محاضرہ بعنوان "ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں”
مہدی حسن عینی قاسمی
ڈائریکٹر انڈیا اسلامک اکیڈمی دیوبند
بموقع قومی کانفرنس بعنوان” عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں”
باہتمام:مرکز المعارف ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی
بمقام:اجمل ہاؤس لان دیوبند
رب کریم کی توفیق بندے کے میدانی تجربات،متاثر بہنوں اور بھائیوں سے گفتگو اور اس میدان کے فعال افراد کی نشاندہی کے نتیجے میں جو کچھ سمجھ میں آیا ہے درج کررہا ہوں۔
ارتداد کی بنیادی طور پر 3 قسمیں ہیں :
1. تہذیبی ارتداد
2. فکری ارتداد
3. عقیدے کا ارتداد
ہمارے وطن میں ملت اسلامیہ کا وہ طبقہ جو مخلوط آبادی میں رہتا ہے، جاب،یا ملازمت کرتا ہے،عام طور پر وہ تہذیبی ارتداد کا شکار ہوتا ہے، دیوالی،ہولی،کرسمس سمیت متعدد تیوہاروں میں بلا تکلف وہ غیر اسلامی امور انجام دیتا ہے،جے شری رام،نمستے،وندے ماترم جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے،ہاتھ جوڑ کر سلام کرتا ہے،گھٹنوں تک جھکتا ہے،جاگرن اور پریئیر میں شریک ہوتا ہے،ناچتا گاتا ہے، اپنی شناخت چھپاتا ہے،داڑھی ٹوپی سے ڈرتا ہے۔ اسلام کے اظہار کے سے گھبراتا ہے،اپنی تہذیب اور زبان کے استعمال کے تعلق سے احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے، یہی تہذیبی ارتداد ہے جو عوام تو چھوڑئیے خواص تک کو فکری ارتداد تک پہونچاتا ہے۔
فکری ارتداد
اسلامی شعائر ،شناخت، داڑھی،ٹوپی،حجاب،نقاب، قربانی،مدارس،مساجد،اجتماعی اسلامی امور سے متعلق تنقیص کا شکار ہونا یا تنقید کرنا،اسلام کو متشدد مذہب گرداننا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی،امہات المؤمنین،صحابہ کرام اور اسلاف پر تنقید کرنا فکری ارتداد ہے جو الحاد تک پہونچاتا ہے۔
عقیدے کا ارتداد
فکر و تہذیب کے بدلنےسے جب انسان اسلام سے بدظن ہوکر،یا خود ساختہ آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام سے محروم ہوجاتا ہے تو اسے عقیدے کا ارتداد کہتے ہیں۔ اب یا تو ایسا شخص مرتد ہوکر کسی مفاد کی وجہ کسی دوسرے مذہب کو اپنائے گا تو وہ مرتد کہلائے گا یا لامذہبی بن جائے گا تو وہ ملحد یا دہریہ کہلائے گا۔
فکری و تہذیبی ارتداد کے متعدد اسباب ہیں،نیز علاقائی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔مسلم سماج میں عقائد کے ارتداد کے واقعات اگرچہ بکثرت رونما ہورہے ہیں،لیکن سب سے حساس مسئلہ فکری اور تہذیبی ارتداد کا ہے جو عقائد کے ارتداد تک پہونچاتا ہے،اسی لیے فکری و تہذیبی ارتداد کے کچھ بنیادی اسباب کا تذکرہ ضروری ہے:
(1)مخلوط نظام تعلیم
(2) گھریلو و معاشرتی بگاڑ
(3) بچوں کی تربیت میں لاپرواہی
(4)بچیوں کو نکاح،میراث اور امور خانہ داری وغیرہ میں برابری کے حقوق نہ ملنا
(۵)مسلم نوجوانوں میں تعلیم و اخلاق کا فقدان اور غیر مسلم نوجوانوں کا اچھا رہن سہن اور تہذیب سے پیش آنا
(6)نکاح میں تاخیر
(7)موبائل اور سوشل میڈیا کا بیجا استعمال
(8) فلمیں،ڈرامے،سیریلز و ویب سیریز دیکھنا
(9)بچیوں کو اعلی تعلیم دلوانا اور لڑکوں کو مختصر تعلیم دلاکر کاروبار میں لگادینا نتیجتاً بہت سارے معاملات میں لڑکیوں کو مسلم لڑکے اچھے نہیں لگتے
(10)غربت اور معاشی ضروریات بھی ارتداد کا کلیدی سبب بن رہے ہیں
(11)خود ساختہ جمہوریت اور گنگا جمنی نبھانے کے لیے مشرکانہ تہذیب و ثقافت اور اعمال کے تئیں نرمی بلکہ ان کی انجام دہی
