مفتی ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر ،جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو بی جے پی کے ایک ایم پی نے راجیہ سبھا میں پھر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی مانگ کی ہے، اور یہ کہاہےکہ”مسلم اور مسیحی برادریوں کی خواتین کو طلاق ،جائیداد اور گود لینے جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں، طلاق کی صورت میں خواتین ہندو مذہب کے خواتین کی طرح مینٹنینس الاونس نہیں لے پاتی ہے،خاندانی جائیداد میں بھی انہیں برابر کا حق حاصل نہیں ہے”۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ راجیہ سبھا جیسی ملک کی با وقار مجلس میں یہ باتیں بغیر اسلامی معلومات کے پیش کی جارہی ہیں,اور ہندو مذہب کو رول ماڈل بناکر پیش کیا جارہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے،طلاق وراثت اوردیگر تمام معاملات میں بھی صنف نازک کے ساتھ مکمل انصاف کرتاہے۔
اسلام مذہب میں شادی مرد وعورت کے درمیان ایک پاک رشتہ اور رضامندی پر مبنی معاہدہ کا نام ہے،جب اس رشتہ میں تلخی پیدا ہوجائے اور اتنا تلخ ہوجائے کہ نباہ کی شکل نظر نہ آتی ہو تو اس معاہدہ کو خوبصورتی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔میاں بیوی میں سے دونوں کو یہ حق حاصل ہے، شوہر کو اسی لئے طلاق کا حق دیا گیا ہے اور بیوی کی طرف سے معاہدہ نکاح کو ختم کرنے کی پیشکش کو خلع کہتے ہیں۔عورت اگر یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی طلاق کا حق حاصل ہو جیسا ایک مرد کوحاصل ہے تو وہ نکاح کےوقت یہ شرط بھی رکھ سکتی ہے ۔ شرعی اصطلاح میں اسے تفویض طلاق کہتے ہیں، اس کے ذریعہ وہ کسی بھی وقت خود پر طلاق واقع کرسکتی ہے،اس کےعلاوہ بھی ایک عورت کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے، اگر کوئی مسلم بہن اپنے شوہر کے ظلم وناانصافی سے پریشان ہے تو قاضی وقت کے ذریعہ اپنا نکاح منسوخ کراسکتی ہے۔مطلق یہ کہہ دینا کہ مسلم خواتین کو طلاق اور نکاح سے آزادی کا حق نہیں ہےیہ صحیح نہیں ہے۔
دوسری چیز طلاق کی صورت میں ایک مسلم خاتون کو عدت کا خرچ ازروئے شرع دینا واجب ہے، اگرمطلقہ خاتون کی پرورش میں بچے ہیں تو اس کا مینٹینس الاونس بھی سابق شوہر کے ذمہ لازم ہے۔بچہ پل رہا ہے تو سات سال تک یہ خرچ مرد کوبرداشت کرنا ہوگا، اگر بچی ہے تو بلوغ تک خرچہ دینا ہوگا، اس دوران پرورش کی اجرت بھی مرد پر لازم ہوگی،یعنی اس مطلقہ کو اتنی مقدار میں اجرت دینی ہے جو اس کے اخراجات کے لئے کافی ہوں، یہ مینٹینس الاونس نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
جہاں تک گود لینے کی بات ہے تومذہب اسلام میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اسلام سے پہلے عرب میں یہ مزاج تھا، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے غلام تھے، ان کے والد اور چچا ان کو لینے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ وہ جاسکتے ہیں، مگر حضرت زید نے آپ کے پاس رہنا پسند کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا، اب لوگ انہیں زید بن حارثہ کی جگہ زید بن محمد کہنے لگے، قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا:
اللہ تعالٰی نے تمہارے منہ بولے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنادیا ہے،یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں، اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستہ کی ہدایت کرتے ہیں، ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے۔(سورہ احزاب،ھ)
