اردو ادب کے حوالے سے علماء کرام کی خدمات

Eastern
11 Min Read
146 Views
11 Min Read

از: مولانا محمد برہان الدین قاسمی

ڈائریکٹر مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ایڈیٹر ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

نوٹ: یہ ایک مقالہ ہے جسے مضمون نگار نے ممبئی میں ہوئے چھبیسواں  قومی اردو کتاب میلہ  میں ‘علما کا اردو ادب’ کے عنوان پرایک پروگرام میں پیش کیاتھا، اسے ہوبہویہاں پیش کیاجارہاہے۔

معزز علمائے کرام و دانشوران عظام!

ہم خدام مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ آج ہمیں اردو زبان کے تعلق سے اس خوبصورت اور منفرد پروگرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ اس کے لئے ہم منتظمین کے شکر گزار ہیں۔

معزز حاضرین! چونکہ آج کا موضوع علماء کا اردو ادب ہے، اس وجہ سے میں اپنی بات کا آغاز اس شعر سے کرنا چاہتا ہوں کہ:

پوچھئے حضرتِ حالی سے وقارِ اردو

خیمہ زن باغ میں شبلی کے بہار اردو

معزز حاضرین!

اردو زبان و ادوب کے چمن کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے جہاں عصری درسگاہوں سے تعلیم یافتہ حضرات نے اپنی خونِ جگر سے سینچا ہے اور مسلسل اس کو پروان چڑھا نے کے عمل میں لگے ہوئے ہیں وہیںدینی درسگاہوں کے فضلاء نے اسے ایک پائیدار اور مستند مقام عطا کیا ہے اور مستقل اس زبان کے لئے اپنی بے لوث خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اس زبان کے قدردانوںکے لئے یہاںیہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو و زبان و ادب کی خدمات کے حوالہ سے مدارس اور عصری درسگاہوں کے الگ الگ کردار ہیں اور یہ دونو ہی کردار اس زبان کی نشو و نما اور ارتقاء میں ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔عصری درسگا ہوں میں جہاں اردو زبان و ادب کو نصابی شکل دیکر ایک خاص مقام عطا کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر یہاں کے فضلاء منظم شکل میں اس زبان کے نگہبان بنے ہوئے ہیں اور اس زبان کو اپنا کر ان میں سے کچھ افراد با عزت روزگار سے بھی جڑے ہوئے ہیں، وہیں دینی مدارس میں اگرچہ اردو زبان صرف ابتدائی درجوں میں داخلِ نصاب ہے لیکن ہند و پاک کے ۹۹؍فیصد سے بھی زائد مدارس میں ابتدائی درجوں سے لیکر عالمیت و فضیلت تک اور اس کے بعد افتاء،تفسیر اور دیگر تخصصات کی جماعتوں میں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہے،اسی وجہ سے مدارس کے اساتذہ طلباء کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے ہر درجہ میں اردو زبان کو افہام و تفہیم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مدارس میں پڑھائے جانے والے تمام فنون کا ذریعہ تعلیم اردو ہے وہیںدنیا بھر میں جہاں کہیں بھی برِ صغیر کے لوگوں کے مدارس ہیں چاہے افریقہ میں ہوں یا یورپ میں وہاںبھی کسی نہ کسی درجہ میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔

معزز سامعین!

