مسلمانوں کے سیاسی بحران کا حل موجودہ سیاسی بساط کو سمجھ کر آگے بڑھنے میں ہے!

Eastern
Eastern 11 Min Read 385 Views
11 Min Read

مسلمانوں کے سیاسی بحران کا حل موجودہ سیاسی بساط کو سمجھ کر آگے بڑھنے میں ہے!

محمد برہان الدین قاسمی

سیاست حقیقت میں ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ جمہوری سیاست تو کچھ اور ہی زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جس میں ہمیشہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جمہوریت میں چونکہ نمبر ہی حکومت بننے یا نہ بننے کا واحد معیار ہے اس لئے سیاسی پارٹیاں ہمیشہ نمبر کی جوڑ توڑ میں رہتی ہیں۔خود کی جیت کے لئے، اپنے ووٹس مکمل لینے کے ساتھ اپنے مد مقابل کا ووٹ کم کرنا، خراب کرنا ان کے ووٹ کو مختلف جگہوں میں تقسیم کرنا یہ سب جیت کی عام پالیسیاں ہیں جو سب سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لوگ کرتے ہیں؛ گویا کہ یہ سب موجودہ سیاست کا حصہ ہیں۔ مزید برآں جو لوگ باقاعدہ سیاست میں ہوتے ہیں ان کے لئے کوئی بھی مستقل دشمن یادوست نہیں ہوتا ہے۔ وہ اپنی مفادات کے مطابق پارٹیاں اور نظریات بدلتے رہتے ہیں۔

ہندوستان کی سیاست اس وقت بہت اہم اور نازک موڑ پر ہے۔ مسلمان سیاسی اعتبار سے اپنا وزن اگرچہ کھو چکے ہیں لیکن ان کا وجود ابھی بھی برقرار ہے۔اب اگر مسلمان حالات کو اچھی طرح سے سمجھے بغیر جذباتی سیاست کرتے رہے تو گزشتہ دس سالوں میں جتنا نقصان ہوچکا ہے وہ مزید بڑھ کر اتنا خطرناک ہو جائے گا کہ پھر واپسی کے سارے راستے بھی بند ہو جائیں گے۔

ایک طرف جہاں بی جے پی کی حکومت اقلیت، خصوصاً مسلمانوں کے لئے بہت نقصان دہ ہے، جس کو اب ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔دستور میں جتنی نا موافق تبدیلیاں گزشتہ دس سالوں میں ہوئی ہیں اتنی گزشتہ ساٹھ سالوں کی کانگریس حکومت میں نہیں ہوئی۔حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کا اعلانیہ مسلم مخالف ہونا ہی اس کی سیاسی طاقت ہے اوراسی سے وہ ہندو ووٹ بنک کو یکجا اور محفوظ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

وہیں دوسری طرف کانگریس یا سیکولر کہلانے والی پارٹیاں مسلمانوں کی حامی یا دوست ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود چونکہ مسلمان ان کے ووٹرس ہوتے ہیں اس بات کا خیال رکھنا ان کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ ان پارٹیوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوتی ہے کہ صرف مسلمانوں کے ووٹ سے وہ حکومت میں نہیں آسکتے اس لئے اکثریت کے جذبات کی قدر کرنا، ان کے حساب سے بھی کچھ کام کرنا ان کے لئے دوسری اور سب سے بڑی سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔

مسلمانوں کے سیاسی بحران کا حل موجودہ سیاسی بساط کو سمجھ کر آگے بڑھنے میں ہے!
Advertisement

ہندوستان کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جموں وکشمیر کے علاوہ مسلمان کسی بھی صوبہ میں بذات خود الیکشن کے ذریعہ حکومت سازی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیئے اپنے آپ کو پالیسی سازی میں شامل رکھنے کے لئے مسلمانوں کےواسطے دوسروں کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔ خیال رہے کہ ہمیشہ اپوزیشن میں بیٹھے رہنے سے کوئی سیاسی پارٹی یا شخصیت اپنے ووٹرس کو سوائے جذباتی نعرے اور خوبصورت خوابوں کے کچھ بھی نہیں دے سکتی۔ سیاسیات کا مقصد ہی حکومت اور قانون سازی میں حصہ داری ہے جو انفرادی نہیں اجتماعی عمل کا حصہ ہے۔

