مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔
محنت کے بعد جب کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو اس کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اپنی دلچسپی کے کاموں میں جھونک دیتا ہے اور نتائج حاصل کرکے نہال ہو جاتا ہے۔ اس کےبر خلاف اگر کوئی بغیر محنت کے مزے اڑانا چاہتا ہے تو اگر اسے مزہ مل بھی جائے تو اسمیں جہاں آسودگی کا عنصر غائب ہوتا ہے وہیں وہ خوشی بھی ناپائیدار ثابت ہوتی ہے۔ اس لیئے اللہ رب العزت کی عادت یہ ہے کہ وہ محنت کے بقدر صلہ عطاء فرماتے ہیں۔ اس تعلق سے عربی کا مشہور مقولہ یہ ہے کہ ‘من جد وجد’ یعنی جس نے محنت کی اس نے پایا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ محنت کرنے والوں کی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ خدائی اصول بھی یہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نواز دیتے ہیں اوراچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے.”(یوسف:56)
مذکورہ تناظر میں جب ہم رمضان المبارک کے روزے کو دیکھتے ہیں تو ہم میں سے وہ لوگ جو روزہ رکھتے ہیں انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ وہ دوران روزہ اور روزہ مکمل کرنے کے بعد ظاہر و باطن دونوں اعتبار سےایک خاص قسم کی فرحت و تازگی محسوس کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت ہی خوبصورت منظر کشی کی ہے: "روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔” (بخاری)
حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی نے اصلاحی خطبات میں اس حدیث کے ضمن میں بہت ہی جامع تشریح کی ہی۔ "افطار دو قسم کے ہیں؛ ایک افطار وہ ہے جو روزانہ رمضان میں روزہ کھولتے وقت ہوتا ہے، اس افطار کے وقت ہر روزہ دار کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ سارے کھانے پینے میں وہ لطف اور اتنی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو لطف اور خوشی رمضان المبارک میں افطار کے وقت ہوتی ہے، ہر شخص اس کا تجربہ کرتا ہے ،علماء کرام روزانہ کے اس افطار کو افطار اصغرکا نام دیتے ہیں اور دوسرا افطار وہ ہے جو رمضان المبارک کے ختم پر ہوتا ہے،جس کے بعد عید الفطر کی خوشی ہوتی ہے ،اس کو افطار اکبر کہا جاتا ہے۔ یہ خوشی آخرت میں اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت حاصل ہونے والی خوشی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو اللہ تعالٰی نے عید کی شکل میں بندوں کو عطا فرمائی ہے.”
زیر بحث موضوع کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ رمضان المبارک میں روزہ رکھے بغیر روزے کا مزہ لینا چاہتے ہیں؛ چاہے وہ افطار کرکے ہو یا عید کے لیئے مختلف تیاریوں کے ذریعے ہو۔ عقلی طور پر بھی اگر ہم غور کریں تو یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آجائے گی کہ جو شخص دن بھر کھا تا رہے اسے افطار کرنے میں کیا مزہ آئے گا اور عید تو ہے ہی اس کے لیئے جو روزہ رکھے۔ علاوہ ازیں احکام شریعت کو توڑ نے کا جو وبال ہے، اس سے زندگی بھی بے کیف ہو جاتی ہے اور آخر ت بھی برباد۔ اس تعلق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے۔” (ترمذی)
بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ بلا کسی عذر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، جس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے، روزہ نہیں رکھتی ہے۔ مزید ستم یہ کہ یہ لوگ بغیر کسی شرم کے کھلے عام کھاتے پھرتے ہیں۔ایسے لوگ افطار و عید میں کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کے لیئے بے معنی ہیں۔ اس سلسلے میں بیداری لانے کی سخت ضرورت ہے اور روزے کے تعلق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو سامنے رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔چنانچہ رمضان المبارک کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ کا ایک اہم خلاصہ یہ ہے کہ سن 2ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے سن 11 ہجری تک یعنی دنیا سے پردہ فرمانے تک آپؐ نے کل 9 رمضان کے مہینوں میں روزے رکھے۔ آپ ﷺ کی حیات ِ طیبہ کے 9سال کے رمضان کے یہ روزے اُمت مسلمہ کے لئے اِس اعتبار سے عظیم سوغات ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے رمضان کے روزں کو دیکھا اور پرکھا اور پھر قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے منبعِ ہدایت سے رہنمائی لے کر روشنی کا ایک نہ بجھنے والا مینار قائم کردیا۔یقیناً خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اُس مینارہ نور سے روشنی حاصل کر کے رمضان کے روزوں سے اپنی دنیا و آخرت کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