خالد سیف اللہ قاسمی
مضمون نگار مر کز المعارف ایجو کیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئ سے فارغ ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پوری انسانیت کے لئے، خاص طور پر مسلمانوں کے لئے – خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے ہوں، عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہوں اور کسی بھی شعبہء زندگی سے تعلق رکھتے ہوں – اسوہء حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ ارشاد باری ہے: (اے مسلمانوں!) بلاشبہ تمہارے لئے اللہ کے پیغمبر کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ (سورہ احزاب: 21)
مادیت کے اس پر فتن دور میں جہاں ایمانی جذبے سرد پڑ رہے ہیں، اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں اور خصوصاً نوجوان نسل اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ امت کا نوجوان طبقہ اسوہء نبوی کی روشنی میں اپنے سیرت و کردار کو سنوارے اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صحیح رخ پر استعمال کر کے قوم و ملت کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
قابلِ رشک پاکیزہ جوانی:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ سیرت و کردار کے حامل تھے۔ سچائی و امانت داری آپ کا طرہء امتیاز تھا۔ معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے تئیں ہمدردی و غم گساری اور خدمت خلق کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شرک و بت پرستی اور گناہ کے کاموں سے آپ کو طبعی نفرت تھی۔ زمانہء جاہلیت کے رسم و رواج اور لہو و لعب سے مکمل اجتناب کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ نے کبھی کسی بت کو پوجا ہے، آپ نے فرمایا نہیں۔ پھر پوچھا گیا کہ کبھی آپ نے شراب پی ہے، آپ نے فرمایا نہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں ہمیشہ سے ان چیزوں کو کفر سمجھتا تھا اگرچہ مجھ کو کتاب اور ایمان کا علم نہیں تھا۔ (سیرتِ مصطفیٰ: 1/118)
داؤد بن حصین سے مروی ہے کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شان سے جوان ہوئے کہ آپ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بامروت، سب سے زیادہ خلیق، سب سے زیادہ ہمسایوں کی خبر گیری کرنے والے، سب سے زیادہ حلیم و بردبار، سب سے زیادہ سچے اور امانت دار اور سب سے زیادہ خصومت، دشنام، فحش اور ہر بری بات سے دور رہنے والے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کی قوم نے آپ کا نام امین رکھا۔ (سیرتِ مصطفیٰ: 1/95)
سچائی و امانت داری:
نبوت سے پہلے ہی مکہ میں آپ کی سچائی و امانت داری کا شہرہ تھا۔ لوگ آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے اور قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ نبوت کے تین سال بعد جب آپ کو حکم ہوا کہ علی الاعلان اپنی نبوت کا پیغام اور توحید کی دعوت اپنے قریبی رشتہ داروں تک پہنچائیے اور ان کو کفر و شرک کے برے نتائج سے ڈرائیے۔تو آپ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر تمام قبائل قریش کو آواز دی، جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا : ” اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟ پوری قوم نے بیک زباں کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے نہیں پایا۔ ما جَرَّبْنا عَلَيكَ كَذِباً” (بخاری حدیث نمبر : 4971)
اسی طرح جب قیصر روم ہرقل کے پاس حضور کی طرف سے دعوت اسلام کا خط پہنچا تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا کہ اس علاقے میں اگر مکہ کا کوئی قافلہ ہو تو تلاش کر کے میرے پاس لاؤ ؛ تاکہ خط بھیجنے والے کے کچھ حالات دریافت کر سکوں۔ بادشاہ بیت المقدس آیا ہوا تھا اور اتفاق سے ابو سفیان بھی تجارتی قافلے کے ساتھ وہیں مقیم تھے۔ ابو سفیان اور ان کے رفقاء کو دربار میں لایا گیا، ہرقل نے ان سے آپ علیہ السلام کے بارے میں کئی ایک سوالات پوچھے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ نبوت کے دعوی سے پہلے کیا تم نے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں! فَهلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بالكَذِبِ قَبْلَ أنْ يَقُولَ ما قالَ؟ قُلتُ: لا (بخاری حدیث نمبر: 7)
ابو سفیان جو آپ کی دعوت کا سخت مخالف اور آپ کا کٹر دشمن تھا وہ بھی آپ کے سچے ہونے کی گواہی دینے پر مجبور تھا۔ وَالفضل ما شهدت به الأعداء.
آپ کی امانت و دیانت کا یہ حال تھا کہ مکہ کے وہ لوگ بھی جو آپ کی دعوت کے سخت مخالف تھے اپنی امانتیں آپ کے پاس اس یقین کے ساتھ رکھا کرتے تھے کہ آپ ان کا بھرپور خیال رکھیں گے اور ہر طرح سے حفاظت کریں گے۔ یہاں تک کہ ہجرت کی رات میں بھی لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں اور اس نازک صورت حال میں بھی آپ کو ان امانتوں کی فکر تھی اس لئے آپ نے حضرت علی کو اپنا نائب اور امیر بنا کر اس بات کا پابند بنایا کہ امانتوں کو مالکوں کے سپر کئے بغیر وہ مدینہ ہجرت کر کے نہ آئیں۔ حالاں کہ ان میں ان کفار و مشرکین کی امانتیں بھی تھیں جنہوں نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے، مکہ کی زمین آپ پر تنگ کر دی تھی اور آپ کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے۔
شرم و حیا:
صفتِ حیا جو ہر طرح کی برائیوں سے روکنے والی اور تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (مسلم، حدیث نمبر: 2320)
فحاشی و عریانیت اور بے حیائی کے اس دور میں یہ حدیث نوجوانوں کو حیا کی تعلیم اور قلب و نظر کی پاکیزگی کا درس دیتی ہے۔
مظلوموں کے تئیں ہمدردی اور عدل و انصاف کا جذبہ:
ایک دفعہ قبیلہ زبید کا ایک شخص سامان تجارت لیکر مکہ مکرمہ آیا، مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے اس سے سامان تو خرید لیا لیکن پیسے نہیں دئے۔ اس نے پہاڑ پر چڑھ کر اپنی مظلومیت کی داستان بیان کی تو لوگوں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک میٹنگ بلائی، جس میں قریش کے تمام سرداروں نے یہ عہد کیا کہ اس شہر اگر کسی کے ساتھ بھی ظلم ہوگا تو ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے اور اس کو حق دلا کر رہیں گے۔ اس معاہدہ کو "حلف الفضول” کہا جاتا ہے۔
حضور بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔ یہ معاہدہ آپ کو اتنا پسند تھا کہ اسلام کے آنے کے بعد بھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ عبد اللہ بن جدعان کے گھر پر جو معاہدہ ہوا تھا وہ مجھے دنیا کے تمام مال و زر سے زیادہ پسند ہے اور اگر آج بھی اس طرح کا کوئی معاہدہ ہوگا تو میں اس کی تائید کرنے کے لئے تیار ہوں۔ "لو دُعـيتُ به في الاِسلام لَأَجَبتُ”. (البدايه والنهايه: 2/291 – الروض الأنف: 1/242)
معاملہ فہمی اور فیصلے کی صلاحیت:
تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے کے سلسلے میں قریش کے مختلف قبائل کے درمیان زبردست اختلاف ہوگیا اور قتل و قتال کی نوبت آگئی۔ چار پانچ دن تک معاملہ یونہی گرم رہا؛ بالآخر یہ طئے پایا کہ کل صبح جو سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے سے اندر داخل ہوگا ہم اس کو اپنا حکم بنا لیں گے اور اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کو تسلیم کریں گے۔ صبح ہوئی تو سبھوں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔سبھوں نے بیک زباں کہا یہ تو محمد امین ہیں، ہم ان کو حکم بنانے پر راضی ہیں۔
آپ نے ایک چادر منگوائی، حجر اسود کو اس میں رکھ دیا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار اس کو تھام لے، سبھوں نے اس چادر کو اٹھا کر حجر اسود کو اس کے مقام تک پہنچا دیا، پھر آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ رکھ دیا۔
آپ کے حکیمانہ فیصلہ کی وجہ سے ایک خون ریز جنگ جو چھڑنے والی تھی ٹل گئی۔ اس وقت آپ کی عمر 35/سال تھی۔ (سیرتِ مصطفیٰ: 1/116 بحوالہ سیرت ابن ہشام: 1/65)
خدمت خلق کا جذبہ:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں خدمتِ خلق کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ معاشرے کے کمزور لوگوں، محتاجوں، یتیموں اور بیواؤں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کی مدد کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ نے اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو انہوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
"بخدا! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا؛ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کا خیال رکھتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور اور قدرتی آفات کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری، حدیث نمبر: 3)
آقا علیہ السلام کی پاکیزہ و تابناک سیرت میں عصرِ حاضر کے نوجوانوں کے لئے قول و عمل کی درستگی، فکر و شعور کی پختگی، اخلاق کی بلندی، حیا و پاک دامنی، سیرت و کردار کی پاکیزگی، عدل و انصاف، صلہ رحمی، ہمدردی و غم گساری اور خدمت خلق کا پیغام موجود ہے۔ یہ وہ صفاتِ حمیدہ ہیں جن میں دونوں جہاں کی سعادتوں اور کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