پروفیسر محمد خالد اعظمی
شبلی نیشنل کالج،اعظم گڑھ
تعلیم کا تعلق معاشرے سے بہت گہرا اور ہمہ جہت قسم کا ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل تو کی جاتی ہے انفرادی عمل اور کوشش سے لیکن منتج ہوتی ہے اجتماعی فلاح اور معاشرے کی بہبود پر، اور اگر یہ مقصود نہ ہوتو علم انسان کو صرف مشین یا روبوٹ بنا دیتا ہے۔ جدید اسکولوں اور کالجز یونیورسٹیز کا تعلیمی نصاب اور معاون تعلیمی سرگرمیوں کا مکمل تانا بانا انسان کی انفرادی صلاحیت میں اضافہ اور ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے ہی تیار کیا جاتا ہے ۔ اسکول یا کالج میں داخلے سے لیکر وہاں سے فراغت کی سند اور ڈگری لینے تک ہر طالب علم کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی مجوزہ نصاب کو ایک دیئے ہوئے نظام الاوقات کے تحت مکمل کرنا, پھر اسی نصاب کا رٹا مار امتحان دے کر ایک ڈگری حاصل کرنا اور پھر ایک عدد نوکری کی تلاش میں جٹ جانا تاکہ آگے اپنی ذاتی زندگی آرام اور عیش کے ساتھ گزر سکے۔ ہمارے ملک یا دنیا میں زیادہ تر جگہوں پر طالب علم صرف ڈگری اور ملازمت کے حصول کیلئے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور صرف اتنا ہی پڑھنا چاہتے ہیں جتنے میں انہیں ڈگری اور نوکری مل جائے۔ جب تعلیم بنا کسی ڈگری اور امتحان کے ہوتی تھی تو زیادہ نامور علماء اور ماہرین علم پیدا ہوتے تھے۔ ایک متعین نصاب کی تکمیل اور محدود صلاحیت پر مبنی نظام تعلیم و امتحان سے تنقیدی سوچ اور تجزیاتی ذہن کے ارتقاء اور سماجی مسائل کو صحیح تناظر میں سمجھنے پر قدغن ضرور لگ جاتی ہے ۔
اس کے بالمقابل جب ہم روایتی مدارس کے نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی خراب سے خراب صورت حال میں بھی طلبہ کے اندر درسیات و غیر درسی مطالعے کا ایک خاص رجحان پایا جاتاہے ۔ یہاں تعلیم کا مطمح نظر جدید تعلیمی نظام والے اسکولوں کے نصاب اور طرز تعلیم و عادت مطالعہ سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ان طلبہ کے ذہن میں اجتماعی شعور کا نظریہ اور معاشرے کے تئیں ذمہ داری کا ایک احساس جاگزیں رہتا ہے کہ انہیں یہاں سے تعلیم مکمل کر کے معاشرے کی خدمت کرنی ہے خواہ امام و مؤذن بن کر، تاجر یا مدرس بن کر یا کوئی دوسری ملازمت حاصل کرکے۔تعلیم کا تصور جب تک صرف ایک خاص نصاب کی تکمیل اور امتحان پاس کرنے تک محدود ہوگا، طلبہ کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیت محدود ہی رہیگی ۔ ہمارے تمام اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نصاب ،امتحان اور ذاتی منفعت کی تکمیل آگے کچھ نہیں سکھایا جاتا، نہ گفتگو کا سلیقہ، نہ دستر خوان کے آداب، نہ چھوٹے اور بڑے کی تمیز، نہ معاشرے اور سماج کی اجتماعی ذمہ داری کا احساس۔ جدید اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ میں اکثر تو ایسے ہوتے ہیں کہ بہت اعلیٰ سند یافتہ ہونے کے باوجود اپنی شخصیت سے غافل اور ذاتی صلاحیت کے ادراک سے نابلد ہوتے ہیں ۔ لیکن مدارس میں نصاب اور امتحان کے آگے، معاون نصابی سرگرمیاں اور غیر درسی مطالعہ کے ذریعہ دل و دماغ کا مثبت ارتقاء وہاں کے روز مرہ کی تعلیم کا حصہ ہوتی ہیں اور ساتھ ہی اجتماعی زندگی کے اطوار و آداب بھی اس حد تک سکھا دئے جاتے ہیں کہ معاشرتی زندگی میں دو نوں طرز تعلیم کے طلبہ کے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے۔ بس مدارس کے طلبہ کے شخصی ارتقاء ایک بات کی کمی بار بار سامنے آتی ہے کہ علم اور صلاحیت میں کسی بھی طرح کی کمی نہ ہونے اور مطالعہ کتب زیادہ ہونے کے باوجود مدارس کے طلبہ جب مزید تعلیم کے لئے کسی بڑی یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو پتہ نہیں جدید اسکولوں کے طلبہ سے اپنا موازنہ شروع کردیتے ہیں اور پھر کچھ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، یہی چیز بالکل سمجھ سے پرے ہے اور یہ مسئلہ کچھ دقّت طلب بھی ہے۔ اگر یہی احساس مدارس کے طلبہ کے ذہن سے نکل جائے تو یہ کسی بھی حال میں جدید کالجوں کے طلبہ سے کم نہیں ہوتے ۔