صرف فرائض کی ادائیگی سے مثالی شخصیت کی تعمیر نہیں ہوتی!
مدثر احمد قاسمی
دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جنکا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایسے کام ہوتے ہیں جن کے نہ کرنے پر مواخذہ اور پکڑ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دینی اعتبار سے نماز، روزہ اور زکاۃ وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن کو انجام نہ دینے پر اللہ کی پکڑ اور سزا یقینی ہے۔اسی طرح دنیاوی اعتبار سے ملازمت، مزدوری، یا کسی اور ذمے داری کو اگر وقت پر اور صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دیا گیا تو متعلقہ ذمے داروں کی طرف سے گرفت لازمی ہے۔لیکن دینی اور دنیاوی اعتبار سے کچھ کام ایسے بھی ہیں کہ جو لازم اور واجب نہیں ہوتے لیکن ان کے انجام دہی سے انسان کا رتبہ بلند ہوتا ہے، اللہ رب العزت کا پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے اور انسانوں میں اسے محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔
آئیے! اب ہم دینی اعتبار سے کچھ ایسے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں جو فرض اور واجب نہیں ہیں لیکن فضیلت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے میرے خلیل (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے کہ مرتے دم تک انہیں نہ چھوڑوں: "ہر مہینے میں تین روزے رکھنا، نماز چاشت پڑھنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔” (بخاری) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: "جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نفل (اوابین) اس طرح پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے، اس کے لئے یہ نفل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ (ترمذی) ان دونوں احادیث کے علاؤہ ذخیرہ حدیث میں بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جو نوافل اور مستحب اعمال کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔
اسی طرح بہت سارے دنیوی کام ایسے ہیں جو فرض اور واجب نہیں ہوتے لیکن ان کو انجام دینے سے انسان دوسروں سے ممتاز اور فائق ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں مل جاتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمے داری کو اللہ رب العزت نے ذیل کی آیت میں صاف بیان فرمایا ہے: ” وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں؛ جب کہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔” (الجمعہ:2) لیکن جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا باالاستعاب مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جو آیت میں مذکور ذمے داریوں کے علاؤہ اخلاقیات کے قبیل سے ہیں اور شرعی اعتبار سے لازم نہیں ہیں؛ پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انجام دے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کو وسیع القلب، وسیع النظر اور بہترین انسان بننے کی دعوت دی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ : ” اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خود کرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاو چھوڑ کر چلے جاتے۔” (ترمذی)
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ جہاں ہم فرائض و واجبات کے تئیں پابند رہیں، وہیں نفلی اور مستحب اعمال کو بھی غفلت کی نذر نہ کریں؛ کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم بہت ساری برکتوں، فضیلتوں اور فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ مزید براں، علمائے امت نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت و مستحب کو مستقل نظر انداز کرنے اور چھوڑنے سے اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان فرائض و واجبات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہاں موضوع کی مناسبت سے اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں چاہے گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ملازمت یا تجارت میں؛ ہمیں اس بات کا اہتمام ضرور کرنا چاہیئے کہ ہم مفوضہ اور ضروری کام سے آگے بھی کچھ اور کام کرنے کی عادت بنائیں۔ مثال کے طور پر گھر میں ضرورت کے مطابق جو کام سامنے آجائے اسکو کردینا؛ اگرچہ وہ کام دوسرا بھی کرسکتا ہے۔اسی طرح آفس اور اسکول وغیرہ میں اگرچہ صفائی کے لیئے کچھ لوگ ہوتے ہیں لیکن اگر ہمارے سامنے کچھ گندگی نظر آجائے تو ہم اس کو خود صاف کر دیں۔ سماجی کام بھی اس قبیل سے ہیں کہ جب بھی اور جس اعتبار سے بھی ہمیں موقع ملے ہم دست تعاؤن ضرور دراز کریں۔ اگر ہم نے اپنی زندگی کو مذکورہ معروضات کی روشنی میں مزین کر لیا تو دن بدن ہماری شخصیت نکھرتی جائے گی اور ہم دوسروں کے لیئے اچھائی کی مثال بن جائیں گے۔ (ان شاء اللہ)