اسماعیل ہنیہ کی شہادت میں شیعہ-سنی کرنا حماقت ہے
محمد برہان الدین قاسمی
ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ
کچھ پاکستانی اور عرب اسرائیلی ایجنٹس اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر بیگانہ کی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے ہوئے ہیں. وہ بیوقوف اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جوڑتے وقت دانستہ طور پر یہ بھول رہے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کسی اور نے نہیں اپنوں نے شہید کیا تھا۔
قطر، ترکی اور ایران حماس کے حامی ہیں تبھی تو ان کے لیڈر بار بار ان ممالک کا سفر کرتے ہیں. 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسماعیل ہنیہ کے ساتھ حماس کے متعدد میٹنگس ایران اور لبنان میں منعقد ہوئے ہیں جن میں طالبان سمیت دوسرے لیڈران ایک ساتھ موجود تھے.
مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے دوست اسرائیل و امریکہ کو حماس کے لئے ایران کی حمایت بہت مشکل میں ڈال رہا ہے. روس اور چین، ایران کی کوششوں سے حماس کے قریب آرے ہیں جس میں اسماعیل ہنیہ اہم کردار ادا کر رہے تھے. حال ہی میں بیجنگ کے اندر حماس اور فتح کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ ویسٹ بنک اور غزہ متحدہ طور پر فلسطین کی آزادی کی لڑائی لڑیں گے۔ اسرائیل-عرب ایجنٹ محمود عباس کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ ان سب کی وجہ سے ایران کو ڈائریکٹ اسرائیل سے لڑانا اور پھر امریکہ کو جنگ میں شامل کرنا عرب-اسرائیل کی مجبوری بن چکی ہے اس لئے اب یہ گروپ ہر وہ عمل کررہا ہے جس سے شیعہ سنی دشمنی کو پھر سے فروغ ملے.
قطر جس طرح حماس کا حامی ہے اسی طرح امریکہ کا دوست بھی ہے۔ قطر مغربی ممالک کے لئے ایک دروازےکا کام کرتا ہے۔ امریکہ خود اس کی حفاظت کرتا ہے۔ قطر میں حماس یا طالبان کے کسی لیڈر کو نقصان ہونا خود امریکہ کے لئے درد سر ہے۔ ترکی میں اگر ایسا ہوا تو ترکی جو ناٹو ممبر ہے اعلانیہ حماس کے جنگ کا حصہ بن جائے گا جو اسرائیل و امریکہ کبھی نہیں چاہتے ہیں۔
ایران کو اسرائیل جنگ میں لانا چاہتا ہے، تبھی تو اس نے شام میں ایران ایمبیسی پر حملہ کر کے اہم فوجی اور سفارتی ذمہ داروں کو قتل کیا، ایران کے اندر نیوکلیئر پلانٹ اور ڈرون پلانٹ پر بار بار میزائل اور خودکش حملے کیا۔ اس کے علاوہ درجنوں ایسے حملے ایران پر ہوئے جس سے ایران مجبور ہو کر باقاعدہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہو جائے، لیکن یہ ایران اور فلسطین کے مفاد میں نہیں ہے اس لئے ایران اس سے گریز کرتا آرہا ہے۔
کوئی بھی جنگ اگر ایران بمقابلہ امریکہ ہو جائے تو وہ بالکل ایسا ہوگا جیسے روس بمقابلہ یوکرائن کا موجودہ جنگ ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ یہ اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے حکمرانوں کے لئے مفید ہوگا۔ لیکن ایران اپنے پروکسیس کو بہت ہوشیاری سے استعمال کرتا آرہا ہے اور وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارت، مصر، اردن اسرائیل اور امریکہ کے واضح چال سے واقف ہے۔ اس لئے وہ نیوکلیئر طاقت رکھنے والے کسی ملک سے فی الحال اعلانیہ جنگ سے بچنے کی کوشش میں ہے۔ اسرائیل پر جب بھی ڈائریکٹ حملہ ہوگا امریکہ مدد کرنے آئے گا، یہ ان کا معاہدہ ہے۔
جنگ میں چوک ہوتی ہے، دشمن بھی تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگاتا ہے۔ کبھی دشمن کامیاب ہوجاتا ہےاور کبھی ناکام۔ روس یوکرائن جنگ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے اور امریکہ کے ذریعہ عراق میں قاسم سلیمانی کے قتل کے شاید ایک ہی ہفتہ بعد تہران سے کیو کی طرف بڑھ رہی یوکرائن کا مسافر طیارہ ہوا میں مزائل کا شکار ہو گیا جو ایک ایرانی چوک تھا۔ روس دنیا میں ایئر ڈیفنس میں مضبوط ترین ملک ہے جس کے پاس ایس 400 اور ایس 500 موجود ہیں۔ یااس کے باوجود اس کے راجدھانی ماسکو اور بہت ہی محفوظ کیا ہوا علاقہ کریمہ میں یوکرائن ڈرون اور میزائل حملے کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، روسی دفاعی نظام سے بھی چوک ہوتے ہیں۔ شام کی لڑائی میں جب روس نے مداخلت کی تو ترکی کو ڈائریکٹ روس سے لڑانے کی کوشش ہوئی۔ ترکی کے دو پائلٹ نے روس کا ایک جنگی جہاز، شام اور ترکی کے سرحد پر گرا دیئے، گویا اعلان جنگ تھا۔ لیکن اردوغان اور پوتن نے حالات قابو میں کر کے روس بمقابلہ ناٹو جنگ سے بچ گئے۔ پھر ترکی کی راجدھانی انقرہ میں روسی سفارت کار کو قتل کر کے روس کو ترکی پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی، ترکی سے بڑی چوک ہوئی تھی، اور پھر ناٹو ممبر پر ڈائریکٹ حملے کا بہانہ بنا کر پورا مغرب اور امریکہ، بشمول ان کے نام نہاد مسلم دوست ممالک روس پر ٹوٹ پڑتے لیکن یہاں بھی روس نے تحمل سے کام لیا۔
آج اگر ہوثی انصار اللہ یمن سے اسرائیل کی راجدھانی تیل ابیب تک ڈرون حملہ کرنے میں کامیاب ہو پارہے ہیں، ادھر لبنان سے حذب اللہ ڈرون کے ذریعہ اسرائیل کی ساری کنڈلیاں تلاش کر پارہا ہے تو اسرائیل اور امریکہ کے لئے اسماعیل ہنیہ کا موبائل لوکٹ کرکے پریسیشن گائیڈڈ میزائل داغنا بہت عجیب بات یا کوئی ناممکن جیسا کام نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل ضیاء الرحمن، صدام حسین، معمر قذافی، شہید محمد مرثی، قاسم سلیمانی اور ابراہیم رئیسی یہ سب مغربی سازشوں کے شکار ہوئے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت بھی اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا غزہ کے میدان جنگ میں القدس اور القسام کے کسی مجاہد کی شہادت قابل قدرہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اسرائیل-امریکی سازش ہے۔ جس سے انہوں نے ایک طرف ایران کے نئے صدر کی حلف برداری تقریب کو متاثر کیا، دوسری طرف نئے صدر کو یا تو جنگ یا امریکہ کے گود میں جانے کے لئے مجبور کرنے کی کوشش ہوگی۔ اس کے علاوہ حماس کو کمزور کر کے اسرائیلی شرطوں پر جنگ بندی کے لیئے مصر کے ذریعہ آمادہ کرنا اس سازش کا حصہ ہے۔
اسماعیل ہنیہ ایک مرد مجاہد تھے جو میدان جنگ میں شہید ہوئے اور وہ شہادت سے بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے۔ حماس اور ان کے خاندان کے لوگ اگر ایران پر کوئی الزام نہیں لگا رہے تو باقی سب لوگ جو ان کی شہادت کو شیعہ سنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ سب اسماعیل ہنیہ اور فلسطین کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں اور وہ حب علی میں نہیں بغض معاویہ میں اپنی خباثت کو عام کر رہے ہیں۔