ہندوستان میں مسلمانوں کی حضرت آدم علیہ السلام سے آج تک کی تاریخ!
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ہندوستان وہ سر زمین ہے جہاں اللہ رب العزت نے نبی اول حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا۔یقینا احکم الحاکمین کا یہ فیصلہ اپنے اندر حکمتوں کا ایک عظیم خزانہ سموئے ہوئے ہوگا؛ کیونکہ اللہ رب العزت کا کوئی بھی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے سرزمین ہند میں اتارنے کے حوالے سے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو ہند کی زمین پر اتارا۔(الكتاب التاريخ،باب ذكر آدم عليه السلام،ج:2،ص: 591) اسی سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: "سب سے بہترین ہواسرزمین ہندوستان میں ہے،حضرت آدم وہیں پر اتارےگئے،اور حضرت آدم علیہ السلام نے وہاں جنت کاخوشبودار پودالگایا۔” (الكتاب التاريخ،باب ذكر آدم عليه السلام،ج:2،ص:592)
مذکورہ روایتوں سے جہاں ہندوستان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہندوستان قدیم ترین جگہوں میں سے ایک جگہ ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ موٴرخین کے اندازے کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو سات ہزار سال کے قریب زمانہ گذرا ہے۔ بہر حال، ہمارا مقصد یہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کو آشکارا کرنا ہے کہ اس سر زمین کو توحید کی روشنی نے ہزاروں سال پہلے منور کردیا تھا۔ لہذا یہاں کی بنیاد میں توحید پیوست ہے اور توحید کے متوالوں کے لیئے کوئی اجنبی جگہ نہیں ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کا سر زمین ہند میں اترنے کے بعد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرزمین عرب میں مبعوث ہونے سے پہلے تک کی تاریخ سرزمین ہند کے حوالے سے نا معلوم ہے۔ اس وجہ سے اس درمیان یہاں موجود توحید کے متوالوں کی کیفیت اور کمیت کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اگرچہ کچھ علماء نے بعد میں بھی یہاں نبیوں کے آنے کا ذکر کیا ہے۔حضرت مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی لکھتے ہیں: "یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر قوم کے لئے خدا نے کوئی ہادی اور ڈرانے والا بھیجا ہےاور اس لئے ممکن ہے کہ ہندوستان میں بھی کوئی نبی آئے ہوں۔” (تعلیم الاسلام) قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان میں بھی نبیوں کی آمد کا سلسلہ ضرور رہا ہوگا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ہم نے آپ کو حق دے کر خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی اُمت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی خبر دار کرنے والا نہ آیا ہو۔” (سورہ فاطر:24)
اب تک کی بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل ہندوستان میں بھی نبیوں کی تعلیمات کا وہی حشر ہوا جو دیگر نبیوں کی تعلیمات کے ساتھ ہوا۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنی کتاب آسان تفسیر میں لکھتے ہیں: "لوگوں نے ان کی تعلیمات میں ایسی ملاوٹ پیدا کردی کہ آج ان کا سراغ لگانا مشکل ہوگیا ہے، ہندو مذہبی کتابوں، جیسے ویدوں، پرانوں اور اپنشندوں وغیرہ میں نہ صرف توحید کے واضح احکام موجود ہیں ؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں واضح پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں اور آخرت کا تصور بھی ہے۔”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد ہندوستان میں پھر توحید کی شمع روشن ہوئی اور بندگان خدا نے فطرت کی آواز پر لبیک کہا۔ اس سلسلے میں مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں: "ہندوستان طائف اور اس کے قبیلہ بنو ثقیف کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا ہے، جس نے ہندوستان کو اپنی دینی و روحانی توجہ کا مرکز بناکر جب بھی اسے اقتدار ملا اس کی طرف رخ کیا، عہد فاروقی رضي الله تعالى عنه میں حضرت عثمان رضي الله تعالى عنه نے بحرین و عمان کی گورنری پاتے ہی اپنے بھائیوں حکم رضي الله تعالى عنه اور مغیرہ رضي الله تعالى عنه کو یہاں اسلام کی برکت دے کر روانہ کیا اور اُموی دورِ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے عراق کی گورنری پاکر، اپنے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم کو خلافت کے زیر اہتمام باقاعدہ اسلامی فوج کے ساتھ ہندوستان روانہ کیا”۔ (عہد نبوی کا ہندوستان)

ہندوستان میں توحید پر لوٹنے والوں نے تعلیمات نبوی کو اس طرح حرز جان بنایا کہ کثیر تعداد میں لوگ ان کے اخلاقیات سے متاثر ہوئے اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہ سلسلہ مسلسل آگے بڑھتا رہا یہاں تک مسلمان اس ملک کے حکمراں بھی بن گئے اور تقریبا نو سو سال تک مختلف شکلوں میں یہاں حکومت کی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی محمد ابن قاسم تھے اور آخری کڑی بہادر شاہ ظفر۔باالآخر مسلمان حکومتی اعتبار سےزوال کے شکار ہوئے اور انگریز اس ملک پر قابض ہوگئے لیکن مسمان عقیدہ توحید کو بچانے میں کامیاب رہے۔اس میں اہم کردار علمائے کرام کا تھا کہ انہوں نے ملک اور شریعت پر ڈاکہ ڈالنے والے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے ساتھ دینی تعلیم کے بقاء کی بھی جدو جہد کی اور ہندوستان بھر میں مدارس کا سلسلہ قائم فرمایا۔ ان علماء میں چند نمایاں نام یہ ہیں:
حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا شاہ اسحاق دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا نذیر حسین دہلوی، مفتی صدرالدین آزردہ، مفتی عنایت احمد کاکوری،مولانا فرید الدین شہید دہلوی، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، قاضی عنایت احمد تھانوی، قاضی عبدالرحیم تھانوی، حافظ ضامن شہید، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا احمد اللہ مدراسی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا رضی اللہ بدایونی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری،مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی رام پوری، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، مولانا سیف الرحمن کابلی، مولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا محمد میاں انصاری، مولانا عزیر گل پشاوری، مولانا حکیم نصرت حسین فتح پوری، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالمحاسن سجاد پٹنوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دہلوی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا نورالدین بہاری۔

1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور مسلسل کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو اس ملک ہندوستان میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں یہاں اپنے وجود کی تابناک اور روشن تاریخ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو اپنی اہمیت کا اندازہ اورذمے داریوں کا احساس ہوجائےگااور وہ بد خواہوں کی سازشوں، مکاریوں اور بزدلانہ حملوں سے آزردہ خاطر بھی نہیں ہوں گے۔