خواب، یادیں اور ملاقاتیں
محمد توقیر رحمانی
سفر، محض راستوں کی مسافت کا نام نہیں بلکہ یہ کبھی دل کے خوابوں کا تعاقب، ذہن کی جستجو اور روح کی تسکین کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ کچھ سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف فاصلے طے کرتے ہیں بلکہ یادوں کے دریچوں میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میرا یہ سفر بھی انہیں نادر لمحات میں سے ایک ہے، جہاں راستے خوابوں کے ساتھ جڑ گئے، اور منزلیں یادگار کہانیاں بن گئیں۔
یہ کیسا سفر ہے، یہ کیسی بہار ہے
ہر ایک لمحہ خوشبو کا انبار ہے
سفر کا ارادہ اچانک ہوا۔ چند روز قبل مرکز المعارف ممبئی کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کے قریب محمود ہال میں "مرکز آن لائن مدرسہ” کا ایک دو روزہ سیمینار منعقد کیا گیا، جو اکابرین دارالعلوم کی زیر سرپرستی اپنی مثال آپ تھا۔ اس سیمینار میں ملک کے طول و عرض سے مرکز المعارف کے فضلاء شریک ہوئے، جن سے ملاقات کی دیرینہ خواہش دل کے نہاں خانوں میں چراغ کی مانند روشن ہو رہی تھی۔ تاہم، مرکز المعارف ممبئی میں جاری امتحانات کی ذمہ داری کا بوجھ بھی دامن گیر تھا، جو سفر کے امکانات کو مدھم کر رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ سفر محض رسمی نہیں بلکہ ایک "تلافی مافات” کی حیثیت رکھتا تھا—ایک ایسا موقع جہاں علم، محبت اور رفاقت کے کئی رنگ ایک ساتھ جلوہ گر ہو سکتے تھے۔ لیکن
آرزو وصل کی تھی، خواب بکھر جاتے ہیں
دل کے ارمان سرِ شام ہی مر جاتے ہیں
بہرحال، 17 نومبر کی شام کو ممبئی کے بوریولی اسٹیشن سے دہلی کے مرکز نظام الدین کی جانب روانہ ہوا۔ اگلے دن 18 نومبر کو صبح گیارہ بجے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا، جہاں مرکز نظام الدین میں دوستوں اور احباب سے ملاقات کی مسرت نے دل کو فرحت بخشی۔ مفتی شیث صاحب سے خصوصی ملاقات کی سعادت، اور مولانا سعد صاحب سمیت دیگر علمائے کرام کے ناصحانہ کلمات نے دل و دماغ کو علم و حکمت کے نور سے منور کر دیا۔ مرکز کے روحانی اور پرنور ماحول نے قلب کو تازگی اور سکون سے بھر دیا، جیسے روح کو نئی زندگی مل گئی ہو۔ یہ لمحات حقیقتاً نصیحت، محبت، اور روحانی تسکین کا حسین امتزاج تھے۔ اس کے بعد سب سے پہلے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری دی، جہاں روحانی سکون اور قلبی اطمینان کی کیفیت طاری ہوگئی۔ فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کے بعد، بغل میں واقع قدیم مگر شاندار مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ اس مسجد کی فنِ تعمیر کی باریکیوں اور دلکش نقاشی نے دورِ قدیم کی عظمت کا گواہ بنا دیا۔ بعد ازاں، خواجہ کے محبوب شاگرد، حضرت امیر خسرو کے مزار پر حاضری نصیب ہوئی، جہاں ادب اور عقیدت کے جذبات اپنے عروج پر تھے۔
تاہم، دل کو ٹھیس تب پہنچی جب دیکھا کہ یہ روحانی مزارات بدعات و خرافات کا گڑھ بن چکے ہیں۔ نہ صرف ان بزرگ ہستیوں کی تعلیمات کے خلاف عمل ہو رہا تھا بلکہ غیروں کو اعتراضات کا جواز فراہم کیا جا رہا تھا۔ یہ منظر دل کو آزردہ اور روح کو مغموم کرنے والا تھا۔
وہاں سے ہمایوں کے مقبرے کا رخ کیا۔ داخلے کے لیے ایک طویل قطار سے گزرنے کے بعد، جب اندر قدم رکھا تو مغلیہ دور کی عالیشان تعمیرات نے گویا تاریخ کو آنکھوں کے سامنے زندہ کر دیا۔ مختلف فنکارانہ عمارتوں کا حسن دل کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا، مگر وہ ویران مساجد، جو بے اعتنائی کا شکار ہو کر زائرین کے پیروں تلے روندی جا رہی تھیں، دل کو چیر گئیں۔ ان مناظر نے گویا زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔