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہر مسلمان سیاسی رہنما قوم کے لئے مفید اور مخلص ہی ہوگا ایسا بالکل نہیں ہے اور ہر غیر مسلم سیاسی رہنما مسلمانوں کا دشمن ہی ہوگا ایسا بھی نہیں ہے۔ کچھ بات اور کام ایک غیر مسلم راہنما جتنی وضاحت اور بہادری سے کر لیتا ہے وہی کام ایک مسلم راہنما متعدد وجوہات کی وجہ سے نہیں کر پاتا ہے۔اس لئے ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر ووٹنگ مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہونے کے بجائے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جمہوریت میں اکیلا چلنے کا فارمولہ کارآمد نہیں بلکہ کسی بڑے گروپ کے ساتھ چلنا ہی آپ کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی سیاسی صلاحیت پر منحصر ہے کہ آپ کتنے کو ساتھ لا پاتے ہیں یا مجبوری میں ہی صحیح آپ کس کے ساتھ چلنا پسند کر تے ہیں۔

ابھی مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن ہونے والا ہے۔اگر حکومت اور بی جے پی کے لئے حالات سازگار ہوتے تو الیکشن کا عمل اب تک شروع ہوگیا ہوتا۔ مہاراشٹر میں مسلم آبادی صرف 12 فیصد ہے لیکن کچھ جگہوں میں وہ ایک ساتھ رہتے ہیں اس لئے تقریبا 20 اسمبلی سیٹوں پر ان کی اجتماعی ووٹنگ سے حکومت بننے یا نہ بننے میں فرق پڑتا ہے۔ گزشتہ پارلیمنٹری الیکشن میں مسلمانوں نے کثیر تعداد میں ایک طرفہ ووٹنگ کی تھی جس کا مثبت اثر پڑا تھا۔ اس منصوبہ بندی کا موجودہ پارلیمنٹ میں بھی بہت ہی مثبت اثر پڑا ہے۔ نتیجتا یو پی، بنگال و مہاراشٹر کے مسلمان اپنے ووٹ کے وزن کو ملک بھر میں بخوبی محسوس کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اسی تناظر میں اب مخالفین اور خاص کر بی جے پی کے لئے اس کے مخالف ہندو (سیکولر) ووٹس اور مسلمانوں کا اتحاد سب سے بڑا چیلنج ہے۔اس اتحاد کو کسی بھی طرح سے توڑنا ان کے لئے سیاسی طور پربہت ضروری ہے اور وہ اس میں کامیاب اسی صورت میں ہوں گے جب کہ لوگ مذہبی طور پر مشتعل رہیں گے۔

یاد رکھیں! پارلیمنٹ یا اسمبلی میں کسی اپوزیشن پارٹی کے فرد واحد کی بہترین بیان بازی یا بل کے پھاڑ دینے سے وہ بل رک نہیں جاتا ہے۔اسی طرح جمہوریت میں کسی خاص سیاست داں کی ذاتی اچھائی اور بہترین صلاحیت صرف اس وقت کارآمد ہوتی ہے جب کہ ان کے ساتھ اکثریت ہو۔ اس سیاق و سباق میں مسلمانوں کو اسد الدین اویسی صاحب کی پارلیمنٹ میں ضرورت ہے؛وہ بہترین مقرر ہیں، لیکن ان کی سیاست کیرالہ کی مسلم لیگ جیسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کانگریس یا بی جے پی کسی بھی مرکزی حکومت کے ساتھ شامل نہیں ہوپاتے ہیں یا لوگ ان کو کسی وجہ سے شامل نہیں کرتے ہیں۔ مہاراشٹر، بہار، یو پی اور بنگال و غیرہ میں جس طرح کی سیاسی بساط ہے وہاں اسد صاحب کی سیاست مسلمانوں کو فائدہ پہونچا نے والی بھی نہیں ہے۔

مسلمانوں کے سیاسی بحران کا حل موجودہ سیاسی بساط کو سمجھ کر آگے بڑھنے میں ہے!
Advertisement

واضح رہے کہ سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لوگ ہمیشہ جیتنے کے لئے ہی انتخاب نہیں لڑتے ہیں بلکہ وہ کبھی کبھی کسی خاص پارٹی اور خاص امیدوار کو ہرانے میں مدد کر کے اپنے آپ کو جیتا ہوا پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کبھی کوئی کسی کو جیتنے میں مدد کرنے کے لئے تو کوئی کسی اور کے ہار میں اپنا کردار نبھانے کے لئے میدان میں آتا ہے۔ اسی لئے ہار جیت اگر چہ دولوگوں میں ہی ہوتی ہے لیکن میدان میں کچھ دوسرے لوگوں کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔

گزشتہ یو پی اسمبلی الیکشن میں، میں نے لکھا تھا کہ اسد صاحب کچھ لوگوں کو ہرا تو دیں گے لیکن ایک یا صفر سیٹ جیت پائیں گے۔ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن سے پہلے بھی میں نے لکھا تھا کہ میم ایک سے تین ہی سیٹ جیت سکتی ہے جس سے مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا البتہ کچھ سیٹیں ہرا دے گی جس کا نقصان ضرور ہوگا۔دونوں جگہوں میں نتیجہ ایسا ہی آیا۔ اس کے علاوہ بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج در نتائج ہمارے سامنے ہیں

اگرکسی شخص کے کچھ صفات اور اعمال اچھے ہوں تو اس کامطلب ہر گزیہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کا ہر عمل اور ہر بات اچھی ہی ہو اور ہم اندھے ہو کر سب کچھ مان لیں۔ اسی طرح کسی شخص سے نا اتفاقی کا مطلب بھی یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم اس کو اپنا دشمن ہی سمجھ بیٹھیں۔ مولانا محمود مدنی صاحب کی ہر بات سے اگرچہ آپ اتفاق نہ کریں لیکن ان کی ہر بات سے آپ معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف بھی نہیں کر سکتے ہیں. مفتی اسماعیل صاحب اور اویسی صاحب کی ہر بات سے جیسے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں اسی طرح ان کے ہر بات کو ناپسند اور رد کرنا بھی معقولیت کے دائرے سے باہرہے.

بہرحال، اسد الدین اویسی صاحب کا ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے تلنگانہ سے بہار الیکشن میں حصہ لینا کسی بھی طرح سے ملک اور مسلم قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے اور ایک عام سیاسی فہم رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے، اس کے باوجود بھی اگر وہ بار بار ایسا کر رہے ہیں تو پھر صرف دو باتیں ہو سکتی یا تو وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں یا پھر ان کو ملک اور مسلم قوم کے مستقبل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور وہ محض اپنی سیاسی زمین اور ذاتی طاقت کو بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں ہم اگرچہ ان کی دوسری اچھائیوں کی وجہ سے لعن طعن تو نہیں کر پائیں گے لیکن ان کے اس کام کی شدت سے مخالفت کریں گے۔

(مضمون نگارمحمد برہان الدین قاسمی ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر، ایم ایم ای آر سی، ممبئی کے ڈائریکٹر اور معروف سیاسی مبصر ہیں۔)

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی از: طہ جون

Eastern Eastern

رمضان میں بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر آئیں!

  مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔

Eastern Eastern

آئیے اس رمضان کو احساس کی بیداری کا ذریعہ بنالیں!

    مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر

Eastern Eastern

روزے کی خوشی!

مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ محنت

Eastern Eastern

Quick LInks

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب ازــــ مفتی جنید احمد

Eastern Eastern

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا دی جائے: مولانا بدرالدین اجمل

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا

Eastern Eastern

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی فہرست میں لگاتار سولہویں مرتبہ شامل کئے جانے پر مبارکباد

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی

Eastern Eastern