اسلام میں خواتین کا مقام
از: ابوجعفر فاروقی
قرآن مقدس کی متعدد آیات اور مختلف احادیث یہ واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں اور معاشرہ میں ان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جانا چاہیے، جس سے ایک منصفانہ اور متوازِن معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر کائنات انسانی کی ہر شے پھیکی اور ماند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے مگر عورت اپنی ذات میں ایک تنآور درخت کے مانند ہے، جو ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے اسی عزم و ہمت، حوصلے اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھادیا۔
حضرت حواء علیہ السلام سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی میں موجود ہے، جن میں حضرت سارہ علیہا السلام ، حضرت ہاجرہ علیہا السلام ، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، اُمّ موسیٰ حضرت مریم ، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنھا ، حضرت خَنساء رضی اللہ عنھا اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
تاریخ اسلام میں مسلم خواتین نے اپنی بہترین اور مثالی کردار سے بعض دفعہ مردوں کوبھی پیچھے چھوڑدیا، یہاں تک کہ تاریخ نے انکو قیامت تک آنے والی تمام خواتین کےلئے آئڈِیَل اور نمونہ کے طور پر پیش کرتےہوئےمردوں کی صفوں سے بھی آگے کھڑا کردیا۔
اس مضمون میں چند مثالی خواتین کا تذکرہ کیا جائیگا جن کےمثالی کردار نے اپنے اپنے دور میں انقلاب پیداکر کے آنے والے دور کے لئے بہترین سبق چھوڑا ہے۔
حضرت ہاجرہ کا جذبۂ اطاعت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فرمانبردار بیوی حضرت ہاجرہ جنہوں نے اللہ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں بے آب وگیاہ وادی میں رہنا قبول کرلیا تھا پھر جب وہ ننھے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے ،پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں تو اللہ نے ان کی فرمانبرداری اور خلوص کی قدر کرتے ہوئے، ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کے لیے تمام مردوں اور عورتوں پر لازم کردی۔
مثالی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی مومنہ خاتون اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں جنہوں نے اسلام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دی۔ حضرت خدیجہ ایک معزز اور مالدار خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے معاشرتی مرتبے کی پرواہ کئے بغیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے مدد کی اور ان کی دعوت میں ساتھ دیا۔
حضرت خدیجہ نے اپنے مال و دولت کو اسلام کی ابتدائی دعوت کے لئے وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنا تمام مال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا تاکہ اسلام کا پیغام پھیل سکے۔
انہوں نے اپنے خاندان اور اپنی زندگی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دین اسلام کی حمایت میں وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنی ذات، عزت اور راحت کی پرواہ نہیں کی۔
حضرت خدیجہ کی محبت، وفاداری، اور ایمان کی مثالیں ان کی قربانیوں میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر مشکل وقت میں تسلی دی اور ان کے کام کو تقویت بخشی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ان قربانیوں نے اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں اور آپ کی مثال، ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہے گی۔ اسلام کی حفاظت کرنے اور پھیلانے میں ایک عورت ہوکر بھی حضرت خدیجہ نے بڑے بڑے مردوں کو پیچھے کردیا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور ان کو تسلی دینا، ان پر اپنا مال خرچ کرنا، ان کے ساتھ شعب ابی طالب میں رہنا اور بھوک و پیاس برداشت کرنا، یہ ان کی خصوصیات تھیں، اس خصوصیت کو ہم بھی اور ہماری عورتیں بھی اختیار کریں کہ اپنا مال دین پر خرچ کریں اور دین کے راستے میں بچے اور بچیوں پر تکلیف آئے یا شوہر پر تکلیف آئے تو ان کو حوصلہ دیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے 2,210 سے زائد احادیث روایت کیں۔ بہت سےبڑے بڑے صحابہ بھی علمِ حدیث میں آپ کی برابری نہیں کرسکے۔
حضرت عائشہ فقہ کے علم میں گہری مہارت رکھتی تھیں۔ بہت سے صحابہ کرام اور تابعین ان سے فقہی مسائل پوچھنے آتے تھے اور ان کی رائےکو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
قرآن مجید کی تفسیر میں بھی حضرت عائشہ کا کردار نمایاں ہے۔ انہوں نے بہت سے مقامات کی تفسیر کی اور قرآن کے احکام اور مسائل کو واضح کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی علمی اور دینی رہنمائی کرتی تھیں۔ جب بھی کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا یا کوئی مشکل پیش آتی تو ان سے رجوع کیا جاتا۔
حضرت عائشہ نے بہت سے مرد و خواتین کو تعلیم دی اور ان کی تربیت کی۔ ان کی شاگردی میں رہنے والے صحابہ اور تابعین بعد میں بڑے عالم بنے۔
آپ کی علمی خدمات اور ان کا مقام اسلامی تاریخ میں ایک عظیم ورثہ ہے۔ ان کی شخصیت علمی اور دینی میدان میں ایک مثال ہے اور ان کی روایات و اقوال آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
خلاصہ یہ کہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنھا ایک عورت ہوکر بھی ایک مفسرہ ایک محدثہ ایک مفتیہ ایک فقیہ اور سینکڑوں صحابہ و صحابیات کی معلمہ و استانی تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بےمثال حیا
