دارالعلوم كا انگریزی قضیہ : اسباب وحل
عبدالملك رسول پوری
قضا، قاضی اور قضیے تو درالعلوم میں جنم لیتے ہی رہتے ہیں ،آخر وہ ادارہ ہی اسی لیے بنایا گیا ہے كہ وہاں قضا كی تعلیم ہو ، معاشرے كی ضرورت كے لیے قاضی پیدا ہوں جولا ینحل قضیوں كا صحیح حل پیش كریں۔ لیكن ان سب كے ساتھ كبھی كبھی درالعلوم كی خود كی سرزمین اور احاطے میں بھی كوئی نہ كوئی قضیہ پیدا ہوجاتا ہے ، جوشب وروز كے گزرنےكے ساتھ بڑا ہوكر پہلے نامرضیہ بنتا ہے اور پھر ناسور كی كیفیت اختیار كرلیتا ہے ۔وہ جوہے نا كہ بڑے لوگوں كی چھوٹی بات بھی بڑی ہوتی ہے اور خانہ خدا میں مكروہ بھی حرام كا درجہ دھار لیتا ہے۔
دیوبند میں بھی چند بڑے لوگوں كے ذریعہ ایك چھوٹی بات سرزد ہوگئی اور پھر چھوٹے لوگوں نے اسے اتنا بڑا بنادیا كہ ہمارے ناظم تعلیما ت كو لكھنؤ كی سیر كرنا پڑ گئی۔ وہ بڑے بھی اپنے ہی تھے اور یہ چھوٹے بھی، بس دونوں كے مابین مادیت كی خیرہ كن چمك نے ایك لكیر سی كھینچ دی جس كے پردے میں یہ دونوں نئے پیداشدہ قضیے كو حل كرنےكے بجائے باہم دست و گریباں ہوگئے۔آئیے اس قضیے كی بالیدگی اور نمو كی وجوہات تلاش كرتے ہوئے اسے حل كرنے كی كسی سبیل اورطریقہ كی جستجو كریں ۔
چند سالوں سے دیوبند میں مادیت كا اس قدر غلبہ ہوچكا ہے كہ ہر چار میں سے تین شخص تجارت یا دیگر مادی ذرائع كا ذكر كرتے نظر آتے ہیں، خواہ وہ طالب علم ہوں یا اساتذہ اور یا شہر كے دیگر اصحاب جبہ و دستار۔ مدارس كے اساتذہ پہلے كی طرح فاقہ مست نہیں رہے بلكہ ان كے پاس خوش گوار زندگی كی تقریبا ہر چیز موجود ہے؛ یہی حال ہر گلی كوچے میں قائم شدہ مدارس كے مهتمم حضرات كا بھی ہے؛ البتہ اس كا اظہار مصلحتوں كے پیش نظر ،یہ حضرات خود تو كم ،لیكن ان كے بچے ہر ممكن طریقے سے كرتے رہتے ہیں۔ دنیوی چكا چوند سے مسحور مهتمم ،اساتذہ اور شہر كے صاحب ثروت حضرات كے انھیں بچوں كے مابین دور دراز سے آنے والے غریب اور متوسط گھرانوں كے كفایت شعار بچے بھی تعلیم حاصل كرتے ہیں۔ اس دوران صحبت، رفاقت اور باہم دیگر دوستی سے متوسط گھرانوں كے یہ بچے بھی متاثر ہوتے ہیں؛ جس كے نتیجے میں یہ تعلیمی دورانیے ہی میں تجارت كی راہیں ہموار كرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف تعلیمی اداروں كی كامیابی اس بات میں مضمر ہوتی ہے كہ ان كے یہاں تعلیم حاصل كرنے والے طلبہ كوملازمتیں كیسی اور كتنی جلدی ملتی ہیں۔ تعلیم دین كا مقصد اگر ملازمت نہ بھی مانیں تو فارغ ہونے والے ان فضلاے گرامی قدر كودینی خدمت كے مواقع كب ، كیسے اور كتنی جلدی مہیا ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ گذشتہ دس سالوں كا جائزہ لیں گے كہ ہر سال كے درجہ فضیلت سے فارغ ہونے والے ہزاروں علما ے كرام میں سے محض دس اعلی صلاحیت والوں كو كہاں كہاں خدمت كے مواقع دستیاب ہوئے ہیں تو شاید آپ كو ایك ایسی حقیقت كا سامنا كرنے پڑے جس كا كبھی آپ نے تصور ہی نہ كیا ہو۔ جس حقیقت كی وجہ سے اہل مدارس آج بھی اپنی اخلاقی تربیت كی كم اچھے اساتذہ كی كم یابی كازیادہ رونا روتےنظر آتے ہیں۔
خدمت كےانھیں كم مواقع اور مهتمم ومتولیان كی غیر پیشہ ورانہ ناروا اخلاقیات كی وجہ سے یہ طلبہ وقت سے پہلے ہی اپنا زاویہ نظر تبدیل كرلیتے ہیں اور اس دینی تعلیم كو ثانوی درجہ دے كر دنیوی ذرائع پر زیادہ توجہ مركوز كردیتے ہیں۔ ان میں سے بعض انگریزی پڑھتے ہیں تو بعض كمپیوٹر سیكھتے ہیں حتی كہ بعض عصری یونیورسٹیوں میں پرائیوٹ طور پر داخلہ لے كر اس طرح كے منصوبہ بناتے ہیں كہ جب وہ مدرسہ كی تعلیم سے فارغ ہوں تو ان كے سروں پر فضیلت كی دستار بندھے اور ساتھ ہی ہاتھوں میں گریجویٹ كی ڈگری بھی ہو۔
ان دو وجوہات كو پیش نظر ركھ كر اگر مشكل كا حل تلاش كیا جائے تو صفحہ ذہن پر كچھ اس طرح كے خیالات مرتسم ہورہے ہیں كہ تعلیمی سال كے آغاز میں فارم داخلہ میں دو خانوں (1) كل وقتی طلبہ ۔(2) جزوقتی طلبہ كا اضافہ كر كے كسی ایك پر نشان لگانے كا پابند بنادیاجائے۔
كل وقتی طالب علم كا مطلب یہ ہے كہ اس كے جملہ اوقات مدرسہ كی انتظامیہ كے حسب منشا گزریں گے۔ یہ ارباب حل وعقد كی ذمہ داری ہوگی كہ اس طالب علم كے اوقات كو اس كے اپنے حق میں مفید بنائیں۔ تدریس كے علاوہ خارجی اوقات میں بھی اسے آزاد نہ چھوڑ كرعصر كے بعدكی سیر وتفریح اور پھر مابعدمغرب وعشا كسی استاذ كے زیر تربیت تكرار ومطالعہ كا پابند بنائیں اور ان زائد از نصاب سرگرمیوں كو بھی امتحانات كے ضمن میں لا كر مارك شیٹ كا حصہ بنائیں۔ دوسری طرف اس طالب علم كومدرسہ كی طرف سے تعلیمی اور دنیوی گزربسر كےلیے ہرممكنہ سہولت فراہم كی جائے۔ دارالاقامہ میں اسے رہنے كی سہولت دی جائے۔ مطبخ سے كھانے كا نظم كیا جائے۔ مدرسے كی لائبریری سے درسی كتابیں فراہم كی جائیں ،ساتھ ہی اگر ضرورت محسوس ہو تو علاج ومعالجہ كی سہولت مفت فراہم كی جائے اور دیگر ضروریات كے لیے وظیفہ بھی جاری كیا جائے۔
جز وقتی طالب علم كا مطلب یہ ہے كہ وہ محض تدریسی اوقات میں درس گاہوں میں حاضر ی دے گا۔ اساتذہ سے اسباق پڑھے گا اور شہری یا اساتذہ كے بچوں كی طرح مدرسے سے واپس چلا جائے گا۔ تدریسی اوقات كے علاوہ مدرسے كا ان بچوں سے كسی قسم كا سروكار نہ ہوگأ۔ یہ طلبہ اپنے قیام وطعام كے خود ہی ذمہ دار ہوں گے۔ مدرسہ نہ انھیں رہائش كی سہولت دے گا اور نہ ہی مطبخ سے كھانا اور كتب خانے سے كتابیں مہیا كرائے گا۔ یہ طلبہ خارجی اوقات میں انگریزی ہی كیا ہبرو اور مینڈرن بھی پڑھ سكتے ہیں۔ كمپیوٹر كیا دیگر بہت سے ہنر بھی سیكھ سكتے ہیں اور زندگی كو خوش گوار بنانے والی ہر مادی چیز كو حاصل كرنے كی كوشش كرسكتے ہیں۔