قرآنی اس حکم کی روشنی میں اگر کوئی خاتون کسی بچہ کو گود لیتی ہے تو اس عمل سےیہ بچہ اس کا نہیں ہوسکتا، پھر گود لینے کے حق کا سوال ہی قائم نہیں ہوتا ہے۔
آخری بات موصوف نے اسلام میں خاندانی جائیداد میں خواتین کے برابر حصہ پر بات کی ہے، اس کے لئے اسلامیات کا مطالعہ ضروری ہے۔والدین کے انتقال کی صورت میں ایک بیٹا کو دو بیٹیوں کا حصہ ازروئے شرع دیا گیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ صنف نازک کو شریعت اسلامیہ نے کسی حال میں تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ عورت اگر بیٹی ہےاور غیر شادی شدہ ہےتو اس کی پرورش، تعلیم وتربیت ودیگراخراجات کی ذمہ داری اس کے والد کی ہے۔ اس کی وفات کے بعد بھائی اس کا ذمہ دار اور کفیل ہو جاتا ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو قریب ترین مرد شخص مثلا چچا وغیرہ اس کے کفیل اور جملہ اخراجات سے متعلق مسئول ہوتے ہیں۔میراث کے باب میں یہ ذمہ دار اشخاص عصبہ کہلاتے ہیں۔ وارثین کو ان کا متعین حصہ دینے کے بعد بچے ہوئے مال کا یہ حق دار ہوجاتے ہیں۔ یہ مرحوم کے قریب ترین مرد رشتہ دار ہوتے ہیں۔ بطور مثال مرنے والی کی ایک ہی بیٹی ہے اور باقی اولاد نہیں ہےاور مرحوم کے کچھ بھائی ہیں،اس صورت میں بیٹی کو پوری جائیداد کا نصف حصہ ملےگا ،بقیہ بچا ہوا ادھا مال بھائیوں میں تقسیم ہوگا۔اور یہ سبھی اس بچی کے گارجین اور ذمہ دار ہوگئے ہیں، اس کی کفالت اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
اسلامی شریعت میں صرف خاندانی جائیداد ہی تک خواتین کا حصہ محدود نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کی جائیداد میں خواتین کو حصہ دیا گیا ہے۔میراث کے باب میں ایک عورت بیوی، ماں اور بہن کی حیثیت سے بھی حصہ پاتی ہے۔ بیٹے کی وفات کی صورت میں ماں اور باپ کو برابر حصہ ملتا ہے۔ یہاں ماں کو عورت ہونے کی وجہ سے کم یا باپ کو مرد ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ قران کریم کی سورہ: النساء "میں اللہ تعالی نے وارثین کے حصوں کو الگ الگ کر کے بتلا دیا ہے ،اور پھر یہ اعلان بھی فرمادیا ہے، یہ اللہ کے مقرر کردہ حصے ہیں ،ان کا پاس ولحاظ ازحد ضروری ہے ،ارشاد خداوندی ہے؛یہ سارے احکام اللہ کی حدیں ہیں، جو اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، یہ ہمیشہ ہمیش ان میں ہی رہیں گے، یہ بڑی زبردست کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے نکل جائے گا تو اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہیں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اسے ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت ہی ذلت ہے۔(سورةالنساء۔۱۴)
قرآن کریم مسلمانوں کے لئے خدا کی نازل کردہ قانون کی کتاب ہے۔یہ کوئی انسانی قانون سازی نہیں، جس طرح 1956ءمیں وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سرپرستی میں ہندو کوڈ بل کے ذریعے ہندو قانون وراثت کی قانون سازی ہوئی ہے۔ اس پر اسلامی قانون وراثت کا قیاس کرنا صحیح نہیں ہے،اسلامی قانون وراثت درحقیقت یہ خدائی تقسیم اور قانون الہی کا نام ہے،اس پر سوال قائم کرنا،یا اس کی تبدیلی کی بات کرنا دراصل خدا کے قانون پر انگشت نمائی کرنا ہے.نعوذ با الله من ذالك