یہ بھی حقیقت ہے کہ ارتداد کی ابتداء نسائیت پرستی یعنی فیمن ازم سے ہوتی ہے،اور انتہاء الحاد و دہریت ہے۔اس لئے مختصراً ان نظریات کا تعارف درج ہے۔
فیمن ازم کا تعارف
عورت کی آزادی کے تصور کو لے کر عصر حاضر میں بھی معاشرہ الہام کا شکار ہے اس ابہام کو دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاشرہ جس بگاڑ کی طرف جارہا ہے اس بگاڑ کو دور کیا جاسکے رجعت پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک متداول پسند سوچ کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ سوچ اسلام میں پائی جاتی ہے۔ ذیل میں فیمن ازم کے چند مکاتب فکر کے نظریات پیش کیے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے آزادی نسواں کے تصور کو مختلف جہتوں سے بیان کیا۔
تصور آزادی نسواں سے متعلق مکاتب فکر کے نظریات کا جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ تحریک نسواں کے اصل میں مقاصد کیا ہیں وہ کیا حقوق ہیں جنہیں حاصل کیا جانا مقصود ہے ۔عمومی طور پر تحریک نسائیت کے تین مکاتب فکر مشہور ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
(1) بنیاد پرست مکتبہ فکر (Redical Feminism):
اس مکتبہ فکر کے نظریات کے مطابق عورت مرد کے ہاتھوں استحصال کا شکار رہی ہے اور مردوں کے معاشرے میں عورت مظلوم و محکوم ہے۔ مرد عورت کو تشدد کے ذریعے محکوم رکھنا چاہتا ہے۔
ان کے نزدیک مرد عورت کا دشمن ہے یہ معاشرے کیلئے (Patriarchy) کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں جس کا مطلب ہے مردوں کا معاشرہ یہ طبقہ مردوں کے معاشرہ کو عورت کے معاشرہ میں تبدیل کرنا چاہتاہے اور ہم جنس پرستی سے ہی مردوں سے مکمل آزاد ہوا جا سکتا ہے۔ بہر حال عورت کا آزادی کے بارے میں یہ انتہاء پسند سوچ کا مالک مکتبہ فکر ہے۔ ان کے نزدیک مرد کی امتیازی حیثیت کو ختم ہونا چاہیے۔
(2)مارکسی فیمن ازم کا حامل طبقہ:
مارکسی یا اشتراکی مکتبہ فکر کارل مارکس کا مرہون منت ہے جو اشتراکی نظام معیشت کا بانی تصور کیا جاتا ہے کارل مارکس نے اشتراکی نظام معیشت کی بنیاد رکھی تو عورت کی مظلومیت کا سارا بوجھ سرمایہ دارانہ نظام پر ڈال دیا۔
مارکسی اور اشتراکی نقطہ نظر رکھنے والے مرد یا عورت محکوم معاشرے کو مکمل طور پر عورت کے استحصال کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے ان کے نزدیک عورت کی مظلومیت کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام ہے اُن کے نزدیک عورت کو بحیثیت ماں یا خاتون خانہ کے کام کرنا دراصل استحصال ہے کیونکہ اس کام کا کوئی معاوضہ اُسے نہیں ملتا۔
(3)لبرل فیمن ازم کا مکتبہ فکر:
تیسرا مکتبہ مغرب کے ہاں آزادی پسند گروہ کا ہے۔ یہ طبقہ عورت کو انفرادی حیثیت میں حقوق دینے پر زور دیتا ہے۔لبرل نسائیت کا مکتبہ فکر آزادی کو شخصی آزادی کے طور پر اخذکرنا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ لبرل نسائیت پسند یقین رکھتے ہیں کہ شخصی آزادی کی مشق کچھ خاص اہلیت والے حالات پر منحصر ہے جو خواتین کی زندگیوں میں ناکافی حد تک موجود ہیں یا پھر معاشرتی انتظامات خواتین کی شخصی آزادی کی عزت کرنے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور خواتین کی فعالیت کے دوسرے عناصر لبرل نسائیت پسند یقین رکھتے ہیں کہ ریاست خواتین کی شخصی آزادی کی ترویج کی تحریکیں ختم کر سکتی ہیں۔