اگر خالص ادبیات کی بات کی جائےتو فضلائے مدارس میں اچھی خاصی تعداد ادیبوں اور شاعروں کی مل جائے گی چنانچہ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے جہاں غبارِ خاطر میں اردو ادب کو ایک انوکھی اور نئی بلندی عطا کی ہے وہیں مولانا مناظر حسن گیلانیؒ نے النبی الخاتم میں اردو ادب کو ایک خوبصورت اسلوب عطا کیا ہے اور ماضی قریب کا ایک نمایا نام مولانا نور عالم خلیل امینی کا ہے، آں موصوف نے ـوہ کوہ کَن کی بات میں سوانحی ادب کا شاہکار پیش کیا ہے۔ فضلائے مدارس کے درمیان صاحبِ دیوان شاعروں کی بھی متعدد بہ تعداد موجود ہے۔ماضی میں  اردوزبان و ادب کے فروغ اور پوری دنیا میں اردو کی ترویج و اشاعت میں جن علماء نے بے پایاں خدمات سر انجام دیں، ان کا شمار تو شاید ممکن نہیں، لیکن ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتویؒ، (یہ فی البدیہہ شاعر بھی تھے)، مولانا یعقوب نانوتوی ؒ(بیاضِ نانوتوی، شعری مجموعہ)، مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ(ہمہ جہت شخصیت تھے، انہوں نے کمال کا ذوق پایہ تھا، وہ نہایت عمدہ شاعر بھی تھے )، علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ ان کی دینی خدمات سے کون واقف نہیں؟ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ چلتی پھرتی لائبریری ہیں (انہوں نے ۱۵۰۰۰ اشعار کہے)، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ (آپ نثر کی ایک خاص طرز کے موجد بھی ہیں)، شیخ الادب مولانا اعزاز علی ؒ، مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ، مفتی عتیق الرحمٰنؒ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مولانا احسان اللہ تاجورؒ، مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولوی عبدالحقؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ، علامہ شبلی نعمانی ؒ، مولانا محمد حسین آزادؒ، مولانا حالی ؒ، مولانا حسر ت موہانی ؒ، مولانا مملوک علی ؒ، مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ، مولانا محمد علی جوہر ؒ، مولانا منظور احمد نعمانی ؒ، مولانا سید بد ر عالم میرٹھیؒ، مولانا ادریس کاندھلوی ؒ، مولانا شمس الحق افغانی ؒ، مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ، مولانا زکی کیفیؒ (کیفیات)، جناب ولی رازی صاحب (اردو میں سیرت کی پہلی غیر منقوط کتابـ ــ’’ہادیِ عالم‘‘ کے مصنف ) وغیرہ، شامل ہیں۔

وہ تو آباد رکھا ہم نے جہان اردو

ورنہ تم کب کا مٹا دیتے نشان اردو

ہم پہ تم فخر کرو ہند کے رہنے والو

ہم سے قائم ہے زمانے میں نشان اردو

معزز حاضرین!

اردو زبان و ادب کی خدمت میں صحافت کا امتیازی کردار رہا ہے،یہ صحافت کی ہی دنیا ہے جس کے ذریعہ اس زبان کے ہر صنف کو نمائندگی ملتی ہے۔چنانچہ اردو صحافت کے میدان میںبھی فضلائے مدارس نے کلیدی رول ادا کیا ہے ، الہلال، نئی دنیا ،متاعِ آخرت کے بانئین سے لیکربصیرت آن لائن اور ملت ٹائمز کے بانئین تک علماء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو صحافت میں فعال کردار اداکیاہے۔اگر فضلا ئے مدارس کے درمیان صحافتی قلمکاروں کی بات کی جائے تو مولانا عبد الماجددریابادیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اورمولاناقاضی اطہر مبارکپور یؒ سے لیکر اس زمانہ میںمولانا خالدسیف اللہ رحمانی، مولانا ندیم الوجدی، حقانی القاسمی اور مولانا مدثر احمد قاسمی وغیرہم تک اَن گنت افراد ہیں جنہوں نے اردو صحافت کو اپنی تحریروں کے ذریعہ انمول بنایا ہے۔ مدارس کے صحافتی کردار کے حوالہ سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر بڑے مدارس سے ماہنامے اور رسالے شائع ہوتے ہیں جن کے مدیراور قلمکارعلماء ہی ہوتے ہیں۔ میرا یہ دعویٰ حقیقت کی عکاس ہے کہ آج کے تمام ہندوستانی اخبارات فضلائے مدارس کی خدمات سے گراں بار ہیں۔اکثر اردو اخبارات میں فضلائے مدارس جہاں اہم عہدوں پر فائز ہیں وہیں فضلائے مدارس کی نئی کھیپ نے اردو صحافت کو وقت شناس پُر جوش قلم کے تحفہ سے نوازا ہے۔ میں نے تحفہ کا تذکرہ اس حقیقت کے اعتراف میں کیا ہے کہ اردو صحافت میں نوجوان قلمکاروں کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا ،حالانکہ ان کی تحریریں انمول ضرور ہوتی ہیں لیکن بے مول نہیں۔

مولانا محمد برہان الدین قاسمی
مولانا محمد برہان الدین قاسمی

معزز حاضرین!

