دینی مدارس کا نظام ونصاب :مولانا نانوتوی کی فکر

Eastern
Eastern 18 Min Read 9 Views
18 Min Read

وارث مظہری

مضمون نگارفاضل دیوبند ہیں اور شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ہمدرد، نئ دہلی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

مولانا محمدقاسم نانوتوی کی عبقری شخصیت کے مختلف اہم پہلو ہیں۔ علمی اور عملی دونوں سطح پر جن میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ وہ سوچنے والا ذہن اور غوروفکر کرنے والا مزاج رکھتے تھے۔ یہ ان کی قوت ووسعت فکرہی ہے جس نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں قائم کیے جانے والے مدرسے یا مکتب کو دار العلوم دیوبند کی شکل میں ایک عالمی ادارے کی شکل دے دی۔ ورنہ دار العلوم دیوبند کے محرک اول عابد حسین صاحب رحمہ اللہ کے ذہن میں اس ادارے کا خاکہ بہت محدود تھا۔ مولانا قاسم نانوتوی کی دیدہ وری،بلند خیالی اور خوب سے خوب تر کی جستجو رکھنے والی ذہنیت صرف کسی چھوٹے سے گاؤں کے مدرسے کے قیام پر قناعت کرنے والی نہیں تھی۔ بانی دار العلوم دیوبند کی شخصیت اپنی ظاہری صورت میں ایک روایتی عالم دین کی تھی لیکن حقیقت میں وہ،خلاقیت، روشن فکری اور تازہ کاری کی علامت تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے اندرزمانہ شنا سی کا جوہر پایا جاتا تھا۔ ان کاہاتھ وقت کی نبض پر تھا۔ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ قدم آگے بڑھا کر چلنے کو وہ دین کا تقاضا تصور کرتے تھے۔ وہ سکہ بند قسم کے عالم نہیں تھے۔ ان کا اپنا طرز حیات،اپنا ایک مستقل نظام فکر تھا۔

ان کی روشن فکری اور بلند خیالی کا ایک اہم عنصر ان کی تعقل پسندی تھی۔ انہوں نے اسلامی عقلیات پر جوکتابیں لکھیں، دور جدید میں علم کلام کی تشکیل میں ان سے خاصی مدد مل سکتی ہے۔ وہ عقلی علوم کے حصول کو دین پر قائم رہنے کے لیے ضروری تصور کرتے تھے۔(۱)ان کے عقلی اور غیر روایتی طر ز فکر کی جھلک مختلف پہلووں سے ان کے افکار واعمال میں نظر آتی ہے.

ان میں سے ایک پہلو دینی مدارس کا نصاب ونظام ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ مولانا نانوتوی نے دار العلوم دیوبند کے قیام کے ذریعے جو نظام تعلیم جاری کیا،اس نے دینی اور دنیاوی کے عنوان سے تعلیم کی نظریاتی سطح پر تقسیم کو عملی شکل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ انہی کی دین ہے کہ دینی تعلیم کا تصور محض چند کتابوں اور مضامین کے درس تدریس تک محدود ہوکر رہ گیا۔اور اب برصغیر کے تمام مدارس ڈیڑھ سوسالوں سے اسی روش پر گامزن ہیں اور اس روش سے ہٹ کر سوچنے کو تقریبا اسلام سے انحراف کے ہم معنی تصور کرتے ہیں۔
حالاں کہ حقیقت یہ نہیں ہے۔مولانا نانوتویؒ چاہے بہت زیادہ مجتہدانہ طبیعت کے آدمی نہ ہوں لیکن وہ فکری انجماد اور تقلید محض کی نفسیات کے شکار نہ تھے۔ ان کا اندازہ اور تجربہ یہ تھا کہ فی الوقت اصلاً دینی علوم پر ارتکاز کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جدید علوم کی کفالت وانتظام کے لیے سرکاری مدارس کافی ہیں۔ جیسا کہ ان کے اس اقتباس سے ظاہر ہے:
’’آج کل تعلیم علوم جدیدہ بوجہ کثرت مدارس سرکاری، ترقی پر ہے۔ ہاں علوم قدیمہ کا ایسا تنزل ہوا کہ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ ایسے وقت میں رعایا کا مدارس علوم جدیدہ کا بنانا تحصیل حاصل نظر آیا اور صرف بجانب علوم نقلی اور نیزان علوم کی طرف جن سے استعداد علوم مروجہ واستعداد علوم جدیدہ یقینا حاصل ہوتی ہے، ضروری سمجھا گیا‘‘۔ان کا خیال ان کے لفظوں میں یہ تھا کہ: ’’دیوار کی جو اینٹ ابھی گری نہیں اس کی فکر بجزنادانی اور کیا ہے‘‘۔ (۲)
مولانا نانوتوی کے یہ خیالات اس وقت کے سیاسی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھے۔ وہ اس وقت کے ماحول میں اسی نصاب اور منہج کے مطابق تعلیم کو زیادہ مفید اور بار آور تصور کرتے تھے لیکن دینی وعصری تعلیم کے درمیان تفریق کے موجودہ تصور سے ان کا ذہن قطعاً خالی تھا۔ وہ جدید علوم یا اجنبی زبانوں کے حصول کو طلبۂ مدارس کے حق میں مزید بہتر تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۲۹۰ھ میں درالعلوم کے جلسۂ تقریب انعامات میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا:
’’ اگر اس مدرسہ کے طلبہ سرکاری مدرسوں میں جا کر جدید علوم حاصل کریں تو یہ بات ان کے کمال میں مؤیدثابت ہوگی۔ کاش گورنمنٹ ہند بھی قید عمر طلبۂ نو داخل کو اڑا دے تاکہ رفاہ عام رہے اور سرکار کو بھی معلوم ہو کہ استعداد اسے کہا کرتے ہیں‘‘۔( ۳)

اس وقت جو صورت حال قائم ہے اس کے مطابق مدارس کے بعد عصری تعلیمی اداروں کی طرف فضلائے مدارس کے رخ کرنے کو راہ مستقیم سے انحراف تصور کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کے ذریعے طلبہ کی باضابطہ اس تعلق سے حوصلہ شکنی بلکہ سرزنش کی جاتی ہے۔ یہ تمثیل بہت مشہور ہے کہ گھوڑے کی سواری (مدارس کی تعلیم) کے بعد گدھے کی سواری ( عصری جامعات میں داخلہ)ایک نامعقول بات ہے۔ اس طر ح دین اور دنیا کی ذہنی تفریق خود کرلی گئی ہے۔ حالاں کہ اسلام میں دین اور دنیا دونوں کا امتزاج مطلوب ہے۔ ایسی تعلیم جو اس کے حاصل کرنے والی کی سماجی زندگی میں محدودیت پیدا کردینے والی اور اس کو سماج کے حاشیے پر رکھ دینے والی ہو،اس کا نقصان ظاہر ہے۔ موجودہ دور میں یہی ہوا ہے۔

