فلموں کی مخالفت ان کی تشہیر کا ایک حصہ ہے

Eastern
5 Min Read
80 Views
5 Min Read

فلموں کی مخالفت ان کی تشہیر کا ایک حصہ ہے

تحریر: محمد برہان الدین قاسمی
ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک خاص قسم کی سرگرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بعض نوجوان علماء اور دینی حلقوں سے وابستہ افراد ایک مخصوص فلم کی مخالفت میں مسلسل پوسٹس، ویڈیوز اور پیغامات شیئر کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس فلم میں مسلمانوں اور دینی مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے لوگوں نے واقعی یہ فلم مکمل دیکھی ہے، یا محض سنی سنائی باتوں پر ردعمل دے رہے ہیں۔ بلکہ امید یہی کی جانی چاہیے کہ علماء کرام جیسے محتاط طبقے نے اس فلم کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو۔

فلمی دنیا میں اکثر اوقات متنازعہ مواد جان بوجھ کر شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس پر ردعمل سامنے آئے۔ بعض پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز خود ہی کچھ لوگوں کو معاوضہ دے کر اپنی فلم کے خلاف مہم چلوانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مقصد؟ فلم کا نام چرچا میں رہے، لوگ اس پر بحث کریں، اور بالآخر زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ فلمی صنعت میں مثبت یا منفی تشہیر کا کوئی فرق نہیں ہوتا—وہاں صرف "توجہ” مطلوب ہوتی ہے، کیونکہ یہی ان کی کامیابی کی کنجی ہے۔

جب ہم کسی فلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اسے نہ دیکھنے کی اپیل کرتے ہیں، یا اس پر مقدمہ چلانے کی بات کرتے ہیں، تو درحقیقت ہم اس فلم کو مزید مقبول بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بازار میں پڑے ہوئے سامان پر اگر کوئی توجہ نہ دے تو دکاندار اسے ہٹا دیتا ہے، لیکن اگر لوگ اس پر بات کریں، چاہے تعریف میں ہو یا مذمت میں، تو وہ سامان زیادہ فروخت ہونے لگتا ہے۔ کیا ہم فلم سازوں کے اسی گیم کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟

Advertisement
Advertisement

ہندوستان میں گزشتہ برسوں میں کئی ایسی فلمیں بنی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف منفی بیانیہ پیش کرتی ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر باکس آفس پر ناکام رہیں۔ تاہم، جب تک معاشرے میں نفرت اور تقسیم کا بازار گرم ہے، کچھ لوگ مالی نقصان اٹھا کر بھی ایسی فلمیں بناتے رہیں گے۔ ان کا مقصد صرف منافع کمانا نہیں، بلکہ سماجی انتشار پیدا کرنا بھی ہوتا ہے جو موجودہ سیاست کا ایک اہم کردار ہے۔

ایسے حالات میں سب سے مؤثر حکمت عملی یہ ہے کہ ان فلموں کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ نہ ان کا نام لیں، نہ ان پر تبصرہ کریں، نہ انہیں دیکھنے یا نہ دیکھنے کی اپیل کریں۔ کیونکہ جب کوئی چیز نظر انداز ہو جائے تو وہ رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ خاموشی کبھی کبھی احتجاج سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔

جب ہم کسی عام شخص کو بتاتے ہیں کہ "یہ فلم مسلمانوں کے خلاف ہے، اسے مت دیکھو”، تو ہم دراصل اس کے اندر تجسس پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ پہلے سے فلم بینی کے عادی نہیں، وہ بھی جاننے کے لیے اسے دیکھنے لگتے ہیں کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے؟ نتیجتاً، ہماری نیک نیتی کے باوجود فلم سازوں کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔

اگر واقعی ہم ان فلموں کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب کوئی چیز دیکھی، سنی اور پڑھی نہ جائے تو وہ خود بخود دم توڑ دیتی ہے۔ بعض اوقات خاموش رہنا ہی سب سے بڑا احتجاج ہوتا ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

بہار! آپ کا شکریہ!

بہار! آپ کا شکریہ! از: محمد برھان الدین قاسمی ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ،…

Eastern

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد حالات کے حساب…

Eastern

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں محمد…

Eastern

Quick LInks

تبلیغی جماعت کے نادان دوست

تبلیغی جماعت کے نادان دوست ازـــــ مدثر احمد قاسمی تبلیغی جماعت ایک…

Eastern

جمعرات 20 صفر 1447هـ 14-8-2025م

یومِ آزادی، مسلمانوں کی قربانی اور حالیہ مسائل ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان…

Eastern

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی…

Eastern