اس كا فائدہ یہ ہوگا كہ دینی علوم میں حد درجہ انہماك ركھنے والا ایك طائفہ وجود میں آجائے گا جو اپنے جملہ اوقات كو شرعی مصادر ومراجع كےمطالعے میں گزارے گا، گرچہ ان طلبہ كی تعداد ہوسكتا ہے كہ كم ہو لیكن صلاحیتیں پختہ ہوں گی اور ساتھ ہی دنیوی چكا چوند سے دور رہنے اوردینی مزاج ركھنے والے مشفق اساتذہ كی مستحسن تربیت كی وجہ سے انھیں دینی مدارس میں خدمات انجام دینے سے كوئی گریز بھی نہ ہوگا۔
دوسری طرف دنیوی مال ومتاع كےخیرہ كن سراب كی طرف للچائی نظر وں سے دیكھنے والے مجبوری كے طلبہ كو بھی اپنا مدعی حاصل كرنے میں كوئی پریشانی نہ ہوگی ۔ مدرسوں كے تدریسی اوقات میں ان میں حلال وحرام كے مابین تمیز كرنے والی شد بد بھی پیدا ہوجائے گی اور ساتھ ہی دنیوی امور سے قدرے واقفیت ہوجائے گی ۔طلبہ كا یہ طبقہ بھی جہاں جائے گا اپنی استطاعت بھر دینی امور كی تبلیغ كرے گا اور دینی كاموں سے وابستہ افراد كی راہوں میں آنےوالے سنگریزوں كو ہٹانے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے كہ ایك بار دہلی ایرپورٹ پر دارالعلوم دیوبند كے ایك محترم استاذ كو پاسپورٹ اور ویزے میں درج ناموں میں املائی غلطی كی وجہ سے امیگریشن میں روكا جارہاتھا كہ اچانك وہیں ایرپورٹ پر ماہر زبان كی حیثیت سے كام كرنے والے انھیں استاذ محترم كے ایك شاگر رشید خرمستی كرتے ہوئے آپہنچے دیكھا كہ استاذ محترم كو آفیسران نےروكا ہوا ہے ،تو انھوں نے فورا دستاویزات كو دیكھ كر یہ كہتے ہوئے مہریں ثبت كردیں كہ لینگویج ایكسپرٹ كی حیثیت سے وہ كام كررہے ہیں یہ معاملہ ان كے دائرہ كار میں آتا ہے۔
اسی طرح كا ایك اور واقعہ سنتے جائیے ،ایك قاسمی صاحب ایك ملٹی نیشنل كمپنی میں ملازمت كررہے تھے۔ ڈریس كے نام پر پینٹ شرٹ اور شاید ٹائی میں ملبوس تھے۔ رمضان كے مہینے میں افطار پارٹی كا نظم كیا گیا۔ جس میں افطار سے پہلے كچھ دینی باتیں بھی ہونا تھیں۔ آغاز محفل سے قبل قرآن كی تلاوت كے لیے كہا گیا ۔ان قاسمی صاحب نے دیكھا كہ شركاء میں سے كوئی اٹھ ہی نہیں رہا ہے تو یہ خود اٹھے اور مائك پر پہنچ كر جملہ تجویدی قوائد كے ساتھ مسحور كن تلاوت كی۔ جیسے ہی تلاوت مكمل ہوئی تو سامعین نے تلاوت كی تعریفوں كا سلسلہ شروع كردیا۔ قاسمی صاحب نے مائك ہی سے كہا كہ اس ٹائی كے پیچھے میں دارالعلوم دیوبند كا قاری بھی ہوں۔