مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی شکست کے چند وجوہات اور ہماری غلط پالیسیاں
رفیع اللہ قاسمی
2024 کا لوک سبھا الیکشن اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ نتیجے آچکے ہیں۔ بی جے پی جسے اپنے بل پر حکومت سازی کا یقین تھا وہ شکست پا چکی ہے۔ پھر بھی زیادہ امید یہی ہے کہ نتیش جی اور چندر بابو نائیڈو کی مدد سے بی جے پی حکومت بنالے گی۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ پوری میقات میں نتیش جی اب ویسا ہی کھیلا مرکز میں کرتے رہیں گے جو بہار میں کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پلٹو رام اب ان کا لقب بن چکا ہے۔ نتیش جی کھیلا کھیل کر جیسے وزیر اعلی بنتے رہے ہیں ویسے ہی کھیلا کر کے شاید کچھ ہی ایام سہی وزیراعظم کی مسند پر بھی براجمان ہو جائیں یا اس سے کم کچھ اہم وزارتوں کے مالک ہو جائیں۔
بہر حال اس الیکشن میں کافی الٹ پھیر ہوئے ہیں۔ ایک الٹ پھیر یہ ہوا ہےکہ مولانا بدرالدین اجمل صاحب آسام میں کانگریس امیدوار سے تقریبا دس لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ اس لوک سبھا سیٹ پر کل 27لاکھ ووٹر تھے۔ %92 یہاں ووٹنگ ہوئی تھی۔ رقیب الحسن صاحب کو چودہ لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ملک کا دین دار طبقہ مولانا کی شکست سن کر حیران وپریشان ہے۔ اصل میں مولانا یا ایسے ہی اورنگ آباد میں امتیاز جلیل صاحبان کے ہار کی دو بہت اہم وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ جیسے کانگریس اسدالدین اویسی صاحب کی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم منوانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اچھے پڑھے لکھے اور دانشور مسلم بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسدالدین اویسی کا بی جے پی سے کچھ نہ کچھ رشتہ ضرور ہے۔ ایسے ہی آسام میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی پارٹی کو بھی بی جے پی کی بی ٹیم ہونے پر وہاں کے مسلمانوں کو قائل کر لیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ مولانا کو ووٹ دینا بی جے پی کو ووٹ دینا ہے اس لیے آسام کے مسلمانوں نے مولانا کو اس بار ووٹ نہیں دیا۔ ہار کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بار مسلمانوں نے بہت ہی متحد ہو کر یکمشت انڈیا اتحاد کو ووٹ دیا ہے۔ اس لیے جہاں جہاں مسلمان امیدوار جیت بھی سکتے تھے لیکن وہ انڈیا اتحاد میں شریک نہیں تھے وہاں وہاں بھی مسلم ووٹرس نے ایسے مسلم امیدوار وں کو ووٹ دے کر جتانے کا کوئی فائدہ نہ سمجھ کر انڈیا اتحاد کو ووٹ دیا۔ اسی تانے بانے کے شکار اورنگ آباد میں امتیاز جلیل صاحب اور آسام میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب ہوئے ہیں۔
مسلمان سیاست میں زیادہ تر غلط پالیسیاں اختیار کرتے ہیں۔ اسی الیکشن میں دیکھیے نتیش 12سیٹ لے کر اور نائیڈو 16سیٹ لے کر کنگ میکر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر ملک کے مسلمان اور علماء کرام کھل کر اسدالدین اویسی صاحب کا سیاست میں ساتھ دیتے اور مولانا بدرالدین اجمل صاحب اور اویسی صاحب دونوں مل کر مسلم سیاست کے غلبے کی کوشش کرتے تو شاید آج اویسی صاحب کنگ میکر ثابت ہوتے۔ اسدالدین اویسی صاحب اگر کسی غیر قوم کے ہوتے تو اب تک ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ مسلمانوں کی خامی یہی ہے کہ اپنے اندر موجود ہیروں کی موت کے بعد مرثیہ خوانی کرکے ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