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیا کا ایک مشہور واقعہ ان کی وفات کے وقت کے بارے میں ہے۔ اس واقعے سے ان کی حیاداری اور تقویٰ کی اعلیٰ مثال سامنے آتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہا کہ جب وہ وفات پا جائیں تو وہ چاہتی ہیں کہ ان کا جسم کسی غیر محرم کی نظر سے بچا رہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فکر تھی کہ ان کی میت کو عام طریقے سے اٹھانے پر ان کا جسم لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہو۔
حضرت اسماء بنت عمیس نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حبشہ میں ایک طریقہ دیکھا تھا جس میں عورت کی میت کو کھجور کی شاخوں سے بنے ایک ڈھانچے میں رکھا جاتا ہے جسے "تابوت” کہتے ہیں۔ اس طریقے سے میت کا جسم ڈھانپ دیا جاتا ہے اور وہ نظر نہیں آتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس طریقے کو پسند کیا اور کہا کہ ان کے وفات کے بعد اسی طرح ان کی تدفین کی جائے۔
اس واقعے سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیا کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے بعد بھی اپنی حیا کا دھیان رکھا۔ ان کی یہ مثال مسلمان ماؤں بہنوں کے کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے کہ شرم و حیا کا خیال ہر حال میں رکھنا چاہیے، چاہے اسکول ہو یا کالج ، بازار ہو یا گلی کوچہ حتی کہ اپنے گھر میں بھی رہیں تو اگر جوائنٹ فیملی میں ہیں تو حیا کا پردے کا اور اپنی عزت و آبرو کا خاص اہتمام کریں ۔
سیدہ اُمِّ شَریک رضی اللہ عنھاکا صبر و استقلال
سیدہ ام شریک رضی اللہ عنھاایمان لائیں؛ تو ان کے اعزہ واقرباء نے ان کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کردیا ۔ اسی حالت میں تین دن گزر گئے؛ تو ظالموں نے کہا کہ جس دین پر تم ہو اب اس کو چھوڑ دو ۔وہ اس قدر بدحواس ہوچکی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ جب انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھیں کہ یہ ظالم ہم سے توحید کا انکار کروانا چاہتے ہیں تو ام شریک کہنے لگیں خدا کی قسم میں اب بھی اسی پر قائم ہوں۔
حضرت اُمِّ عَمّارہ رضی اللہ عنھاکی شجاعت
حضرت نُسَیْبَہ بنت کعب رضی اللہ عنہاجنکو اُم عمارہ بھی کہاجاتاہے جن کی شجاعت کا ایک مشہور واقعہ جنگ اُحد سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ ان کی بہادری اور جرات کی عکاسی کرتا ہے۔
جنگ اُحد 3ہجری (624 عیسوی) میں پیش آئی، اور اس میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے دوران جب مسلمانوں پر حملہ ہوا اور شکست کے آثار نظر آنے لگے، حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر، دو بیٹوں، اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا۔
جب مسلمانوں کے صفوں میں افرا تفری پھیل گئی اور دشمن نے حملہ کیا، حضرت ام عمارہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے خود کو سامنے رکھا۔ وہ جنگ میں زخمی ہوئیں اور ان کی بہادری کی بدولت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان محفوظ رہی۔ ان کی یہ قربانیاں اور بہادری اسلامی تاریخ میں قیامت تک آنےوالی تمام خواتین کےلئےمثال بن کر رہیگی۔
حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنھاکی طبی خدمات
حضرت شفاء بنت عبداللہ کا تعلق قریش کے معزز خاندان سے تھا، اور ان کی طبی مہارت کا احترام پورے عرب میں تھا۔ ان کے طبی علاج اور مشورے کو علمی اور عملی دونوں پہلوؤں سے سراہا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحابیہ ہونے کے ناطے، حضرت شفاء رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام کی طبی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے طبی تجربات اور مشورے اس دور میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ دنوں کے لیے ناساز ہوئی، تو حضرت شفا بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج میں اہم کردار ادا کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے اپنی طبی مہارت بھر پور کا استعمال کیا۔
انہوں نے اپنے علم و تجربات کی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج کے لیے مختلف طبی تدابیر اور دوائیں تجویز کیں۔ ان کی تجویز کردہ دوائیں اور علاج کے طریقے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہوئے۔
دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والی عورت فاطمہ الفہری جنکی پیدائش تقریباً 800 عیسوی میں ہوئی۔ فاطمہ الفہری نے 859 عیسوی میں، مراکش میں "القرطبہ یونیورسٹی” کی بنیاد رکھی، جو دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔ ان کی بنیاد رکھی گئی یونیورسٹی نے تعلیم اور علم کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ادارے میں اسلامی علوم، فلسفہ، سائنس، اور دیگر موضوعات پر تعلیم دی جاتی تھی۔
فاطمہ الفہری کی یہ کوششیں اور کارنامے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ دنیا بھر میں تمام عورتوں کےلئےایک مثال ہیں۔ ان کی علمی خدمات اور تعلیمی اداروں کی بنیاد سے ان کی اہمیت تاریخ میں ہمیشہ قائم رہے گی۔
خلاصہ یہ کہ عورتوں نے ہردور میں اپنا بہترین کردار نبھایاہے چاہے قرآنی علوم ہوں یا حدیث و طب کاعلم ، جنگ میں شجاعت و بہادری ہو یا تجارت و سخاوت ،غرض کہ اسلام میں عورتوں نے اپنی بےمثال قربانیوں کااثر چھوڑاہے جو رہتی دنیا تک کی تمام خواتین کے لئے ایک مثال ہے۔
اسلام نے عورت کو عزت و احترام کا مقام دیا ہے۔ اس کو ماں بنا کر جنت کا سرچشمہ،بہن بنا کر ایثار و قربانی ،محبت اور الفت کا پیکر،بیٹی بنا کراللہ کی رحمت کا عملی اظہاراوربیوی بنا کر راحت و سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے، آج کے معاشرے کو پھر ان عظیم خواتین جیسی باکردار بےمثال اور دلیر وبہادر خواتین کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ پھر سے اپنے صحیح رخ اور درست ڈَگَر پر چل پڑے۔