رسم و رواج کے اسیر نسبتا ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں!
مدثر احمد قاسمی
وہ رسم و رواج جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہ ہو، پائیدار خوشی اور قلبی اطمینان کی وجہ نہیں بن سکتے۔اس وجہ سے کہ اگر وہ شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہیں تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور ایک حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حمدوثنا اور صلوۃ و سلام کے بعد، سب سے بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم) ہر صاحب عقل بآسانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ گمراہی والے اعمال نہ ہی حقیقی خوشی دے سکتے ہیں اور نہ ہی قلبی سکون۔
جب ہم گمراہی کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ جہالت ہے۔انسانی سماج کا یہی وہ عنصر ہے جس نے ہر زمانے میں انسانوں کو گمراہ کیا ہے اور پھر وہ رسم و رواج کے جال میں پھنستے گئے ہیں۔ اس باب کا ہمیشہ سے ایک عجیب و غریب پہلو یہ رہا ہے کہ جہالت اور گمراہی کو کچھ نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور اس طبقے کا واحد مقصد مال اور جاہ و جلال کا حصول رہا ہے۔ ایسے ہی گمراہی کو ہوا دینے والے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں مندرجہ ذیل تفصیل موجود ہے:
"جس دن ان کے چہرے دوزخ میں اُلٹا دیئے جائیں گے، اس دن وہ کہیں گے : اے کاش ! ہم نے اللہ کی اوراس کے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی۔اور وہ کہیں گے : اے ہمارے پررودگار ! ہم نے تو اپنے سرداروں اور بڑوں کی مان لی تھی ، تو انھوں نے ہی ہمیں گمراہ کردیا تھا۔ پروردگار ! آپ ان کو دوہرا عذاب دیجئے اور ان کو خوب پھٹکاریئے۔” (سورہ احزاب: 66,67, 68)
رسم و رواج کے معاملے میں گمراہی کی وجہ جو بھی ہو، گمراہ ہونے والوں کو دوہرا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک نقصان تو دنیاوی ہے کہ رسم و رواج کا بوجھ انسان کی زندگی کو بوجھل بنا دیتا ہے اور وہ حقیقی خوشی اور اطمینان کو ترستے ہیں۔ دوسرا نقصان جو کہ بڑا نقصان ہے وہ آخرت کی زندگی کا نقصاں ہے۔ ہر شخص کو اپنی گمراہی کے بقدر سزا کا سامنا ہوگا, جس کی سختی کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے۔
رسم و رواج کے اسیر لوگوں کا جب ہم دنیاوی ترقیاتی جائزہ لیتے تو ہم یہ پاتے ہیں کہ عموما وہ لوگ جو مذہب کے نام پر بد عقیدگی کے شکار ہوتے ہیں اور بے بنیاد چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں وہ نسبتا ترقی میں دوسروں سے پیچھے ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کے بعد بھی وہ اپنی زبوں حالی کے اسباب پر سنجیدہ غور نہیں کرتے اور نسل در نسل رسم و رواج اور گمراہی کی وراثت کو آگے بڑھاتے ہیں۔
رسم و رواج کے تعلق سے ایک اہم بات ہمیں یہ سمجھنی چاہیئے کہ ہم آنکھ بند کرکے اس پر عمل کر نے کے بجائے اس کو ہہلے شریعت کی کسوٹی پر پر رکھیں؛ اگر اس کی بنیاد ہمیں شریعت کے ماخذ میں مل جائے تو ہم اسے اپنا لیں، بصورت دیگر اس سے جان چھڑائیں اور صحیح راستے کو اپنائیں۔
رسم و رواج اور گمراہی کے تعلق سے ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ جاننے کے باوجود محض اپنے آس پاس کے لوگوں کے دباؤ میں یا رسم و رواج کو چھوڑنے پر طعنہ سننے کے ڈر سے بھی اپنے آپ کو گمراہی سے آزاد نہیں کراپاتے۔ ایسے لوگوں کی گمراہی اس وجہ سے بھی زیادہ قابل مواخذہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ایک اصول بنالیں کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس کی اصل کتاب وسنت میں نہ ہو،جو صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو؛ نہ قولا، ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً اورنہ اشارۃً۔