ناصرالدین مظاہری
ہمارے علاقہ اودھ ہی کے نہیں پورے ملک کے ممتاز علماء کی فہرست میں امتیازی مقام کے حامل حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی لکھنوی مدظلہ سے پہلی باقاعدہ ملاقات رات مادرعلمی مدرسہ امدادالعلوم زیدپور بارہ بنکی میں ہوئی۔ میں ایک زمانے سے حضرت کی تقریروں سے متاثر ہوں، بلا کی ذہانت ہے، غضب کا دماغ ہے، قابل رشک حاضر ذہنی اور حیرت انگیز یاد داشت ہے۔ امام اہل سنت کے خانوادہ کے قابل فخر چشم و چراغ ہیں۔
حضرت کے تشریف لاتے ہی جو مجمع سلام ومصافحہ کے لئے لپکا ان میں ایک نام میرا بھی ہے، میں اتنے بڑے عالم ومناظر سے سلام ومصافحہ کی سعادت ہی کو اپنے لئے غنیمت سمجھ رہا تھا، مصافحہ کے بعد تھوڑے ہی فاصلہ پر بیٹھا بعض احباب سے محو گفتگو تھا حضرت کے پاس بھیڑ بہت تھی، اچانک استاذی حضرت مولانا محمد سلیم قاسمی مدظلہ نے حضرت کے پاس بلایا، میں حضرت کے قریب نیاز مندانہ حاضر ہوا، پھر سے سلام ومصافحہ ہوا، حضرت نے اپنے سینہ سے چمٹاتے اور خاکسار کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے عربی کے دو اشعار پڑھے جو مجھے یاد نہیں ہیں ہیں البتہ ان کا مفہوم اشتیاق ملاقات تھا پھر فرمایا کہ زیدپور آنے کی ایک بڑی وجہ آپ سے ملاقات بھی ہے۔ میں نے اشتہار میں نام پڑھا تو ارادہ کرلیا کہ ضرور جاؤں گا۔
پھر حضرت مدظلہ دیر تک میرے ٹوٹے پھوٹے، غیر مرتب وغیر معیاری مضامین پر کلمات تحسین وتعریف ارشاد فرماتے رہے۔ یہ بھی فرمایا کہ کوشش کرتا ہوں کہ مضمون پورا پڑھوں، عقیدہ کی درستی اور اصلاح کی طرف توجہ دلاتی تحریریں بہت پسند آتی ہیں۔ یہ تھے اکابر مظاہر والا سلسلہ بھی بہت پسند آیاتھا، اس میں میرے استاذ ومربی حضرت مولانا محمد اسعداللہ رحمہ اللہ کے تعلق سے تحریر بہت عمدہ تھی۔ فرمایا کہ میں نے چار سال مظاہرعلوم میں تعلیم حاصل کی ہے، چاروں سال حضرت ہی کی چارپائی کے نیچے میں سوتا تھا، میرے اساتذہ تو بہت ہیں لیکن میں نے اپنے حضرت جیسا استاذ ومربی نہیں دیکھا، بڑے باکمال انسان تھے، دل کے بڑے صاف ستھرے، طبیعت کے نیک، بااخلاق، ادیب تھے، ایک دفعہ فرمایا کہ آج کیا پڑھا میں نے مقامات حریری کے دو ایک شعر سنائے تو حضرت نے اسی ردیف اسی بحراورقافیہ پر اپنی طرف سے کئی اشعار برجستہ، بے تکلف پڑھ دئے۔
ایک دفعہ میں خدمت کررہاتھا باہر کچھ مہمان تھے حضرت نے فرمایا کہ عبدالعلیم دروازہ بھیڑ دو ورنہ یہ لوگ سوچیں گے کہ امام اہل سنت کا پوتا خدمت کررہاہے۔
ایک بار میری مدینہ منورہ حاضری ہوئی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مدینہ منورہ میں مقیم تھے میں حضرت سے ملا تو حضرت نے فرمایا کہ روزآنہ کھانا میرے ساتھ کھانا، میں نے عرض کیا کہ حضرت روز کی قید ہٹا دیجیے خوش ہوئے اور قید ہٹادی گئی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت میں حضرت مولانا محمد اسعداللہ کا مرید ہوں فرمایا جو ان کا مرید ہے وہ میرا مرید ہے۔ پھر ہلچل ہوئی، پتہ چلا کہ روضہ نبوی پر صلوۃ وسلام کے لئے جارہے ہیں میں بھی ساتھ ہوگیا، عین روضہ کے سامنے پہلے ایک دیوار تھی حضرت کے لئے چادر بچھا دی گئی، حضرت بیٹھ گئے، اتنے میں کسی عرب نے فقیر سمجھ کر کچھ ریال حضرت کے سامنے ڈال دئے، لوگوں نے منع کرنا چاہا لیکن حضرت نے فرمایا کہ نہیں منع مت کرو یہاں تو میں مدینہ والے کا فقیر ہی ہوں۔ پھر حضرت مولانا فاروقی پر رقت طاری ہوگئی، دیر تک مختلف بزرگوں کے تذکرے سے مجلس و محفل کوروحانی بنائے رکھا، طبیعت علیل ہونے کے باوجود بشاشت سے تقریرفرمائی۔
پروگرام کی نظامت میرے ذمہ تھی دوران گفتگو حضرت میرے پاس تشریف لائے سرپر ہاتھ پھیرے اور رخصت طلب اشارہ کرکے تشریف لے گئے۔
یہ ملاقات بڑی یادگار ، بہت تاریخی اور بہت قیمتی تھی، ایسی علمی واصلاحی ملاقاتوں کا ہمیشہ متمنی رہتا ہوں۔