تبلیغی جماعت اپنے لئے ممکنہ عالمی پابندیوں کامحرک
ازــــ محمد برہان الدین قاسمی
کئی قارئین نے حالیہ بنگلہ دیش کے افسوسناک واقعات کے بعد تبلیغی جماعت کے بارے میں میری رائے جاننی چاہی۔ یہ ہیں میرے مشاہدات۔
2015 میں تبلیغی جماعت کا شوریٰ اور امارت میں تقسیم ہونا خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔ میں نے اس تنازعے پر 2016 سے مسلسل لکھا ہے، اور قارئین نے میرے خیالات سے مختلف انداز میں اتفاق یا اختلاف کیا ہے۔ میں نے 2016 میں خبردار کیا تھا کہ جماعت ایک نازک موڑ پر ہے، اور بدقسمتی سے، اس کا راستہ اسی وقت سے منحرف ہو چکا تھا۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام پوری انسانیت کے لیے ہے اور اس کی تبلیغ کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت نہیں۔ تبلیغ دین قرآن، سنت اور معتبر علماٰء کے اجماع کے مطابق ہونی چاہیے اور دعوت کے کام کرنے والے افراد کسی جماعت یا ادارے سے منسلک ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
تبلیغی جماعت بذات خود مکمل مذہب اسلام نہیں۔ یہ ایک اصلاحی تحریک ہے جو صرف بیسویں صدی کے اوائل میں وجود میں آئی۔ جبکہ "تبلیغ” عمومی طور پر غیر مسلموں میں اسلام پھیلانے کو کہا جاتا ہے، چونکہ تبلیغی جماعت کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی اندرونی اصلاح ہے، اس لیے "تبلیغ” کی اصطلاح اس پر جزوی طور پر ہی لاگو ہوتی ہے۔
میری رائے میں، تبلیغی جماعت کی موجودہ قیادت، خاص طور پر دہلی کے نظام الدین مرکز سے وابستہ افراد، بانیان جماعت حضرت مولانا محمد الیاس صاحب (رح) اور حضرت مولانا محمد زکریا صاحب (رح) کے اصولوں سے منحرف ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کی حساسیت اور دنیا بھر میں جماعت سے جڑے افراد کی بڑی تعداد کے پیش نظر علما کو انتہائی احتیاط اور حکمت سے ان مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ تاہم، قابل علما ءامت مسلمہ اور حالیہ واقعات جیسے 18 دسمبر 2024 کو ٹونگی، بنگلہ دیش میں اور 2016 میں نظام الدین مرکز کے واقعات کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل بھی نہیں رہ سکتے۔

مجھے یہ تشویش ہے کہ اسلام مخالف حکومتیں اپنے "اداروں” کی منفی رپورٹوں اور خود جماعت کے اندرونی تصادم کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی طور پر تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگا سکتی ہیں۔ جب تک کہ جماعت کی قیادت مکمل اور مثبت تبدیلی کے عمل سے نہ گزرے، تبلیغی جماعت بھی حسن البنا کے اخوان المسلمین اور ذاکر نائیک کے آئی آر ایف کے انجام سے دوچار ہو سکتی ہے۔
تبلیغی جماعت کے موجودہ طرز عمل اور رویوں پر کھلی اور علمی بحث ضروری ہے، لیکن یہ بحث سنجیدگی، اخلاقی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے خالص ارادے کے ساتھ ہونی چاہیے۔
میرا مشورہ ہے کہ جو مسلمان تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، وہ اپنی شرکت جاری رکھیں، کیونکہ یہ امت مسلمہ کے اندر اصلاح کی ایک کامیاب اور آزمودہ تحریک ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ داخلی تقسیم، قیادت کے تنازعات، یا آپس کی دشمنی سے بچیں۔
علما اور مفتیان کرام کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ کسی بھی مسلمان گروہ یا کچھ افراد کی منفی حرکات کو بنیاد بناکر پورے گروہ محرکات کو حرام، کفر یا شرک قرار دینا اسلامی شریعت کے مطابق کوئی ضروری عمل نہیں۔ اس لیے، تبلیغ سے جوڑے ہوئے افراد کو "گمراہ” یا "بے دین” جیسے القاب دینے سے گریز کریں۔