اسی دل گرفتہ کیفیت کے ساتھ انڈیا گیٹ کا رخ کیا، جہاں شہیدوں کے ناموں سے مزین دیواروں نے خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے۔ زائرین اپنے موبائل کیمروں سے تصاویر لینے میں مصروف تھے، اور ہر زاویہ تاریخ کی کہانی سناتا محسوس ہو رہا تھا۔ سورج کے ڈھلتے سائے، پرندوں کی چہکار اور شام کی مدھم روشنی نے گویا ایک دلکش منظر پیش کیا۔
شام ہوتے ہی تھکن نے شدت اختیار کر لی، لیکن استاد محترم، ڈاکٹر حفظ الرحمٰن قاسمی صاحب سے ملاقات کی تمنا نے دل کو ایک نئی توانائی بخشی۔ آخرکار، بس اور رکشے کے ذریعے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، جہاں شفقت و محبت سے لبریز استقبال نے سفر کی تمام تھکن کو مٹا دیا۔ ان کے علمی کلمات اور نصیحتوں نے نہ صرف دل کو تازگی بخشی بلکہ سفر میں نئی روح پھونک دی۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز اور صحت کاملہ عطا فرمائے اور ان کی زندگی کو مسرتوں سے بھر دے، آمین۔
اگلے دن صبح، 19 تاریخ کو دہلی کی سرزمین سے روانگی کا آغاز ہوا اور لال قلعے کی جانب رختِ سفر باندھا۔ میٹرو کے ذریعے زمینی مگر ہوائی سفر کا سا احساس دل میں تازگی بھر رہا تھا۔ جب لال قلعے کی سرخ دیواریں نگاہوں کے سامنے آئیں تو گویا تاریخ نے اپنے دروازے وا کر دیے۔ اندر داخل ہوتے ہی قدیم اور شاندار عمارات، جو صدیوں پرانے ادوار کی بے مثال کاریگری کا نمونہ تھیں، دیکھنے والے کا دل موہ لینے لگیں۔
لال قلعے کے موتی مسجد کی زیارت کا شوق دل میں موجزن تھا، لیکن بدقسمتی سے دروازے پر لگے قفل نے اندرونی حصہ دیکھنے کی آرزو کو تمنا تک محدود کر دیا۔ میوزیم کی سیر نے آزادی کی تحریک اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کو گویا حقیقت کی تصویر بنا کر پیش کیا۔ لال قلعے سے واپسی پر لاہوری دروازے کے باہر ایک مورتی نظر آئی، جو موجودہ حالات کی عکاسی کرتے ہوئے ایک الگ پیغام دے رہی تھی، جسے محسوس کرنا ہر حساس دل کے لیے ضروری تھا۔
اب رخ جامع مسجد کی طرف ہوا۔ یہ دیکھ کر قلبی سکون ملا کہ یہ عظیم عبادت گاہ آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے، جہاں لوگ صلوٰۃ و تسبیح میں مشغول ہیں۔ وہ منظر روح کو تسکین دینے والا تھا۔ اس کے بعد، مجاہدِ آزادی اور مفکر ملت مولانا ابوالکلام آزاد کی مزار مبارک پر حاضری دی، جہاں فاتحہ خوانی نے نہ صرف دل کو سکون بخشا بلکہ سفر کی ساری تھکن کو مٹا دیا۔
جلدی جلدی نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچا، جہاں شہرِ عقیدت اور مرکزِ علم و معرفت، دارالعلوم دیوبند کو جانے والی ٹرین پلیٹ فارم پر پہلے سے ہی منتظر تھی۔ ٹرین میں اپنی نشست پر براجمان ہوا اور نمازِ مغرب کے بعد دیوبند کی مقدس سرزمین پر پہلی مرتبہ قدم رکھا۔ مولانا خضر صاحب کشمیری استاد دارالعلوم دیوبند کے مکان پر قیام کا موقع نصیب ہوا، جہاں محبت و خلوص سے معمور ساتھیوں کی میزبانی نے دل کو شاداب کر دیا۔ عمر بھائی کی دلکش مسکان، ریحان بھائی کی خاموشی میں وقار اور شاداب بھائی کی متحرک طبیعت میں برکت کی روشن مثالیں اب بھی دل پر نقش ہیں۔ لیکن مولانا کی غیر موجودگی دل کے سکون میں خلل ڈال رہی تھی۔ مولانا حالیہ دنوں میں شدتِ علالت کی وجہ سے اپنے وطن میں زیرِ علاج ہیں۔ تمام احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ انہیں جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے، آمین۔