لبرل مکتبہ فکر کے نزدیک عورت کو مردوں کے مساویانہ حقوق میسر آنے چاہیں۔ ان کے نزدیک عورتوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بحیثیت قانون اپنے آپ کو مختلف شعبہ جات میں منوا سکیں۔ جو مسائل لبرل نسائیت پسندوں کیلئے اہم ہیں ان میں بچوں کی پیدائش اور اسقاط کے حقوق، جنسی تشدد، حق رائے دہی، تعلیم، یکساں روز گار کی یکساں اجرت، بچوں کے قابل استطاعت دیکھ بھال اور خواتین کے خلاف ہونے والا گھریلو اور جنسی تشدد کو منظر عام پر لانا شامل ہے۔ یہ طبقہ بنیاد پرست اور مارکسی مکاتب کی طرح کسی دوسرے کو عورتوں کی محکومیت کا ذمہ دار قرار نہیں دیتا بلکہ انفرادی حیثیت میں حقوق کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔
اس وقت مسلم معاشروں کیلئے سب سے بڑا فتنہ فیمن ازم ہے۔۔۔
کیونکہ اس میں بیک وقت لبرل ازم،سیکولر ازم،کیپٹل ازم، فاشسزم، حتی کہ تشکیک اور الحاد تک جیسے تمام نظاموں کی (باطل) خصوصیات بیک وقت فیمن ازم میں جمع ہیں اور بدرجہ اتم جمع ہیں۔ کیسے؟
1۔ سیکولر ازم:
اس کے مطابق کوئی مذہب عورت پر اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ یہ اسکی اپنی مرضی ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ کیا کرتی ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے بڑا مخمصہ یہ ہے کہ حجاب، وراثت، تعدد ازواج، مرد کی قوامیت، غیر مسلم مرد سے شادی کی ممانعت جیسے تصورات کسی صورت میں بھی فیمن ازم کے ساتھ کمپیٹیبل نہیں ہیں۔ ایسے میں سیکولر اپروچ کے بغیر کوئی عورت (یا مرد) حقیقتاً فیمنسٹ بن ہی نہیں سکتا۔
2۔ لبرل ازم:
یہ درست ہے کہ ریڈیکل فیمن ازم کے لبرل فیمن ازم سے کئی ایک اختلافات ہیں،بالخصوص ٹرانسجینڈر خواتین کی قبولیت کے حوالے سے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریڈیکل فیمن ازم، ایل جی بی ٹی تحریک کی بدولت اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور دنیا میں اسوقت لبرل فیمن ازم کا طوطی بول رہا ہے۔
لبرل ازم کے دو بنیادی ستون ہیں: آزادی اور برابری
تو ایک طرف اسقاط حمل کی آزادی سمیت اپنے جسم کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی آزادی اور دوسری طرف مردوں کے ساتھ ہر ہر طرح کی برابری کا علم بردار فیمن ازم سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟
3۔ کیپٹل ازم:
کیپٹل ازم کو تو جس قدر فائدہ فیمن ازم کی تحریک سے پہنچا ہے، شاید ہی کسی اور ذریعے سے پہنچا ہو۔ عورتوں کو گھروں سے نکال کر معاشرے کی ورکنگ فورس کو تقریباً دوگنا کرنا،ابتدا میں (اور بہت سی جگہوں پر آج بھی) عورتوں سے کام پورا مردوں والا لینا لیکن تنخواہ مردوں سے کم دینا،ادویات سے لے کر پراپرٹی تک اور چاکلیٹ سے لے کر مردوں کے بنیان تک کی مارکیٹنگ میں عورت کا بے تحاشہ اور بے دریغ استعمال، ہر ادارے، دوکان اور ہوٹل میں گاہکوں کو گھیرنے کیلئے عورت کا استعمال، زنا کے فروغ سے مانع حمل ذرائع کی کروڑوں ڈالرز کی انڈسٹری، فلموں ڈراموں کی کھربوں ڈالرز کی انڈسٹری، جسم فروشی کو عورت کا حق قرار دے کر پورنو گرافی کی اربوں ڈالرز کی انڈسٹری، الغرض اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جو فیمن ازم کی ویمپائر کے ذریعے صارفین کا خون نہ چوس رہا ہو۔
4۔ فاشزم:
ہریسمنٹ،طلاق کے بعد ایلیمنی (alimony)، ناجائز خلع، ریپ کے جھوٹے الزامات، بچوں کی کسٹڈی، مکاری سے مشہور سلیبرٹی کے ساتھ زنا کے بعد اسکے بچے کی ماں بن کر ساری عمر کیلئے جونک کی طرح اسکے ساتھ چمٹ جانا، دوسری شادی کی صورت میں عدالتی کارروائی، شوہر کی رضامندی کے بغیر اسقاط حمل۔۔۔۔ یہ چند مثالیں ہیں جہاں ظالم خواتین، فیمن ازم پر مبنی قوانین کو اپنے حق میں استعمال کر کے مردوں پر شدید ظلم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسی خواتین کو "Feminazi” بھی کہتے ہیں۔
5۔ تشکیک اور الحاد:
یہ لوگ ہر مذہب میں سے ایسے نکات نکال لیتے ہیں جن سے (انکے اپنے خود ساختہ معیار کے لحاظ سے) خواتین کی حق تلفی ثابت ہوتی ہو۔ پھر اگلا سوال یہ پیدا کرتے ہیں کہ خدا ناانصافی کیسے کر سکتا ہے؟
یوں مذہبی شخصیات(مولوی) کی آڑ میں پہلے مذہب پر تنقید ہوتی ہے جو تشکیک تک لے جاتی ہے اور جب یہ انتہا پر پہنچتی ہے تو نتیجہ الحاد کی صورت میں نکلتا ہے۔
بالخصوص اسلام پر تو فیمن ازم "کے اندھیرے میں”("کی روشنی میں” والا محاورہ استعمال کرنا تو بیوقوفی ہو گی) بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے کہ اللہ کیلئے مردانہ صیغہ کیوں؟ فرشتوں کیلئے مردانہ صیغہ کیوں؟ سارے انبیاء مرد کیوں؟ مرد قوام کیوں؟ مرد کی وراثت زیادہ کیوں؟ مرد کو زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان اعتراضات کو دماغ میں بٹھا کر قرآن و سنت سے نفرت پیدا کی جاتی ہے اور آخر میں بندہ کہتا ہے کہ میں کسی ایسے خدا کو نہیں مان سکتا جو (نعوذبااللہ) اتنا غیر منصف ہو۔ اور پھر فیمن ازم جن رویوں کو جنم دیتا ہے،خصوصاً طلاق پر فخر کرنا، وہ گھروں کو توڑنے پر منتج ہوتے ہیں اور کسی بھی معاشرے کیلئے تباہی کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی "کیرئیر وومن” سے گھر کی دنیا کو آباد رکھنے کی امید صرف ایک احمق شخص ہی کر سکتا ہے۔اور شیطان کا سب سے بڑا ہدف ہی میاں بیوی کا تعلق ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تحریک نے بے شمار مردوں کو بھی اپنا حامی بنا لیا ہے۔ حالانکہ یہ ہے ہی مردوں کے خلاف۔ مشاہدہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مرد، مردانگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور زنانہ خصوصیات اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ تو ایسے "نامرد” تو ویسے ہی اس تحریک کیلئے تر نوالہ ہیں۔لہذٰا ان تمام حقائق کے تناظر میں کرنے کا یہی ہے کہ اس وقت جس قدر فیمن ازم کے میٹھے زہر سے بچنے کی ضرورت ہے شاید ہی اور کسی نظریے سے ہو۔ ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور ہر ملک کی فلم انڈسٹری اگر ہر فلم میں مرکزی کردار کسی عورت کو دے رہی ہے اور اس پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہی ہے، تو وہ تو بیوقوف نہیں، ہم ضرور ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ فیمن ازم کو سمجھا جائے،اس کے مہلک اثرات کو جانا جائے،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا تقابلی مطالعہ کیا جائے،اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فیمنزم کے زہریلے اثرات سے خود کو بھی بچائیں،اپنی بچیوں اور نوجوانوں کو بھی۔ نیز اسلامی عقائد و تعلیمات کی آسان ترین تفہیم و تشریح کریں اور نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کو دینی عقائد و شرعی مسائل کا عام فہم درس دیا جائے،ان کے سوالات کو سنا جائے،ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے شفقت کے ساتھ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔
خلاصہ یہ کہ نبوی معاشرت کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو اپنے ذہنوں سے نکال کر ان مغرب زدہ ذہنوں کے خوبصورت طرزِ بیان کے اثر سے اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچانے کی کوشش کریں، ورنہ ہماری آگے آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو آج عرب دنیا کے نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جنھیں پہلے نبوی معاشرت سے دور کیا گیا اور پھر مغرب کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔
الحاد کا تعارف
عصر حاضر میں الحاد کا مفہوم
لفظ الحاد عموماً انکار مذہب یا وجود خدا کے عدم یقین پر بولا جاتا ہے لیکن وسیع مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو دور حاضر میں الحاد کی 3 بڑی قسمیں ہیں-جنہیں مروجہ اصلاحات میں الحاد مطلق (Gnosticism) لا ادریت (Agnosticism) ڈیزم (Deism) کہا جاتا ہے-
1-الحاد مطلق (Gnosticism)
Gnosticismسے مراد معرفت یا علم رکھنا ہے- یہ ملحدین خدا کے انکار کے معاملے میں شدت کا رویہ رکھتے ہیں- یہ لوگ روح، دیوتا، فرشتے، جنت، دوزخ اور مذہب سے متعلقہ روحانی اموار اور مابعدالطبیعاتی (metaphysical)امور کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے-ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کا اچھی طرح علم رکھتے ہیں کہ انسان اور کائنات کی تخلیق میں کسی خالق کا کمال نہیں ہے – بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے اور فطری قوانین (laws of nature)کے تحت چل رہی ہے- اس نقطہ نظر کے حاصل لوگوں کو ’’Gnostic Atheist‘‘ کہا جاتا ہے- عام طور پر جب ملحدین یعنی ایتھی ایسٹ کا ذکر ہوتا ہے تو ملحدین سے مراد یہی طبقہ ہے-
لاادریت(Agnosticism):
لاادریت کی اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں ایک انگریز ماہر حیاتیات ٹی. ایچ. ہکسلے نے رقم کی تھی- یہ اصطلاح متعارف کرنے کا مقصد ان لوگوں سے مخاطب ہونا تھا جن کی پسندیدگی اپنی ذات ہوتی ہے اور وہ مابعد الطبیعات اور دینیات کے تناظر میں الجھی بحثوں سے خود کو دور رکھتے ہیں- (1984ء) یعنی اختصار سے کہا جائے تو یہ نظریہ کہ خدا ہے یا خدا نہیں ہے، اس بحث میں الجھنے سے گریز کرنا- بالفاظِ دیگر theismاورatheismکے جھگڑے سے ماورا یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے حامل لوگ خدا کے وجود کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں-
ڈی ایزم (Deism):
اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ خدا ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہو گیا ہے- اب یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے- دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا- اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا- بنیادی طور پر یہی تین نظریے کے حامل ملحدین اسی حاضر میں موجود ہیں-
الحاد کو سمجھنے کی غرض سے ہم اسے دو قسموں میں بانٹ سکتے ہیں: علمی الحاد اور نفسانی الحاد۔
علمی الحاد بہت ہی نادر ہے کہ جس میں کسی شخص کو علمی طور خدا کے وجود کے بارے شکوک وشبہات لاحق ہو جائیں۔ اور یہ لوگ دنیا میں گنے چنے ہیں جیسا کہ فلاسفہ اور نظریاتی سائنس دانوں کی جماعت۔
نفسانی الحاد بڑے پیمانے پر موجود ہے کہ جس میں ایک شخص کو خدا کے وجود کے بارے شکوک وشبہات علمی طور تو لاحق نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنی خواہش نفس کے سبب خدا کے بارے شکوک وشبہات کا اظہار کرتا ہے۔ اس قسم کا ملحد عموما اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہا ہوتا ہے اور اپنی خواہش کو علم سمجھ رہا ہوتا ہے۔
کرنے کے کام
01.ملک بھر میں ماڈل غیر مخلوط اینگلو اسلامک اسکولز،غیر مخلوط کوچنگ سینٹرز اور غیر مخلوط اسٹدی سینٹرز کا جال بچھایا جائے.