ہمارے مدارس کی موجودہ تعلیم نے فضلاے مدارس کے پاؤں میں بیڑیاں پہنادیں،جن سے ان کا سماجی کردار اور اس بنیاد پر دینی ودعوتی کردار محدود ہوکر رہ گیا۔ہمارے فضلا کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ آج کے جدید ،تعقل پسند اور سائنٹفک ذہن رکھنے والے حلقوں کو اپنا مخاطب بنا سکیں۔ان کی علمی صلاحیتوں کی گونج منبرومحراب سے چاہے جس شدت کے ساتھ سنائی دیتی ہو لیکن علمی بحث مباحثے کی نشستوں میں ان کی صلاحیتیں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں۔اس لیے کل بھی اتنی ہی ضرورت تھی اور آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے کہ روایتی اسلامی علوم کے ساتھ جدید علوم سے بھی طلبہ کو باخبر کرنے کی کوشش کی جائے۔اس کا فائدہ ملت اسلام اور خود ان کے حق میں بہت زیادہ بہتر ہے۔مولانا نانوتوی کی فکر بھی اسی نکتے پر مرتکز تھی۔ دار العلوم کی شروع کی روایت اسی بنیاد پر آگے بڑھی۔چناں چہ دارالعلوم دیوبند ۱۳۲۱ھ کی روداد (کارکردگی رپورٹ) میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ:
’’ ایسے طلبہ کو جو کم از انٹرنس پاس ہوں اور دارالعلوم میں داخلہ لینا چاہیں، ان کو دس پندرہ روپے ماہانہ وظائف دیے جائیں۔ اس طرح دارالعلوم سے فراغت کے بعد جو طلبہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہیں ان کے لیے بھی وظائف مقرر کیے جانے کی ضرورت ہے‘‘۔
روداد کے الفاظ یہ ہیں:
’’ دونوں صورتوں میں مسلمانوں کے لیے بہت فوائد ہیں۔‘‘ ( ۴)

مدارس کے حلقوں میں اب نظریاتی بنیادوں پر ہی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ دینی اور دنیوی کہے جانے والے علوم کا اشتراک ممکن ہے۔ ایک شخص ان دونوں علوم کا بیک وقت حامل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مدارس کی سطح پرکسی بھی درجہ میں گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔اس کو مدارس کی روایت کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔جب کہ صدر اسلام سے انیسویں صدی کے وسط تک تعلیم کو ایک کل کی حیثیت دیتے ہوئے سماج کے لیے مفید ہر طرح کے علوم ایک ساتھ پڑھا ئے جانے کی روایت برقرار رہی۔آج بہت سی دوسری قوموں میں یہ روایت اسی طرح قائم ہے۔ مسیحی اسکولوں اور کالجوں کے فاضل جدید علوم سے نا آشنا نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ تعلیم کی انھی عمومی ،حکومتی یا غیر حکومتی اداروں سے جدیدعلوم کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی رسوم انجام دینے والے اور چرچوں سے وابستہ عیسائی پادریوں کی اکثریت اعلی تعلیم کی حامل ہوتی ہے۔ ہندوستان میں مختلف ہندو مندروں کے بڑے پروہتوں اور پجاریوں میں ایسے بہت سے لوگ شامل ہیں جن کی تعلیم امریکہ اور یورپ کی اعلی دانش گاہوں میں ہوئی ہے۔ عہد وسطی کے مسلم ناموروں میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو علوم اسلامیہ میں مہارت کے ساتھ سائنسی علوم میں قابل ذکر مہارت رکھتی تھی۔ اب دور جدید کی اسلامی روایت میں یہ چیز اجنبی نظر آتی ہے۔اب تفسیر اور حدیث کا عالم انجینرنگ اور طب کے علوم سے بھی بہرہ ور ہو یہ قابل قیاس بات نہیں رہی۔

مو لانا ناتوی کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کہ ورنہ یقینی تھا کہ وہ اس ذیل میں ایسے علمی وعملی نقوش چھوڑ جاتے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتے۔ مولانا یعقوب نانوتوی کی روایت کے مطابق ، اپنے آخری سفر حج میں ( ترجمان کے ذریعہ) ایک انگریز سے دعوتی نوعیت کی گفتگو کے بعد حضرت نانوتویؒ نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ لوٹنے پر انگریزی ضرور سیکھیں گے۔( ۵) مولانا نانوتوی کے شاگرد رشید شیخ الہند مولانا محمود حسن مولانا نانوتوی کی روشن فکری اور زمانے شناسی کے امین تھے۔ وہ جدت وقدامت اور دین و دنیا دونوں کے امتزاج کے قائل تھے۔ انہوں نے مولا نا نانوتوی کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ اور ان کے زمانے میں دیوبند کے ساتھ علی گڑھ کا رشتہ استوار ہوا۔ شیخ الہند نے ۱۹۲۰میں علی گڑھ میں مسلم نیشنل یونیورسٹی ( جو بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے موسوم ہوئی) کے سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ:
’’ آپ میں سے جو لوگ محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ ہمارے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی زبان کے سیکھنے اور دوسری قوموں کے علوم و فنون کے سیکھنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔(۶)
دار العلوم دیوبندکی وسعت فکر کا عالم یہ تھا کہ وہاں ابتدا میں ہندوطلبہ بھی پڑھتے تھے۔ تاریخ دارالعلوم دیوبند میں ہے:
’’ دارالعلوم میں ہندو بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا ہے۔ جب برطانوی حکومت نے سرکاری ملازمتوں کے لیے سرکاری اسکولوں کی سند کو ضروری قرار دے دیا تو سرکاری ملازمتوں کے خواہش مند مسلم بچوں کی طرح ہندو بچوں کی تعلیم کا رخ بھی سرکاری اسکولوں کی طرف پھر گیا‘‘۔( ۷)