دارالعلوم دیوبند کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی دل و دماغ پر خیالات کا ایک طوفان چھا گیا۔ یہ وہی عظیم ادارہ ہے جس کی بنیاد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ہندوستان میں بقائے اسلام اور احیائے دین کی لازوال جدوجہد کے تحت رکھی تھی۔ دارالعلوم کی تاریخ، اس کا تحریکی کردار، اور یہاں کے علماء و صلحاء کا ہجوم ہر گوشہ دل کو اپنے حصار میں لے رہا تھا۔
یہ راہِ عشق ہے، خزانۂ عرفان
دل کے دامن میں ہے روشنی کی جان
یہاں پہنچتے ہی ذہن میں کئی خواہشیں اور ارادے مچلنے لگے۔ کیا پہلے مسجد رشید کے جلالی حسن کو دیکھا جائے یا چھتہ مسجد کی پُرکیف فضا میں دل کی تسکین حاصل کی جائے؟ کیا مزار قاسمی پر حاضری دے کر بزرگوں کی روحانی برکتوں سے فیض یاب ہوا جائے یا مزار انوری اور مزار عابدی کے نورانی ماحول میں دعا مانگی جائے؟ کیا دارالحدیث کی علمی مجالس میں شرکت کر کے اکابرین کے افکار سے مستفید ہوا جائے یا دیگر علمی شعبوں کا مشاہدہ کیا جائے؟
الغرض، ان تمام تمناؤں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دارالعلوم کے ہر گوشے سے شناسائی حاصل کی۔ ماضی کے جلیل القدر اکابرین کی یادگاریں اور ان کے ملفوظات، جو ہر گوشے میں گویا بکھرے ہوئے تھے، دل کو منور کر رہے تھے۔ یہاں کی فضا میں سکون اور روحانیت کا ایک عجب احساس تھا، جیسے دل کو اس آستانے سے جدا ہونے کی اجازت ہی نہ ہو۔
دل کو سکون ملتا ہے اس آستانے پر،
رہ جاؤں کاش یہیں، یہ دل کی دعا ہے
حضرت حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا، اور وہ مقام روحانی سکون اور وجدانی احساسات کا محور بن گیا۔ یہاں پہنچ کر خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات نے دل کو ششدر کر دیا۔ مزارِ قاسمی کی زیارت کے لیے آیا تھا، لیکن اکابرین کی اس بستی کی معطر فضا نے قلب میں ایک انوکھی آرزو جگا دی—کہ کاش، اسی سرزمین کے ایک گوشے میں گوشہ نشیں ہوکر زندگی بسر کر لوں! لیکن داغ دہلوی کے اس شعر نے خیالات کی دنیا کو حقیقت کے آئینے میں ڈال دیا:
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران ان گراں قدر علمی و روحانی شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جنہوں نے علم و فضل کے میدان میں اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔ مولانا ایوب مظفر نگری، مولانا نسیم بارہ بنکوی، مولانا عارف جمیل مبارکپوری، مولانا افضل کیموری، مولانا افضل بستوی، مفتی عثمان غنی ہاؤڑوی، مفتی ساجد، مفتی اشتیاق دربھنگوی، مفتی عمران اللہ غازی آبادی، مفتی محمد اللہ، مولانا توقیر قاسمی نقشبندی کاندھلوی، مولانا عبد الحمید بستوی، مولانا عبدالملک بجنوری، مولانا حسین قاسمی سیتا مڑھی، مفتی اسد قاسمی اور مولانا اسجد عقابی جیسے اکابرین کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کی پرخلوص نصیحتیں، علمی گہرائی اور امت کے لیے درد مند جذبات نے دل و دماغ پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ یہ ملاقاتیں درحقیقت علم، روحانیت اور اخلاص کا ایک حسین مرقع تھیں، جو دیر تک ذہن و قلب کو گرماتی رہیں گی۔