کسی زبان کی ترویج و اشاعت میں تقریرو خطابت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،فن خطابت کے ذریعہ جہاں بلاواسطہ مقرر و خطیب سامعین کو کوئی خاص پیغام دیتے ہیں وہیں ان کی سماعتوں کو زبان و ادب کی حلاوت سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ فضلائے مدارس نے فنِ خطابت کے ذریعہ جو اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دی ہیں وہ لاثانی ہے۔ بشمول مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے، فضلائے مدارس کی ایک ایسی کھیپ ہے جنہوں نے اپنی خطابت میں ادبی فقرے،محاورے،اصطلاحات اور بر محل شعری استعمال کا ایک زبردست نمونہ پیش کیا ہے۔

معزز حاضرین!

میں اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے بس یہ کہنا چاہونگا کہ فضلائے مدارس نے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کی جوخدمات انجام دی ہیں وہ اس زبان کی فروغ کے لئے حکومتی تعاون سے چلائے جارہے اداروں سے کم نہیں ہے۔ ہاں یہ سچائی ہے کہ ان کی خدمات کو حکومتی سطح پر اور اردو زبان و ادب کے ادروں کے ذریعہ وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔اردو زبان و ادب میں خدمت کے لئے ایوارڈ بھی دئے جاتے ہیں لیکن یہ فضلائے مدارس اپنی گرانقدر خدمات کے باوجود اس طرح کےایوارڈ سے ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔اردو زبان و ادب سے وابستہ افراد اگر حقیقتاً اردو سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ فضلائے مدارس کی خدمات کو بھی سراہیں اور ان کی خدمات پر مشتمل تحقیقاتی مواد کو منظرِ عام پر لائیں۔

آغوش والدہ میں پالا تھا ہم کو جس نے

اک پیکر ادب میں ڈھالا تھا ہم کو جس نے

جس نے ہے ابتدا سے ہر زندگی سنواری

وہ مادری زباں ہے اردو زباں ہماری

بہت بہت شکریہ!

وما علینا الا البلاغ!

بموقع: ۲۶؍ واں قومی اردو کتاب میلہ، ممبئی ۶؍ تا ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۴ء

باہتمام: قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

فلسطین: قبضہ اور مزاحمت

فلسطین: قبضہ اور مزاحمت مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی کی تازہ تصنیف…

Eastern

قربانی کی حقیقت اور اس کا معاشرتی پہلو

قربانی کی حقیقت اور اس کا معاشرتی پہلو از: خورشید عالم داؤد…

Eastern

اسلامی تعلیمات اور ماحولیاتی توازن: ایک فکری و عملی جائزہ

اسلامی تعلیمات اور ماحولیاتی توازن: ایک فکری و عملی جائزہ از: محمد…

Eastern

غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ اور عالمی خاموشی

غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ اور عالمی خاموشی ازـــــــ خورشید عالم…

Eastern

غزہ میں امدادکی ترسیل: امریکہ اور اسرائیل میں تناؤ

غزہ میں امدادکی ترسیل: امریکہ اور اسرائیل میں تناؤ تحریرـــــ خورشید عالم داؤد…

Eastern

قوم کے محسن حضرت مولانا وستانویؒ کی قابل قدر خدمات 

قوم کے محسن حضرت مولانا وستانویؒ کی قابل قدر خدمات  ازـــــ خورشید عالم…

Eastern

Quick LInks

میڈلین جہاز پر صہیونی یلغار اور کارکنوں کا اغوا

از: خورشید عالم داؤد قاسمی فریڈم فلوٹیلا کولیشن : "فریڈم فلوٹیلا کولیشن…

Eastern

فلسطین: قبضہ اور مزاحمت

فلسطین: قبضہ اور مزاحمت مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی کی تازہ تصنیف…

Eastern

قربانی کی حقیقت اور اس کا معاشرتی پہلو

قربانی کی حقیقت اور اس کا معاشرتی پہلو از: خورشید عالم داؤد…

Eastern