یہ سوال کہ مولا نا نانوتوی نے دار العلوم دیوبند کے لیے درس نظامی کو اختیار کیا،اس تعلق سے دو بنیادی باتو ں کوپیش نظر رکھنا چاہیے۔پہلی بات تو یہ ہے، جیسا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب’’ ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ‘‘میں اس کی تفصیل بیان کی ہے، درس نظامی کے نصاب میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد حصّہ دینی کتابوں کی تعلیم پر مشتمل تھا۔ باقی نصاب کا نوے فیصد حصّہ دنیاوی یا سیکولر مضامین پر مشتمل تھا (۸)جس کے لیے معقولات کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نصاب ’ خالص‘ دینی نصاب کی تعریف میں نہیں آتا ۔جن لوگوں کی بھی یہ رائے ہے کہ درس نظامی دراصل بنیادی طور پر دنیوی تعلیم کے حصول کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، ان کی بات بے وزن نہیں ہے۔ البتہ اس پہلو سے اس پر غور کرنا اور نتیجہ نکالنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس دور میں تعلیم موجودہ طرز کی ثنویت کی شکار نہیں ہوئی تھی۔ دینی و دنیاوی علوم کی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی۔ لوگوں کا ذہن بہت حد تک اس سے خالی تھا۔ دہلی کالج میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی جیسی دینی علوم کی پاسبانی کرنے والی شخصیات کے ذہنوں میں ریاضی اور اقلیدس کے اشکال کو پڑھتے ہوئے یہ بات کبھی نہیں آئی ہوگی کہ وہ دنیاوی تعلیم میں مشغول ہیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کے جس نصاب کے وہ فاضل تھے اس میں موجودہ دینی تعلیم کا حصّہ بہت ہی کم تھا۔ حقیقت میں درس نظامی کی اس شکل کو جسے ملا نظام الدین نے ترتیب دیا تھا، وہ دینی اور عصری دونوں کے امتزاج پر مشتمل اپنے وقت کی سماجی ضرورت کو پورا کرنے والا نصاب تھا۔

دوسرا پہلو وہ ہے جس پر پاکستان کے دور جدید کے اہم مفکر ڈاکٹرمحمود احمد غازی کے مندرجہ ذیل اقتباس سے روشنی پڑتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’دارالعلوم کی کوشش یا مہم ایک بدلی ہوئی صورت حال میں دفاعی اور وقتی کوشش تھی۔وہ آئڈیل صورت نہیں تھی اور نہ ہی وہ آئڈیل حالات تھے۔نہ وسائل دست یاب تھے اور نہ حکومتی سرپرستی دست یا ب تھی۔ اورنہ وہاں کے فارغ شدہ افراد کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کوماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ان کی رہنمائی مدرسے اورمسجد کے خاص دائرے تک محدود تھی‘‘۔(۹)