اسی دوران، مادر علمی جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے کچھ دیرینہ احباب سے ملاقات نے زمانہ طالب علمی کی یادیں تازہ کر دیں۔ ان کی موجودگی نے دارالعلوم سے اجنبیت کے پردے یکایک ہٹا دیے اور یوں محسوس ہوا کہ دل دوبارہ اپنے اصل مقام پر لوٹ آیا ہو، جیسے:
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔
محمد عظیم دیوبندی اور سعادت حسین امروہوی سے یہ پہلی ہی ملاقات تھی، لیکن ان کی بے تکلف گفتگو، دوستانہ مزاج، اور خوش مزاح شخصیت نے اجنبیت کا ہر شائبہ پلک جھپکتے میں مٹا دیا۔ ان کی دلکش باتیں اور خوش دلی سے بھرپور قہقہوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جیسے یہ کوئی نئی شناسائی نہیں بلکہ دیرینہ اور مخلص دوستوں کے ساتھ خوشگوار لمحات کا حسین خواب ہو۔ ایسا لگا کہ ہم انہیں عزیز احباب کے درمیان ہیں جن کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں اور مسرت بھرے لمحات شیئر کرنا حیات مستعار کا انمول تجربہ ہو۔ یقیناً
کچھ لوگ ایسے بھی تعلق نبھاتے ہیں
فاصلے مٹتے ہیں اور خواب سجاتے ہیں
مفتی اشرف عباس صاحب اور مولانا صداقت حسین صاحب سے ملاقات ایک سعادت تھی، جس میں ان کے علمی کمالات، گہرے تدبر اور امت کے لیے دل سوز فکر کے جلوے نمایاں تھے۔ ان کی بصیرت افروز رہنمائی نے نہ صرف فکری جذبات کو مہمیز دی بلکہ مختلف عملی پہلوؤں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے راہنمائی کے نئے افق روشن کیے۔ ان سے مل کر ایسا محسوس ہوا گویا علمی زرخیزی اور امت کی خیرخواہی کے لیے بے مثال جدو جہد کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہو۔دارالعلوم کا سفر ہو اور وہاں کی لذیذ بریانی، حافظ جی کی خاص چائے، اور فرقان کی لاجواب تہاڑی کا ذکر چھوٹ جائے، تو گویا سفر کی روح ہی ادھوری رہ جاتی ہے۔ ان نایاب ذائقوں کے قصے سن کر دل میں شوق و تلذذ کی ایک لہر پیدا ہو گئی تھی، لیکن جب حقیقت میں ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، تو ہر ذائقہ ایک نئی کہانی سنانے لگا۔ ان نعمتوں نے نہ صرف تھکن کو کافور کر دیا بلکہ جسم و روح کو ایسی توانائی عطا کی جیسے طویل سفر کی مشقت کا صلہ مل گیا ہو۔ وہ لمحے دل پر نقش ہو گئے، اور ان کا ذائقہ یوں محسوس ہوا گویا زندگی کا لطف اسی میں پوشیدہ ہے۔
یہ ذائقے، یہ خوشبو، یہ لطفِ بے پایاں
ہزار شکر کہ ہر نعمت ہے میرے دل کا مکیں
الغرض، دارالعلوم دیوبند میں دو روزہ قیام کا یہ سفر علمی، روحانی اور یادگار لمحات سے بھرا ہوا تھا، لیکن آخرکار الوداع کا وقت قریب آیا۔ رخصت کے ان لمحوں میں شفیق جونپوری کا یہ شعر دل کی ترجمانی خوب کرتا ہے:
یہی سوچ کر ہر در و دیوار کو دیکھا
کہ شاید تمہیں رخصت کرتے ہوئے نہ دیکھوں
وہاں سے پھر مظاہر العلوم سہارنپور کی علمی و روحانی سرزمین کا قصد ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی دل میں ایک بار پھر علم و عقیدت کی روشنی نے چراغ جلائے۔ یہاں بھی اتفاقاً پرانے ساتھیوں سے ملاقات ہوگئی، اور گپ شپ کے خوشگوار لمحات نے سفر کی تھکن کو یکسر بھلا دیا۔ مولانا اسد اللہ ناظم مظاہرعلوم، امیرالمؤمنین فی الحدیث شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری اور پیر طریقت حضرت مولانا طلحہ رحمہم اللہ کے مزارات پر حاضر ہونے کا شرف نصیب ہوا، جو رات کی خاموش تاریکیوں میں ایک انوکھی روحانی کیفیت کا باعث بن گیا۔ فاتحہ خوانی کے بعد رفیق درس مولانا زین کے دیار جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ایک پرتکلف اور لذیذ عشائیہ ہمارے منتظر تھا۔ یہ ایسا شاندار تھا کہ بقیہ واپسی کے پورے سفر میں بھوک کا احساس تک نہ ہوا۔
