اس عید پر بی جے پی نے مسلمانوں کی حد بندی کرنے کے لیے ریاستی مشینری کے استعمال کو مکمل طور پر اپنا لیا
از: ایس این ساہو،
سابق خصوصی افسر برائے صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن
ترجمہ: شمس الہدیٰ قاسمی،
ایڈیٹر: دی لائٹ، جامعہ اکل کوا، مہاراشٹر
ریاستی حکام کی جانب سے مسلمانوں پر عید منانے پر لگائی گئی پابندیاں واضح طور پر اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو معاشرتی دھارے سے الگ رکھنے کے اپنے خوفناک عزم پر قائم ہیں۔
جب 18 اگست 1947 کو آزاد ہندوستان میں پہلی بار عید منائی گئی، تب ملک کو برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی سے آزادی ملے محض تین دن ہی ہوئے تھے۔ اس وقت مغربی اور مشرقی علاقوں میں تقسیم کے دوران ہونے والے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات جاری تھے، جن میں ہزاروں ہندو، مسلمان اور سکھ مارے گئے۔ اس وقت یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو عید منانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں دوسرے درجے کے شہری بنا دیا جائے گا، جن کے حقوق پامال ہوں گے۔
گاندھی اور آزاد ہندوستان کی پہلی عید
انہی پرآشوب دنوں میں کولکتہ (اس وقت کے کلکتہ) میں 18 اگست 1947 کو ایک دعائیہ اجتماع منعقد ہوا، جو کہ محمدن اسپورٹنگ کلب کے احاطے میں ہوا تھا۔ اس میں مہاتما گاندھی اور چار سے پانچ لاکھ افراد، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے، شریک ہوئے۔ گاندھی نے اپنی مختصر تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا:
"میرا پہلا فرض یہ ہے کہ یہاں موجود تمام مسلمانوں کو عید مبارک کہوں۔”
انہوں نے مزید کہا: "ایک وقت تھا جب ہندو اور مسلمان اس دن ایک دوسرے کو گلے لگاتے تھے… مجھے اعتراف کرنا ہوگا کہ کئی سال بعد میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔”
گاندھی مسلمانوں لیگ، نیشنل گارڈز اور کانگریس کے رضاکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی سے بے حد خوش تھے اور امید ظاہر کی کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان یہ اتحاد ہمیشہ قائم رہے گا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے تناظر میں کہا کہ اب انگریز حکمرانوں کی جگہ ہندوستانی عوام کو حکومت چلانے کا موقع ملا ہے۔ تقریر کے اختتام پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"میں آج جو منظر دیکھ رہا ہوں، اسے کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔”
اگست 1947 میں عید کے موقع پر مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان قائم ہونے والا اتحاد، جو پنجاب اور بنگال میں جاری فرقہ وارانہ خونریزی کے باوجود ممکن ہوا، ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قائدانہ کردار کس طرح عوام کو جوڑ سکتا ہے۔
بی جے پی لیڈروں کی جانب سے عید پر پابندیاں
اب 2025 میں جب ملک آئین کی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس وقت یہ اتحاد اور یکجہتی بی جے پی لیڈروں کی تقسیم پسند پالیسیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے، جو اب ریاستی مشینری چلا رہے ہیں۔ اس سال، کچھ بی جے پی زیر حکومت ریاستوں، خاص طور پر اتر پردیش میں، عید منانے پر لگائی گئی پابندیاں اس بات کی واضح گواہی دیتی ہیں کہ ریاستی حکام کس حد تک مسلمانوں کو سماجی اور ثقافتی دائرے سے باہر رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ پابندیاں بی جے پی لیڈروں کی اس پرانی پالیسی کا تسلسل ہیں، جس کے تحت مسلمانوں کو ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو سڑکوں اور عوامی مقامات پر نماز عید ادا کرنے سے روک دیا، حالانکہ ہندو مذہبی تہواروں کے دوران جلوسوں کے لیے سڑکوں کا استعمال عام بات ہے۔ حیران کن طور پر، اب مسلمانوں کو اپنے ہی گھروں کی چھتوں پر نماز پڑھنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایسے تمام اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے، جو کہ آئینی اصولوں کے صریح خلاف ہے۔
