قادیانی لاہوری جماعت اور عبدالماجد دریابادی
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
ایک حلقے میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی اور مرزائیت پر بحث چل رہی ہے، آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑا سا پس منظر سمجھ لیتےہیں ، قادیانیت میں غلام قادیانی کے بعد تین اہم شخصیات تھیں، حکیم نورالدین، خواجہ کمال الدین، اور محمد علی لاہوری، قادیانی جماعت میں یہ تینوں افراد انتہائی قابل اور پڑھے لکھے سمجھے جاتے تھے، نورالدین قابل طبیب ہونے کے ساتھ اچھاعالم بھی تھا، کہا جاتا ہے مرزا کی کئی تصنیفات دراصل نورالدین کی لکھی ہوئی ہیں ـ خواجہ کمال الدین اور محمد علی لاہوری بھی عربی فارسی کے ساتھ انگریزی بھی بہت اچھی جانتے تھے ـ
مرزا کے مرنے کے بعد حکیم نورالدین اس کا پہلا خلیفہ بن گیا، بقیہ دونوں کو امید تھی کہ نورالدین کے بعد ہم دونوں بھی یکے بعد دیگرے خلیفہ بنیں گے، مگر ہوا یہ حکیم نورالدین نے اپنے شاگرد اور غلام قادیانی کے لڑکے مرزا محمود کو دوسرا خلیفہ نامزد کرادیا، ………….. کمال الدین اور محمد علی لاہوری دونوں جہاں دیدہ اور ہوشیار تھے سمجھ گئے کہ اب چونکہ مرزا کی اولاد تک خلافت پہونچ گئی ہے اس لئے ان دونوں کا نمبر اب نہیں آسکتا ـ

چنانچہ ان دونوں نے مرزا محمود والی جماعت سے الگ ہوکر اپنا لاہوری گروپ تشکیل دیا، بہانہ یہ بنایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں ان کے بعد کوئی کسی بھی طرح کا رسول یا نبی نہیں آسکتا، اُن کا کہنا یہ بھی تھا کہ جن عبارتوں میں مرزا نے خود کو نبی یا رسول کہا ہے اس سے حقیقی معنی مراد نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہیں، …………. کمال الدین اور لاہوری کے نزدیک مرزا مجدد، محدَث اور ملھم من اللہ تو ہے مگر نبی اور رسول نہیں ہے ـ

لاہوریوں سے ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ بات آپ کو مرزا کی زندگی اور حکیم نورالدین کی حیات میں کیوں نہیں سمجھ میں آئی، کیا اُس وقت آپ دونوں میں سے کسی نے یہ بات کہیں کہی ہے کہ مرزا نبی نہیں مجدد ہے، اگر ایسا ہے تو ثبوت پیش کیجئے، جب آپ مرزا کی خلافت سے مایوس ہوگئے تب آپ اُس کی نبوت کا انکار کررہے ہیں ـ
اب آتے ہیں مولانا عبدالماجد دریابادی کی طرف، ………… حقیقت یہ ہے کہ مولانا اپنے دورِ الحاد سے ہی خواجہ کمال الدین اور محمد علی لاہوری سے متاثر تھے، دونوں سے مولانا کے ذاتی تعلقات بھی تھے ـ ………… یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے کہ ختم نبوت کے سلسلے میں مولانا دریابادی کا عقیدہ وہی تھا جو عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا مدعی کافر ہے ـ …………. مگر یہ بھی سچ ہے کہ خواجہ کمال الدین و محمد علی لاہوری کے سلسلے میں مولانا دریابادی ” حقیقت مجاز ” کے چکر میں پڑگئے، ہمارے یہاں اس کی کئی مثالیں ہیں، مثلا محی الدین ابن عربی کا نظریہ وحدۃ الوجود، ہمہ اوست کا نظریہ علامہ ابن تیمیہ جیسے سخت گیر علماء نے اس کو گمراہی اور شرک سے تعبیر کیا ہے، جب کہ جمہور علماء اس کی تاویل کرتے ہیں، اور اس کو مجاز قرار دیتے ہوئے” ہمہ از اوست” کی بات کرتے ہیں، اسی طرح جلال الدین رومی کی مثنوی کا شعر……….
مثنویِ مولویِ معنوی
ہست قرآں در زبانِ پہلوی
اس شعر میں مثنوی کو قران پاک کے برابر کہا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محض تمثیل و تعبیر ہے، اپنے مضامین کی سچائی اور یک گونہ ندرت کی وجہ سے مجازا قران سے تشبیہ دی گئی ہے ـ اسی لئے مولانا رومی پر کسی نے فتوی نہیں لگایا ـ شعروادب کی زبان میں ایسے مجازی معنی بہت عام ہیں ـ
بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی حضور کے بعد مدعی نبوت کو تو کافر سمجھتے تھے، مگر مجازی طور پر یا تاویل وتعبیر کی بنیاد پر اگر کوئی ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس کو کافر کہنے میں انھیں تردد تھا ۔

مولانا دریابادی کے مذکورہ بالا نظریہ پر اُن کے زمانے کے اکابرین نے کوئی فتوی نہیں لگایا، نہ اُن کے معاصرین نے کوئی فتویٰ دیا، حد تو یہ ہوگئی کہ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب نے مولانا عبدالماجد دریابادی کے مذکورہ بالا نظریہ پر تنقید تو بہت شدید کی ہے مگر فتویٰ کوئی نہیں لگایا ـ دوسری طرف مولانا دریابادی کی خدمات، متعدد کتابیں، اردو انگریزی تفسیر، سچ، صدق، اور صدق جدید کے ذریعئے اسلامی صحافت کو عام کرنے میں اُن کے روشن کردار نے ایسی مشعلیں روشن کردی ہیں جو ملت اسلامیہ کے لئے ہمشہ کار آمد رہیں گی ـ
(مضمون نگار مولانامحمود احمد خاں دریاباد ی ممبئی کے مشہور سماجی کارکن اور آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں)