مناسب رشتے کے لیئے پریشان ہیں,شریعت کے معیار کو اپنائیں!
مدثر احمد قاسمی
جب بچے بڑے ہوکر شادی کی عمر کو پہونچ جاتے ہیں تو اکثر والدین کی سب سے بڑی خواہش اور دلی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جائیں اور ایک خوشگواری ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ یہ سوچ توتقریبا تمام والدین میں مشترک ہوتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ کچھ ہی والدین صحیح وقت پر اس ذمے داری کو ادا کر پاتے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں لیکن موجودہ معاشرے پر باریک نظر ڈالنے سے سب سے بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ والدین کو وہ مناسب رشتہ نہیں مل رہا ہوتا ہے جسکا انہوں نے خواب دیکھا ہے اور منصوبہ بنایا ہے۔اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مناسب رشتہ نہ ملنے کی شکایت لڑکے والوں کو تو لاحق ہوتی ہی ہے، لڑکی والے بھی اسی پریشانی کا ذکر کرتےنظر آتے ہیں۔
عقلی طور پر اگر مناسب رشتہ نہ ملنے کی بات کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار اچھے لڑکے اور لڑکیوں کے رہتے ہوئے بھی جانبین کو مناسب رشتہ کیوں نہیں ملتا! اس معمے کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں نے از خود مناسب رشتے کا معیار قائم کر رکھا؛ جس سے نیچے آنے کے لیئے ہم تیار ہی نہیں ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے شریعت اور عقل کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
آئیے! مناسب رشتے کے سلسلے میں شریعت نے جو معیار قائم کیا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ شادی کے لیئے لڑکی کی تلاش میں شریعت نے جس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ دینداری ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: "کسی عورت سے شادی اس کے حسن وجمال کی وجہ سے کی جاتی ہے یا حسب نسب کی وجہ سے یا مالداری کی وجہ سے یا دیندار ہونے کی وجہ سے، پس تم دینداری کو لازم پکڑلو۔“ (صحیح ابن حبان) اس حدیث کا معکوس نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح شادی کے لیئے دین دار لڑکی کو ترجیح دینی چاہیئے اسی طر ح لڑکے میں بھی دین داری وجہ ترجیح ہونی چاہیئے۔ انتہائی شرم کی بات یہ ہے کہ موجودہ سماج میں جانبین میں ایک ایسی جماعت موجود ہے جو دینداری کو عار اور پسماندہ و دقیانوس ہونے کی علامت سمجھتی ہے۔
مناسب رشتے کی تلاش میں شریعت مطہرہ کا ایک اہم اصول کفو کا بھی ہے۔ ’کفو‘کا معنی ہے: ہم سر، ہم پلہ، برابر۔ اگرلڑکااورلڑکی نسب، مال ،دِین داری ،شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تویہ دونوں ایک دوسرے کے ’کفو‘ قرار پائیں گے، ان کاباہمی رضامندی کے ساتھ نکاح درست ہے اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو اسے ان دونوں کا آپس میں ’غیر کفو‘ (یعنی ہم پلہ نہ) ہونا قرار دیا جائے گا۔ اگر ولی(والد یا دادا وغیرہ) اور عورت اس رشتے پر راضی ہوں خواہ وہ رشتہ ہم سر نہ ہو تو بھی نکاح جائز ہے۔
کفو کے آئینے میں اگر اب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات نکل کر سامنے آتی ہی کہ عموما لڑکے والے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالداری میں ان سے بہتر ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ جہیز بٹور سکیں۔ حالانکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر شوہر مال داری میں بیوی کے ہم پلہ یا اس سے بڑھ کر نہ ہو تو عموماً نکاح کے حقیقی مصالح و دیرپا مقاصد کا حصول مشکل ہوجاتاہےاور بسا اوقات شوہر کو ساری زندگی جھک کر رہنا پڑتاہے؛ اس لیے شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھاہے۔
اسی طرح عموما لڑکی والے بھی ایسے لڑکے کی تلاش میں رہتے ہیں جو سرکاری ملازم ہو، بڑا تاجر ہو,بیرون ملک برسر روزگار ہو یا خو ب پیسے کماتا ہو۔ حالانکہ یہ سب شادی کے مذہبی معیار اور کفو کے دائرے سے خارج ہیں۔ اس باب میں بھی تجربہ یہ ہے کہ اکثر اپنی حیثیت سے زیادہ بڑے گھروں میں جانے والی لڑکیاں پریشان رہتی ہیں۔
یاد رکھیں! شادی کے باب میں اگر ہم نے لچک دار رویہ نہیں اپنا یا تو رشتے میں غیر ضروری تاخیر وتی رہے گی۔اس لیئے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو وقت پر مناسب رشتہ مل جائے تو ہمیں خود ساختہ معیار کو چھوڑ کر شریعت کے معیار کو اپنانا ہوگا۔
(مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔)