مولانا غلام محمد وستانویؒ: ایک مصلح، معلم اور مجاہدِ تعلیم
تحریر: محمد توقیر رحمانی
جب بھی برصغیر کے دینی و تعلیمی افق پر ابھرنے والی عظیم شخصیات کا تذکرہ ہوگا، تو اکل کوا کی گود میں پروان چڑھنے والا ایک آفتاب — حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ — تاریخ کے صفحے پر سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ صرف ایک مدرس یا ادارہ ساز نہیں تھے، بلکہ ایک نکتہ رس مصلح، روشن ضمیر داعی، باوقار قائد، اور علم و تربیت کے مجاہد تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم، تقویٰ، انسانیت اور قرآن کی خدمت میں صرف کر دی۔
مولانا وستانویؒ 1950ء میں ریاست گجرات کے ضلع سورت کے مردم خیز گاؤں وستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خانوادہ علم و تقویٰ کی شمع سے روشن تھا، جہاں دینی حمیت، روحانی تربیت، اور علمی ذوق فطری طور پر منتقل ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی، جہاں قرآن مجید کی تلاوت، تجوید، اور دینیات کے موتی والدین اور مقامی علما سے چُنے۔
لیکن ان کی طبیعت میں طلبِ علم کی چنگاری ایک ایسی شعلہ بنی جس نے انہیں کم عمری میں ہی حلقۂ درس سے کاروانِ علم کی طرف روانہ کر دیا۔ مدرسہ قوۃ الاسلام کوساری، مدرسہ شمس العلوم بڑودہ، اور فلاح دارین ترکیسر جیسے علمی مراکز سے ہوتے ہوئے، آپ نے دارالعلوم مظاہرالعلوم سہارنپور کا رخ کیا، جہاں ان کا علمی سفر ایک نئی بلندی پر پہنچا۔ 1973ء میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ یہاں انہیں جن جلیل القدر اساتذہ کی صحبت نصیب ہوئی، ان میں:
مولانا محمد یونس جونپوریؒ (محدث کبیر)
مولانا شیر علی افغانیؒ
مولانا ذوالفقار علیؒ
مولانا احمد بیماتؒ
جیسے علم و تقویٰ کے مینار شامل تھے۔ ان کی صحبت نے مولانا کے اندر علمی وسعت، روحانی گہرائی، زہد و تواضع، اور اخلاص کی وہ چمک پیدا کی جس کا عکس پوری زندگی ان کے عمل سے جھلکتا رہا۔
فراغت کے بعد آپ نے دارالعلوم کنتھاریہ (بھروچ) میں تدریسی خدمات انجام دیں، مگر مولانا کی دینی فراست اور امت کی تعلیمی زبوں حالی کا شعور انہیں ایک بڑے خواب کی تعبیر کی طرف لے آیا۔ 1980ء میں انہوں نے اکل کوا (ضلع دھولیہ، مہاراشٹر) میں جامعہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھی—ایک ایسا پودا جسے اخلاص کی مٹی، قربانی کے پانی، اور استقامت کی دھوپ نے سینچا، یہاں تک کہ وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔
جامعہ اشاعت العلوم: ایک تعلیمی انقلاب
آج یہ ادارہ صرف ایک مدرسہ نہیں، بلکہ ایک مکمل تعلیمی شہر (Education City) بن چکا ہے:
آج یہ ادارہ صرف ایک مدرسہ نہیں، بلکہ ایک مکمل تعلیمی شہر (Education City) بن چکا ہے:
قرآنِ پاک کے حفظ و ناظرہ کے درجنوں شعبے
دورۂ حدیث تک کی دینی تعلیم
عصری تعلیم کے لیے CBSE اسکول، جونیئر کالج، ITI، پالی ٹیکنیک، کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ
طلبہ و طالبات کے لیے علیحدہ ہاسٹل، دارالاقامہ، لائبریری اور تربیتی مراکز
یہ سب اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مولانا کی نظر صرف ماضی پر نہیں، بلکہ مستقبل کی سمت مرکوز تھی۔ ان کا ہدف ایک ایسی نسل کی تیاری تھی جو دین و دنیا دونوں کے میدانوں میں روشن چراغ بنے۔
دعوتِ قرآن اور عملی تبلیغ
مولانا کی دعوت صرف زبانی نہ تھی — وہ خود قرآنِ مجید کے عملی پیکر تھے۔ ان کے نزدیک قرآن صرف حفظ نہیں، بلکہ فہم، تلفظ، تجوید، اور حسن قراءت کا مرکب ہے۔ انہوں نے حفاظ کے لیے معیاری نظام قائم کیا، مسابقاتِ حفظ کو فروغ دیا، اور عالمی تجربات کو دیہی مدارس میں رائج کیا۔ انہوں نے سعودی عرب میں منعقدہ عالمی مسابقۂ حفظ میں خود شرکت کی، اور وہاں کے اعلیٰ معیار کو اپنے نظام میں جذب کیا۔
مولانا کی بصیرت صرف مدرسے کی چار دیواری تک محدود نہ تھی۔ انہوں نے پورے ملک میں مکاتب، مدارس، یتیم خانے، اور تعلیمی وظائف کے ذریعے محروم طبقات کو علم کی روشنی سے جوڑا۔ ان کے ہر منصوبے میں سادگی، شفافیت اور اخلاص نمایاں رہا۔ ان کے ہر قدم کا ماحصل اللہ کی رضا تھا، نہ کہ کسی سیاسی یا شخصی مفاد کی طلب۔
وصال: ایک عہد کا خاتمہ
4 مئی 2025ء کو جب مولانا کا وصال ہوا، تو صرف ایک شخصیت رخصت نہ ہوئی، بلکہ ایک دور بند ہو گیا۔ ہر دل اشکبار ، ہر زبان دعا گو، اور ہر آنکھ ان کی خدمات کی گواہی دے رہی ہے۔
مولانا غلام محمد وستانویؒ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، مقصد بلند ہو، اور اخلاص کامل ہو تو ایک فرد بھی ایک قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔ انہوں نے علم میں اخلاص، قیادت میں شفافیت، خدمت میں وسعت، اور ذاتی زندگی میں سادگی کا وہ معیار قائم کیا جو آنے والی نسلوں کے لیے نقشِ راہ بن چکا ہے۔
ان کی حیات نہ صرف ایک سوانح ہے، بلکہ ایک زندہ نصاب ہے — جو ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی علم، کردار، اور مقصدیت کی راہوں پر چلیں اور امت کے مستقبل کو روشن کریں۔