم شریعت اسلامی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اپنے پیاروں کے تابناک مستقبل اور کامیاب زندگی کے لیئے ہمیں ان سے وہ کام ضرور کروانا چاہیئے جو وقتی طور پر دقت طلب اور پر مشقت ہو لیکن اس کا نتیجہ شاندار ہو۔ چنانچہ ذیل کی روایات میں ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام فجر کی نماز کے لیئے اپنے احباب کو اور اہل خانہ کو جگایا کرتے تھے؛ حالانکہ صبح کے وقت میں گہری نیند آتی ہے، اگر اس گہری نیند میں ان کی بھلائی ہوتی تو وہ مقدس ہستیاں کبھی بھی انہیں نہ جگاتیں۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِفجرکے لئےنکلا تو آپ جس سوتے ہوئے شخص پر گزرتے اسے نماز کے لئے آوازدیتے۔ (ابو داؤد) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رات کے آخری پہر اپنے گھر والوں کو نماز کے لئے جگا دیتے۔(مشکوۃ) حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھانے کے لئے نکلے تو راستے بھر لوگوں کو جگاتے رہے ۔(تاریخ الخلفاء)
مذکورہ روایات سے ہم دو اہم ہدایات اخذ کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے چھوٹوں اور پیاروں کی فکر بڑوں کو ضرور کرنی چاہیئے؛ کیونکہ بڑے جو سمجھتے ہیں، چھوٹوں کی رسائی وہاں تک نہیں ہوتی۔ اس لیئے بڑے اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو چھوٹوں کا نقصان یقینی ہے۔ مذکورہ روایات سے دوسری ہدایت ہمیں یہ ملتی ہے کہ ہماری نظر اپنے پیاروں کے وقتی اور ناپائیدار آرام کے بجائے ان کے ہمیشہ ہمیش کی کامیابی اور پائیدار آرام پر ہونی چاہیئے۔ جب ہم ان دونوں ہدایات پر عمل کر یں گے تو صرف ہمارے پیاروں کا مستقبل ہی نہیں سدھرے گا بلکہ وہ سہل پسندی کی بیماری سے بھی شفاء یاب ہوں گے۔یاد رکھیئے! اپنے پیاروں کے تعلق سے ہماری بیجا ہمدردی سے سہل پسندی کی جو خطرناک بیماری جڑ پکڑ تی ہے، اس کے بھیانک انجام سامنے آتے ہیں.
ہمارے لیئے یہاں سمجھنے والی ایک بات اور یہ ہے کہ جہاں ہمیں اپنے پیاروں سے بیجا ہمدردی نہیں کرنی چاہیئے، وہیں ہمیں ان کے تعلق سے بیجا تشدد سے بھی بچنا چاہیئے۔ دراصل بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو فائدہ پہونچانا چاہتے ہیں اور اس کے لیئے جبر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے بچوں کو بہتر ڈھنگ سے پڑھانا چاہتے ہیں، اس کے لیئے اس کے مکمل وقت کو اس طرح مشغول کر دیتے ہیں کہ تفریح طبع کے لیئے اسے بالکل بھی موقع نہیں ملتا ہے۔ تشدد کی شکل میں اس طرح کی ہمدردی سے بھی بچوں کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی میں اس بات کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے کہ کامیابی اورنیکی کے لیئے انجام پانے والے کاموں میں توازن ہو۔ مثال کے طور پر نماز روزہ دونوں جہان میں فائدہ پہونچانے والے اعمال ہیں، اس کے باوجود شریعت میں اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے کہ کوئی ہر وقت نماز ہی پڑھتا رہے یا پورے سال بلا ناغہ روزہ رکھے۔ اس حوالے سے ذیل کی حدیث ہماری رہنمائی کے لیئے بہت اہم ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا، یعنی: جو عبادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کرتے تھے (جب گھر میں آپ کی زندگی عام معمول کے مطابق سامنے آئی تو )ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا:میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی نے کہا:میں کبھی بچھونے پر نہ سوؤں گا۔(یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بُلایا) اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی اور فرمایا:کیا حال ہے اُن لوگوں کا جو ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، یعنی: رات کو، اور سو بھی جاتا ہوں، اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے“ ۔ ( مسلم) اس روایت سے ہمیں متوازن زندگی اپنانے اور دوسروں کو اس کی طرف راغب کرنے کی رہنمائی ملتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے پیاروں کے لیئےایک متوازن راستہ اپنا ناچاہیئےجو نہ بیجا ہمدردی پر مبنی ہو اور نہ بیجا تشدد پر؛ تاکہ ہم نے اپنی آنکھوں میں ان کے لیئے کامیابی کے جو خواب سجائے ہیں وہ شرمندہ تعبیر ہوسکے۔