اپنے گھر میں لگی ہے آگ لیکن فکر ہے دوسروں کی یار: مولانا بدرالدین اجمل القاسمی کا مرکز المعارف ممبئی میں دلسوز بیان
محمد توقیر رحمانی
٢٦ اگست ٢٠٢٤
مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر (MMERC)، ممبئی علماء کو انگریزی زبان و ادب سیکھانے اوراپنے طریقۂ تعلیم میں ممتاز ہے۔ ادارہ دو سال کی مدت پر محیط ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر (DELL) کورس چلاتا ہے۔ یہاں طلباء کی ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور انہیں مستقبل میں علم و حکمت کی دنیا میں کامیاب بنانے کے ساتھ شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
مرکز المعارف ممبئی کے فارغ التحصیل نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی مہارت اور انفرادیت کی وجہ سے معروف ہیں۔
مرکز المعارف کے ڈائیریکٹر مولانا محمد برہان الدین قاسمی نے کہا "مرکز المعارف، ممبئی صرف ایک ادارے کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو علماء کرام کے لیے عصری تعلیمی تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے رہنمائی کا چراغ ہے۔” انہوں نے مزید کہا، "یہ ہمارے بزرگوں کی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتا ہے اور اس تحریک سے وابستہ افراد ہمارے ملک و ملت کے روشن چراغ ہیں۔“
1994 میں قائم اس تحریک کے بانی، مولانا بدرالدین اجمل القاسمی، نہ صرف مرکز المعارف بلکہ ملک ہندوستان اور خاص کر آسام میں سیکڑوں تعلیمی اداروں، اسکولوں، کالجوں، اور دینی مکاتب کے بھی مؤسس اور معمار ہیں۔ جہاں ابتداء سے اعلیٰ سطح کی معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے جس میں مدارس و مکاتب کے علاوہ سائنس، وکالت و طب اور NEET, JEE اور UPSC کے کوچنگ سینٹرز بھی شامل ہیں۔
مولانا بدرالدین اجمل القاسمی نے 25 اگست 2024 کو مرکز المعارف کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مرکز المعارف کے نئے بیچ کے طلباء اور مقامی لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گذارا۔ مولانا نے طلباء سے انگریزی زبان و ادب سیکھنے کے مقصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا "دین کی اشاعت اور لوگوں کو قرآن کی تعلیمات سے آگاہی دینا ضروری ہے۔” انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث "إنما الأعمال بالنيات“ پر زور دیا اور کہا "کسی بھی عہدے کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیئے چاہے وہ امامت کا عہدہ ہو یا مؤذن کا، مکتب کا معلم ہو یا کسی بڑے مدرسے کا شیخ الحدیث یا کسی یونیورسٹی کا پروفیسر، تمام عہدے اور کام اپنی جگہ پر اہم اور ضروری ہیں جنہیں اخلاص کے ساتھ انجام دیئے جانا چاہئے۔“
"فليبلغ الشاهد الغائب“ حدیث کی روشنی میں طلباء کو تبلیغ دین کی رہنمائی کی اور کہا "آج ہر کوئی دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے اعتبار سے جبکہ حقیقی دین کی خدمت "اطیعواللہ و اطیعوالرسول“ پر عمل کرنا ہے۔“
مولانا نے اپنی گفتگو میں مزید کہا "آج لوگ انگریزی زبان سیکھ کر انگلینڈ اور امریکہ کے لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "وانذر عشیرتک الاقربین“ کا حکم ہوا تھا۔ آگ اپنے گھر میں لگی ہے اور ہمیں دوسروں کے گھروں کی فکر ہے جبکہ پیغمبر اسلام نے اشاعت دین کا کام اپنے ہی گھر سے شروع کیا تھا۔“
مغرب کی نماز کے بعد، مولانا اجمل نے مسجد مرکز المعارف، ممبئی میں عوام سے خطاب کیا اور کہا کہ مذہبی مجالس میں شامل ہونا اللہ کے خوش نصیب بندوں کا کام ہے، جس کی ہر کسی کو توفیق نہیں ملتی۔ انہوں نے خاص طور پر بچوں کی صحیح پرورش پر زور دیا اور کہا کہ آج کل باپ بیٹے، ماں بیٹی اور شوہر بیوی کے درمیان جو جھگڑے ہو رہے ہیں، وہ بچوں کو ان کے بچپن میں صحیح پرورش و تربیت اور اخلاقی تعلیم سے دور رکھنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے حاضرینِ مجلس کو تنازعات سے دور رہنے اور اسلام کے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ اس مجلس، جس میں کئی کالج اور اسکول کے طلباء اور دانشوران شامل تھے، کا اختتام مولانا بدرالدین اجمل القاسمی، سابق رکن پارلیمنٹ دھوبری آسام اور اجمل سی ایس آر کے سی ای او، کی دعا کے ساتھ ہوا۔