02.آسان دینی سلیبس بنایا جائے،اور ہر بچہ کو بچپن میں ہی بنیادی اسلام اور عقائد سکھائے جائیں۔
03.بچوں کی دینی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے
04.علماء نوجوانوں کی کاؤنسلنگ پر بطور خاص توجہ دیں،نفسیات کا مطالعہ کریں اور نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے منبر سے بھی اور ذاتی گفتگو میں بھی حکمت کے ساتھ مناسب معتدل اور مؤثر ترسیلی زبان کا استعمال کریں
05.اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش کے عالمی تناظر میں دنیا کے واقعات، حقائق، مسائل اور مشکلات کو سامنے لائے اور اپنے حلقوں کو ان سے آگاہ کریں۔
06.اسلام کے خلاف کام کرنے والی لابیوں اور تنظیموں کی نشاندہی کریں اور ان کے طریق واردات کو بے نقاب کریں۔
07.انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلامی احکام و قوانین پر کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کا جائزہ لے کر علمی و تحقیقی انداز میں ان کا جواب دیں
08.مغربی تہذیب و فلسفہ نے انسانی معاشرہ کو جن پریشانیوں، مشکلات اور مسائل سے دوچار کر رکھا ہے،تجزیہ و تحقیق کے حوالہ سے ان کو سامنے لائیں اور پورے اعتماد و حوصلہ کے ساتھ ان خرابیوں کو اجاگر کر کے رائے عامہ کو ان سے روشناس کرائیں۔
09.دینی حلقوں کے انتشار کو کم کرنے اور باہمی مشاورت و اشتراک عمل کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔
10.اپنے محدود دائرہ پر قناعت کرنے کے بجائے اسے وسعت دینے کا اہتمام کریں اور ان مقامات تک موثر رسائی کی راہ نکالےیں جو مغربی فلسفہ کی اس یلغار کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے سوشل میڈیا اور معاصر ذرائع ابلاغ کے مؤثر استعمال کی تربیت حاصل کی جائے۔
11.علماء کرام، خطباء، مبلغین اور دینی کارکنوں کی غالب اکثریت جو دینی مدارس میں فکری تربیت اور ذہن سازی کے فقدان کے باعث مذکورہ فکری و نظریاتی کشمکش اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے، اس کی ذہن سازی اور فکری راہنمائی و تربیت کو اپنی ترجیحات میں بنیادی اہمیت دے
12.نوجوانوں کے پوچھے گئے سوالات کو بالکل بھی نظر انداز نہ کیا جائے ؛بلکہ چھوٹے بڑے تمام سوالات کو اہمیت دی جائے، چاہے وہ سوالات کسی بھی حوالے سے ہوں جن میں خاص کر موجودہ میڈیائی فتنے شامل ہیں جن کو دیکھ کر ان نوجوانوں کے ذہنوں میں دین ،ایمان ،توحید ،رسالت اور آخرت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ ان سوالات کا اگر بر وقت تسلی بخش جواب نہ دیا گیاتو ان کا ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے ۔
13. نو جوانوں کو ان کے مسائل میں ائمہ مساجد رہنمائی نہیں کریں گے تو وہ اپنے مسائل و اشکالات کو بھلا بیٹھنے والے نہیں ؛ بلکہ وہ انہیں مسائل کے ساتھ جب مختلف تجدد پسند یا گمراہ فکر کے حامل لوگوں تک پہنچتے ہیں تو وہ انھیں اپنے طور پران مسائل کا حل پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ علماء اور تمام تر روایتی فکر سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔
14. جو بھی بات کہی جائے وہ لوگوں کی ذہنی سطح،ماحول اور ضرورت کے اعتبارسے کہی جائے۔
15.بے سند واقعات اور اعداد و شمار سے گریز کیا جائے،ٹھوس مطالعہ اور پوری تیاری کے ساتھ رد الحاد و ارتداد کے میدان میں کام کیا جائے