( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسمس دو الفاظ سے مرکب ہے ، ایک کرائسٹ ( Christ ) یعنی عیسی مسیح اور دوسرا ماس ( Mass ) یعنی چرچ کے رسم و رواج کے مطابق اجتماع ، اس طرح کرسمس کا مطلب یہ ہوا کہ چرچ کے رسم و رواج کے مطابق ایسا اجتماع جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ کو یاد کے طور پر منایا جائے ، اس طرح کرسمس ڈے کا مفہوم ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت کو یادگار کے طور پر منانے کی تقریب ، عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت 25/ دسمبر کو ہوئی ، چنانچہ اسی خوشی میں اس تاریخ کو وہ لوگ عید کے طور پر مناتے ہیں ، اس کو بڑا دن بھی کہتے ہیں ، یہ بڑا دن عیسائیوں کا بڑا تہوار ہے ، اس تاریخ کو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی سالگرہ منائی جاتی ہے ، گریگوری کلینڈر کے مطابق 24/ دسمبر کی رات سے کرسمس کی ابتداء ہوتی ہے اور 25/ دسمبر کی شام کو ختم ہوتا ہے ،جبکہ جولینی کلینڈر کے مطابق کرسمس 6/ جنوری کی رات کو شروع ہوکر 7/ جنوری کی شام کو ختم ہوتا ہے ، لیکن تمام مغربی ممالک میں 25/ دسمبر ہی کو کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے ، اس موقع پر مذہبی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں ، اس موقع پر دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے ، عیسائیوں کے تہواروں میں اس تہوار کو خاص اہمیت حاصل ہے ،
بھارت میں کرسمس کو دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ، عیسائیوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی اس میں حصہ لیتے ہیں ،گرچہ عیسائیوں کے یہاں یہ ایک مذہبی تہوار ہے ، مگر مذہب کے نام پر اس میں بہت سے رسم و رواج یہاںتک کہ اس میں خرافات بھی شامل کردیئے گئے ہیں ، چنانچہ خبر کے مطابق اس موقع پر شراب و کباب کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ، مذہب کے نام پر دیگر رسومات بھی کئے جاتے ہیں ، جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بغیر والد کے ہوئی ، ان کا کوئی باپ نہیں ہے ، اس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا ، اور اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت عیسی مسیح ع اللہ کے بیٹے ہیں ، جبکہ اللہ ان سب چیزوں سے پاک ہے ، نہ تو اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، وہ ایک ہے ، وہ بے نیاز ہے ، سب اس کے محتاج ہیں ، وہ کسی کا محتاج نہیں ، اس طرح عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے کر اللہ کے ساتھ شرک کے مرتکب ہوگئے ، جس سے مذہب اسلام منع کرتا ہے ،
مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے ، یعنی اللہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : قل ہو اللہ احد الخ، یعنی اللہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے ، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، اور کوئی اس کے برابر بھی نہیں ہے ( سورہ اخلاص )
کرسمس عیسائیوں کا تہوار ہے ، وہ لوگ اس کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مناتے ہیں ، اس کا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے ، اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنا تہوار مناتے ہیں ، ہر مذہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے ،
ہمارے ملک میں عیسائیوں کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے ، ہاسپیٹل اور چرچ ہیں ، ان میں شان و شوکت کے ساتھ اس تہوار کو منایا جاتا ہے ، ان اداروں سے مسلم سماج کے لوگ بھی وابستہ ہیں ، جیسے اسکول اور کالج میں بڑی تعداد میں مسلم طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ہاسپیٹل میں ڈاکٹر اور ملازمین میں بھی بہت سے مسلم سماج کے بھی ہوتے ہیں ، جب اسکول و کالج کا فنکشن ہوتا ہے ،یا ہاسپیٹل میں کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے ، تو وہاں کے اسٹاف اور ملازمین کے لئے دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے ، وہ تذبذب کی حالت میں رہتے ہیں ، بہت سے قومی یک جہتی کی رعایت کرتے ہوئے شرکت بھی کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دین کے سلسلہ میں ضروری معلومات حاصل کرلیں ، تاکہ شریعت کے حدود کی خلاف ورزی نہ ہو
اسلام مکمل دین ہے ، اس میں زندگی گزارنے کے تمام اصولوں کی جانب رہنمائی موجود ہے ، اس لئے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارے ، ایسی باتوں سے بچے ،جو مذہب اسلام کے عقائد اور اس کی شریعت کے خلاف ہو ،
ہمارا ملک بھارت مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے ، یہ ملک قومی یک جہتی کا علمبردار ہے ، پیار و محبت اور آپسی میل و محبت یہاں کے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس لئے مذہبی رواداری کے پیش نظر ایک دوسرے کے تہوار میں حصہ لینے کی روایت ملتی ہے ، مگر ایسی روایت نہیں ملتی کہ مذہبی رواداری کی حدود کی کبھی خلاف ورزی کی گئی ہو ، موجودہ وقت میں بھارت میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے تہوار میں حصہ لیتے ہیں ، مسلم سماج کے لوگ بھی قومی یک جہتی کی بنیاد پر دوسرے کے تہوار میں حصہ لیتے ہیں ، تو ایسے موقع پر انہیں قومی یک جہتی اور مذہبی رواداری کے حدود کی رعایت ضروری ہے ، اگر مذہبی معلومات حاصل نہ ہوں ، تو ضروری معلومات حاصل کرلیں ، تاکہ مذہبی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو ، یہ معاملہ صرف کرسمس کا نہیں ہے ، بلکہ برادران وطن کے بہت سے تہوار ہیں ، جس میں اس طرح کے مسائل کی ضرورت پیش آتی ہے ، اس لئے ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم شرعی حدود کے سلسلہ میں ضروری معلومات وقت سے پہلے حاصل کرلیں ، تاکہ کوئی دشواری پیش نہ آئے ، اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو توفیق عطا فرمائے