حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں
محمد توقیر رحمانی
اسلام کی ابتدا اسی وقت ہوئی جب دنیا میں پہلا انسان آیا، جو تمام انسانوں کا جد امجد ہے اور اسے بابا آدم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ عین فطرت کے مطابق اپنی آنکھیں کھولتا ہے لیکن جونہی بڑا ہوتاہے تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول کا عادی پاتا ہے جس گھرانے میں اس نے جنم لیا ہے۔ اب اس کے پاس صرف دو ہی راستے ہوتے ہیں یاتو اپنے آپ کو اسی ماحول کے رنگ وبو اور نظریات میں ڈھال لے یا دین فطرت کی جستجو کرےاگر اس کے آس پاس موجود لوگوں کےنظریات دین فطرت کے مطابق ہیں تو اسے اپنالے اگر مطابق نہیں تو اس کی تلاش جاری رکھے اور خالق کائنات کی تخلیقات میں غوروفکر کرتا رہے۔ کیونکہ جب انسان اپنے وجود اور نظام کائنات پر غوروفکر کرتاہے تو قدرت کے حقائق اس کے سامنے آشکارا ہوتے ہیں۔ اور اسے دین فطرت کی رہنمائی بآسانی ہوجاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جہاں لوگوں نے دین فطرت کی تلاش میں اپنی عمریں گذار دیں اور بہت ہی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد دین فطرت کی رہنمائی ہوئی۔ ان میں ایک ایسی ہی شخصیت کا نام سلمان فارسی ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی زندگی حق کی تلاش اور اللہ کی راہ میں قربانی کی ایک روشن مثال ہے۔ ان کا اصل نام روزبہ تھا اور آپ ایران کے ایک معزز زرتشتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مجوسی مذہب کے پیروکار تھے، اور آپ بھی ابتدائی زندگی میں اسی مذہب کی پیروی کرتے رہے۔ ایک دن آپ کا گزر ایک عیسائی عبادت گاہ سے ہوا، اور آپ کو عیسائیت میں سچائی کی جھلک نظر آئی، جس میں آپ کی دل چسپی پیدا ہوئی۔ آپ نے عیسائیت کو اپنانا شروع کیا اور اپنے والدین کو چھوڑ کر عیسائی راہبوں کے ساتھ رہنے لگے۔ پھر آپ نے عیسائیت کی مزید سچائی تلاش کرنے کے لیے مختلف علاقوں کا سفر کیا، یہاں تک کہ آپ کو ایک عیسائی پادری نے بتایا کہ نبی آخر الزماںﷺ کا ظہور عرب میں ہونے والا ہے۔
- حق کی تلاش میں حضرت سلمان فارسی نے عرب کا رخ کیا۔ راستے میں آپ کو کسی نےدھوکہ دے کر غلام بنا لیا اور یثرب (مدینہ) کے ایک یہودی شخص کے ہاتھ بیچ دیا ۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے نبی کریم ﷺ کی خبر سنی اور ان کی ان علامتوں کو پہچان لیا جو آپ نے عیسائی راہبوں سے سنی تھیں۔ جب آپ کو یقین ہو گیا کہ یہ وہی آخری نبی ہیں جن کی پیشین گوئی کی گئی تھی، تو آپ نے غلامی کی حالت میں ہی اسلام قبول کر لیا۔ حضرت سلمان فارسی کی زندگی حق کی تلاش اور اللہ کے دین کی خدمت کا عظیم نمونہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے وطن، خاندان اور دنیاوی آرام کو چھوڑ کر دین فطرت کو اختیار کیا۔ حضرت سلمان فارسی کی عمر تقریباً 150 سال ہوئی اور انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصّہ دین حق کی تلاش ہی میں صرف کیا اور بقیہ عمر اس کی ترویج واشاعت میں۔
ان کے علاوہ اور دوسری بہت سی نابغۂ روزگار شخصیات ہیں جنہیں دین فطرت کی تلاش میں اپنے گھروں، والدین اور پورے وطن کو خیرآباد کہنا پڑا اور دوسری بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرناپڑا، بالآخر ان تمام قربانیوں کے بعد ان کو حق کی رہنمائی نصیب ہوئی۔ اگر ان تمام کا مختصرا ذکر کیا جائے تو بھی ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ انسان کی پیدائش جس گھرانے میں بھی ہو دین فطرت کی تلاش اور اس پر عمل پیرا ہونا انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ جیسے حضرت سلمان فارسی کی پیدائش ایک آتش پرست گھرانے میں ہوئی لیکن وفات تبلیغ اسلام کرتے ہوئی۔
اسلام ہی دین فطرت ہے اور اس کی رہنمائی کے لیے مالک کون و مکاں نے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر مختلف پیغامبروں کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی رہنمائی کی اور انہیں یہ ہداہت بھی دی کہ اس دین فطرت کا آخری پیغامبر نبی آخرالزماں محمد عربی ﷺ ہونگے اور انہیں کی پیروی قیامت تک آنے والی تمام انسانیت پر لازم ہوگی۔ پیغمبروں کے ذریعہ رہنمائی کی ضرورت اس لیے پڑی کہ رب دو جہاں نے جب بابا آدم کو بنایا تو اس وقت ابلیس نے اللہ کے ایک حکم کی نافرمانی کرکے اپنے آپ کو انسانوں کا ازلی دشمن بنالیا اور عہد کیا کہ انہیں دین فطرت سے منحرف کرنے کی اپنی پوری کوشش کریگا اور انہیں دین اسلام کا باغی بنادیگا۔ شیطان نے گزرتے اوقات کے ساتھ انسان کو دین اسلام کا باغی ہی نہیں بلکہ دوسرے ایسے نظریات اور عقائد کا پیروکار بنادیا کہ انسان اپنی حقیقت بھول کر دین اسلام کے عظیم سرمایہ سے محروم ہوگیا اور وہ انسانی شکل میں ایسا درندہ بن گیا کہ کشت و خون، قتل وغارت گری، رہزنی، لوٹ کھسوٹ اور ایک دوسرے پر ظلم ان کا شیوہ بن گیا۔ ان میں جن کا معاشرہ میں اثرورسوخ تھا انہوں نے خدائی کا دعویٰ کردیا اور لوگوں پر ظلم وتشدد کے ذریعے اپنی پرستش کرانے لگے۔ یہاں سے پھر بربریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جو انسانیت کو بھی شرمسار کردے۔ اسی کے سدباب کے لیے اللّہ نے پیغمبروں کا سلسلہ شروع فرمایا اور اخیر میں محمد رسول اللہ کو اپنی آخری کتاب قرآن عطا فرماکر نبیوں کا سلسلہ منقطع کردیا اور اس کتاب قرآن کو قیامت تک کے لیے ھدایت اور رسول اللہ کو اسکا عملی نمونہ بنا کر پیش کیا۔
اگر اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف طورپر پتہ چل جائےگا کہ آخر اسلام ہی دین فطرت کیوں ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسان کے ہر ایک مسائل کا حل ہے۔ اسلام ہر چھوٹے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہونے کا طریقہ بتلاتا ہے۔ قرآن انسان کے غم کا ساتھی ہے جس میں ہر غم کا ازالہ ہے۔ اسلام حیات سے ممات تک کا سفر طے کرنے کا طریقہ بتلاتا ہے۔ صلہ رحمی اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ اللہ کی بندگی، عدل و انصاف، اخوت و مساوات، اور تقویٰ و تزکیہؑ نفس اسلام کی وہ اہم تعلیمات ہیں جن سے معاشرہ ہم آہنگی، اخلاقیات، سماجی انصاف اور ترقی کی طرف گامزن رہتاہے۔ الغرض اسلام ہر اس مسئلے کا حل ہے جو انسانی زندگی سے متعلق ہیں۔
اسلام فطری دین ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر آج تک انسانیت کی رہنمائی کر رہا ہے اور تا قیامت اس کی تعلیمات پوری انسانیت کے لیے تاریکی میں قندیل کا کام کرےگی۔ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ صرف عقائد کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس میں انسان کے ہر پہلو کی رہنمائی کی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرنے والا اسلام ایک متوازن اور عدل پسند دین ہے۔ یہ دین انسان کو اس کے خالق سے جوڑنے اور مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