کامن سول کوڈ یا مسلم مخالف سول کوڈ
از: محمود احمد خاں دریابادی
جنرل سیکریٹری آل انڈیاعلماء کونسل اور ممبرہ آف آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ۔
آج کل بعض اپنے لوگ بھی اِدھر اُدھر کی باتیں سُن کر یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ ابھی آیا نہیں ہے، کیسا ہوگا یہ بھی پتہ نہیں ہے، پھر ابھی سے کیوں اس مخالفت میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے، پہلے آنے دیجئے، دیکھتے ہیں کیا آتا ہے، دوسرے مذہب کے لوگ بھی ہیں، خود ہندوؤں میں اختلاف ہے، دوسروں کو آگے بڑھنے دیجئے، ابھی سے شور شرابہ کرکے ساری لڑائی اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ہے ـ …………. یہ بات صحیح ضرور ہے مگر مکمل نہیں آدھی صحیح ہے ـ
پہلی بات تو یہ کہ ابھی کوئی ہنگامہ نہیں کیا جارہا، حکومت ہند کے ادارے لاء کمیشن نے تمام باشندگان وطن سے یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں رائے طلب کی تھی، ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اپنی رائے دینا ہمارا فرض ہے ـ یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ ابھی عوامی پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ سے احتراز کیا جائے ـ اس سلسلے میں دیگر مذاہب سے رابطہ کیا جارہا ہے،……….. مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنے مذہب سے جتنا جذباتی تعلق ہے دوسروں کا اپنے مذہب سے نہیں ہے، ……….. کچھ مذہب ایسے بھی ہیں جن کو حکومت ہندو کہتی ہے اور اُنھیں نوکریوں وغیرہ میں رزرویشن فراہم کرتی ہے، اُن لوگوں کے لئے مذہب سے زیادہ رزرویشن اہمیت رکھتا ہے ـ کچھ اقلیتی مذہب ایسے بھی ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے،اُن لوگوں کے لئے مذہب سے ذیادہ تحفظ اہمیت رکھتا ہے، وہ لوگ سوچتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر علاقے میں ہمارے مشن اور اسکول قائم ہیں، عبادت گاہیں بھی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے کسی عمل کی وجہ سے یہ ساری املاک جن کو ہم نے صدیوں کے محنت کے بعد جمع کیا ہے برباد کردی جائیں ـ ہاں ! ایک مذہب ایسا ضرور ہے جس کے لوگ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ابھی تک سخت مخالفت میں بیان دے رہے ہیں، آگے کا پتہ نہیں؟ شمال مشرق کے قبائلی علاقوں سے بھی کچھ مخالفت کی آوازیں آئی ہیں، لیکن پوری امید ہے کہ اُن کو کامن سول کوڈ سے مستثنیٰ کردیا جائے گا، اس لئے بھی کہ انھیں دستور کی دفعہ 371 کی ضمانت حاصل ہے ـ
یہ بات واضح ہوجانی چاہیئے کہ ہم اصولی طور پر اس ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ کو پسند نہیں کرتے، یہاں کادستور سب کو اپنے مذہب، عقیدے اور نظرئے پر عمل کی آزادی دیتا ہے ـ یہ ہمارا ملک ہے ہم کسی کو اپنا یہ حق چھینے کی اجازت نہیں دےسکتے، ………… کئی سال قبل جب لاء کمیشن آرام سے سو رہا تھا تب بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اشوینی اُپادھیائے نے سپریم کورٹ میں مقدمہ داخل کرکے مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کیا جائے، ( اشوینی اپادھیائے خوامخواہ سپریم کورٹ میں کیس کرتا رہتا ہے، حیرت یہ ہے کہ عدالت عالیہ بھی اس کو بخوشی اجازت دیدیتی ہےـ آجکل اس نے طلاق حسن، متعہ اور نکاح مسیار وغیرہ پر الگ الگ کیس دائر کررکھے ہیں ـ) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ برسوں سے یہ کیس لڑرہا ہے کہ ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہوگا ـ
تعجب اس پر بھی ہوتا ہے دستور کے رہنما اصولوں کی دفعہ 44 میں یکساں سول کوڈ کی بات کی گئی ہے، جبکہ اس سے پہلے ان ہی رہنما اصولوں کے آغاز میں کہدیا گیا ہے کہ یہ آپسی اتفاق،افہام وتفہیم سے ہی نافذ ہوسکتے ہیں، زور زبردستی اور عدالتی حکم کے ذریعے ان کو نافذ نہیں کیا جاسکتا،………….. اس کے باوجود عدالت کے جج صاحبان اپنے تبصروں میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں ـ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ جج صاحبان نے اب تک جن مقدمات کے ضمن میں یکساں سول کوڈ کی بات کی ہے اُن میں شاہ بانو کیس کے علاوہ جتنے بھی کیس ہیں سب غیرمسلموں کے ہیں، اُن میں دونوں فریق ہندو تھے مگرجج صاحب نے بلاوجہ اُن کے بیچ یونیفارم سول کوڈ گُھسیڑ دیا ہے ـ
دراصل جج صاحبان ہوں یادیگر فسطائی فرقہ پرست یہ سب لوگ ایسا سول کوڈ لانا چاہتے ہیں جس کا نام تو یکساں سول کوڈ ہوگا مگر حقیقت میں وہ ہوگا “ اسلام مخالف سول کوڈ “
آخر میں ایک دلچسپ بات اور ………. ضابطہ فوجداری یعنی کرمنل کوڈ IPC اور Cr PC بھی سب کے لئے یکساں ہونے کے باوجود یکساں نہیں ہے ـ مثلا ملک کی الگ الگ ریاستوں میں گائےذبیحے کے لئے الگ الگ قانون اور الگ الگ سزائیں ہیں ـ اسی طرح رزرویشن کے لئے بھی مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین ہیں ـ حکومت پہلے اِن میں یکسانیت لے آئے پھر اگلی بات کرے، عدالت عالیہ کے جج صاحبان بھی توجہ فرمادیں ـ ہمارے وزیر اعظم تو پہلے ہی فرماچکے ہیں کہ ایک دیش میں الگ الگ قانون کیوں؟