درس نظامی کے جاری رکھنے کی مناسب تو جیہ یہی معلوم ہوتی ہے۔ دین کے ضائع ہونے کے اندیشے کی یہی نفسیات تھی جس کے تحت دارا لعلوم دیو بند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اس طرح کے سوالات کے جواب میں کہ آخر صرف دینی علوم کے نصاب پر ہی اکتفا کیوں کیا گیا،یہ جواب دیا تھا جس کا حوالہ اوپر آچکا ہے کہ اس وقت برطانوی حکومت جدید علوم پر توجہ دے رہی ہے اس لیے اصل ضرورت علوم قدیمہ یا اسلامی علوم کی فکر کرنے کی ہے۔ان کے الفاظ میں جودیوار ابھی گری نہیں تھی اس کی فکر کرنا بے سود بات تھی۔

خلاصہ یہ ہے کہ مولانا نانوتوی کادینی تعلیم سے متعلق نظریہ کافی وسیع الفکری پر مبنی تھا۔اس کی بنیاد دینی اور دنیاوی کہے جانے والے دونوں طرح کے علوم کے حصول پر تھی۔ان کے تصور کے مطابق روایتی مدارس کی دینی تعلیم کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ ان مدارس کے فضلا جدید علوم کی دانش گاہوں سے اپنے علوم کی تکمیل کا سامان کریں۔جدید علوم سے قطعی ناآشنائی کے ساتھ دین کے موجودہ تقاضوں کوپورا نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ مولانا نانوتوی کی اس فکر کا احیا کیا جائے۔ملت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے اور اس کے ملی وتہذیبی وجود کو استحکام عطا کرنے کے لیے یہ ناگز۔یر ہے۔

حواشی:
(۱)سوانح قاسمی جلد دوم دویوبند: مکتبہ دار العلوم دیوبند بدون سن،ص،۲۹۸
(۲)تاریخ دارالعلوم دیوبند جلد:۱ ، دیوبند: مکتبہ دارالعلوم دیوبند، ۱۹۹۳، ص:۲۶۸
(۳)سوانح قاسمی ، ج:۲، ص : ۲۸۱
(۴)تاریخ دارالعلوم۱/۲۰۸
(۵)مولانا مناظر ا حسن گیلانی:ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ،:ممبئی: مکتبہ الحق جلد دوم، ص، ۴۰۔۱۳۹
(۶)تنظیم ابناے قدیم دار العلوم دیوبند(مرتب):حجۃ ا لاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی،حیات ،افکار،خدمات( مجموعہ مقالات سیمینار) دہلی:۲۰۰۵،ص،۵۸۴
(۷)تاریخ دارالعلوم دیوبندجلد اول،ص،۱۹۴
(۸)ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ،جلد اول ص،۲۷۴۔۲۷۵
(۹)محمود احمدغازی ’’دینی مدار س اورعصرحاضر، مرتب شبیراحمد خاں میواتی،الشریعہ ،گوجرانوالہ۲۰۰۷،ص،۱۵۱

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو” کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان ہے” — پروفیسر ڈاکٹر غلام ربانی

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو" کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان

Eastern Eastern

خواب، یادیں اور ملاقاتیں

خواب، یادیں اور ملاقاتیں محمد توقیر رحمانی سفر، محض راستوں کی مسافت

Eastern Eastern

"ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں”

محاضرہ بعنوان "ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں" مہدی حسن

Eastern Eastern

جمہوریت میں اکثریت کے جذبات کو مجروح کرنا نقصاندہ ہوتاہے

جمہوریت میں اکثریت کے جذبات کو مجروح کرنا نقصاندہ ہوتاہے محمد برہان

Eastern Eastern

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

Quick LInks

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو” کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان ہے” — پروفیسر ڈاکٹر غلام ربانی

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو" کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان

Eastern Eastern

خواب، یادیں اور ملاقاتیں

خواب، یادیں اور ملاقاتیں محمد توقیر رحمانی سفر، محض راستوں کی مسافت

Eastern Eastern

"ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں”

محاضرہ بعنوان "ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں" مہدی حسن

Eastern Eastern