اسی طرح، ہریانہ میں بی جے پی حکومت نے عید کو سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نکال کر "محدود تعطیلات” (Restricted Holidays) میں شامل کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن سرکاری دفاتر اور ادارے کھلے رہیں گے، اور جو مسلمان یا ہندو ملازمین اس دن چھٹی لینا چاہیں گے، انہیں الگ سے درخواست دینی ہوگی۔
بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جانے والا یہ امتیازی سلوک اور ریاستی مشینری کی مذہب کے معاملے میں غیر جانبداری کو ترک کرنا، سیکولرازم پر براہ راست حملہ ہے۔ گزشتہ سال، سپریم کورٹ نے آئین کے دیباچے میں سیکولرازم کی شمولیت کو برقرار رکھا تھا، لیکن بی جے پی حکومتیں اس اصول کو نظر انداز کر رہی ہیں۔
ہولی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا
تقریباً دو ہفتے پہلے ہولی کے موقع پر، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک پولیس افسر کے اس بیان کی حمایت کی کہ: "جمعہ سال میں 52 بار آتا ہے، لیکن ہولی صرف ایک بار آتی ہے۔ جو لوگ (مسلمان) ہولی کے رنگوں سے پریشان ہیں، انہیں اپنے گھروں میں رہ کر نماز پڑھنی چاہیے۔”
اس سال، ہولی جمعہ کے دن منائی گئی، اور مسلمانوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین سے ان میں خوف اور بے چینی پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ، اتر پردیش میں تقریباً 200 مساجد کو ترپال اور پلاسٹک کی چادروں سے ڈھانپنے کے احکامات جاری کیے گئے تاکہ وہ ہولی کھیلنے والے ہندوؤں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ تہواروں کو اس انداز میں ہتھیار بنا کر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی یہ پالیسی ہندوستان کی مشترکہ ثقافت اور ورثے کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
ایک مثال
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ 2004 میں اقوام متحدہ کے *”ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ”* نے "آج کی متنوع دنیا میں "ثقافتی آزادی” کے موضوع پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ: "…ریاستوں کو فعال طور پر ایسی پالیسیوں کو اپنانا چاہیے جو مذہبی، لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر امتیازی سلوک کی روک تھام کریں۔”
رپورٹ میں مزید کہا گیا: "ثقافتی آزادی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینا ہی استحکام، جمہوریت اور انسانی ترقی کو برقرار رکھنے کا واحد پائیدار طریقہ ہے۔”
اس رپورٹ میں ہندوستان کی مثال دی گئی تھی، جہاں ریاستی سطح پر 5 ہندو، 4 مسلم، 2 عیسائی، 1 بدھ، 1 جین اور 1 سکھ تہواروں کو سرکاری تعطیلات کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ملک کی متنوع آبادی کا اعتراف کیا جا سکے۔ اس کے برعکس، رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ "فرانس میں 11 قومی تعطیلات ہیں، جن میں سے 6 صرف عیسائی مذہبی تہواروں کے لیے مختص ہیں، حالانکہ وہاں 7% آبادی مسلمان اور 1% یہودی ہے۔”
ہندوستان، جسے کبھی ثقافتی آزادیوں کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ایک مثالی ملک کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب بی جے پی حکومتوں کی اکثریتی پالیسیوں کی وجہ سے اپنی اقلیتی برادریوں کے حقوق کو کچلنے کی وجہ سے بدنام ہو رہا ہے۔
2004 کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ:
"جدید ہندوستان کو اپنی آئینی وابستگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ کچھ گروہ ملک پر ایک یکساں ہندو شناخت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔”
آج، 2025 میں، یہ خدشات حقیقت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کی زیر حکومت ریاستوں میں مسلمانوں کی ثقافتی آزادیوں پر عائد پابندیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ان کے بطور شہری حقوق دبا دیے گئے ہیں۔