مولانا زین کے والد محترم جناب عمران الزماں صاحب کی محبت اور کرم نوازی نے دل کو ممنونیت کے جذبات سے بھر دیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور انہیں صحت و عافیت عطا کرے۔ دورانِ گفتگو مولانا زین کے والد محترم نے اپنے والدِ بزرگوار، مشہور علمی شخصیت اور انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مصنف مولانا محمد یامین قریشی رحمہ اللہ کا تعارف کرایا۔ ان کے علمی کارناموں کا سن کر ان کے خانوادے کے علمی وقار نے دل میں گہری عقیدت پیدا کر دی۔
عشائیے کے بعد مظاہر العلوم کی طرف واپسی ہوئی۔ چونکہ گاڑی رات سوا بارہ بجے روانہ ہونی تھی، اس لیے وقت گزارنے کے لیے دوستوں، فرحان سعیدی اور مولانا زین مظاہری کے ساتھ پرانی یادوں میں محو ہو گئے۔ ان کی معیت میں ہنسی مذاق اور گزرے دنوں کی باتوں نے دل کو بے حد فرحت بخشی اور یہ خیال بار بار دل میں آیا:
وہ دن کیسی خوشی کے تھے، وہ لمحے کتنے پیارے تھے
زمانے بھر کی رونق تھی، جو ہم تم ساتھ گزارے تھے
آخرکار ٹرین کی آمد کا وقت قریب آیا تو ہم نے وقت کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے وقت سے پہلے ہی اسٹیشن کی جانب رخ کیا۔ دوستوں کی محبت بھری رفاقت میں اسٹیشن پہنچ کر بالآخر شہرِ علم و معرفت کو الوداع کہنا پڑا۔ دل سے ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اس سفر میں نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اپنی محبت اور خلوص سے اسے یادگار بنا دیا۔ دعا ہے کہ اللہ ان سب کو خوشیوں اور برکتوں سے نوازے۔ بطورِ خاص شکریہ رفیق محترم مولانا سلمان عالم قاسمی کا، جن کی رہبری اس سفر کی تکمیل کا باعث بنی۔ ان کی رفاقت نے نہ صرف سفر کو سہل و آسان کر دیا بلکہ کئی دشوار گزار راستوں کو بھی ہموار کر دیا۔ ان کی بصیرت اور تعاون ہر قدم پر مشعلِ راہ ثابت ہوا، اور ان کی ہمراہی نے اس سفر کو ایک خوشگوار یاد میں بدل دیا۔ بے شک ایسے رفیق سفر کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔
رفاقتیں ہوں جہاں دل نواز لوگوں کی
وہاں کی منزلیں کتنی حسین ہوتی ہیں
زندگی میں کچھ سفر محض مقام سے مقام کی تبدیلی نہیں ہوتے بلکہ دل و دماغ کی وسعت، روح کی تازگی اور جذبات کی تہذیب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سفر یادوں کے وہ انمول نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو نہ صرف قلب کو سکون دیتے ہیں بلکہ زندگی کے مقصد کو بھی نئی جلا بخشتے ہیں۔ میرے اس سفر کا آغاز بھی ایک اچانک فیصلہ تھا، لیکن یہ سفر محبتوں کی بستیوں، علم کی روشنیوں اور دوستی کی خوشبوؤں سے لبریز ثابت ہوا۔
خواجہ نظام الدین اولیاء کی روحانی سرزمین سے لے کر لال قلعے کی تاریخ ساز دیواروں تک، دیوبند کے علمی ماحول سے مظاہر العلوم سہارنپور کی روحانی فضاؤں تک، ہر لمحہ ایک نئی کہانی اور ہر منظر ایک نئی دنیا پیش کر رہا تھا۔ کہیں تاریخی ورثے کی عظمت دل کو چھوتی تھی، تو کہیں دوستوں کی معیت اور استادوں کی شفقت روح کو سرشار کرتی تھی۔
یہ محض ایک سفر نہیں تھا، یہ دل کی تسکین، یادوں کی تازگی اور علم و عرفان کے خزانے کی تلاش کا ایک حسین تجربہ تھا، جس کی تفصیلات دل میں ایک نہ ختم ہونے والے چراغ کی طرح جل رہی ہیں۔ اس سفر نے میرے دل و دماغ کو ایسے رنگوں سے بھر دیا جو نہ کبھی ماند پڑیں گے اور نہ بھول سکیں گے۔ کیونکہ
سفر نے بخش دی ہے نئی زندگانی
ہر رنگ، ہر لمحہ ہے کہانی