اردو اجنبی نہیں، اسی سرزمین کی پیداوار ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ — سائن بورڈ پر اس کے استعمال کی اجازت
زبان کسی مذہب نہیں، قوم یا برادری سے تعلق رکھتی ہے: سپریم کورٹ (اکولا کیس)
نئی دہلی، 16 اپریل — اننتا کرشنن جی (انڈین ایکسپریس، مورخہ، اپریل 16، 2025)
ترجمہ: ڈاکٹر محمد سعید انور
مہاراشٹرا میں ایک میونسپل کونسل کی عمارت پر سائن بورڈ میں اردو کے استعمال کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے منگل کے روز کہا کہ زبان ثقافت کی نمائندہ ہوتی ہے ،اسے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کا ذریعہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اردو “گنگا-جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کی بہترین مثال ہے”۔جسٹس سدھانشو دھولیا اور کے ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت سے انکار کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مہاراشٹرا لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ 2022 یا کسی اور قانون کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ایک سابق کونسلر نے اکولا ضلع کی پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے ایک درخواست دائر کی تھی۔
عدالت نے کہا: "ہمارے تعصبات یا غلط فہمیاں، جو شاید کسی زبان کے خلاف ہماری پرانی رائے پر مبنی ہوں، انہیں سچائی کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے، اور ہماری قوم کی حقیقت عظیم تنوع میں مضمرہے۔لہذاہماری طاقت ہماری کمزوری نہیں بن سکتی۔ آئیے اردو اورملک کی ہر زبان سے دوستی کریں۔”عدالت نے کہا کہ یہ ایک "غلط فہمی” ہے کہ اردو بھارت کے لیے اجنبی زبان ہے، اور مزید کہا کہ "یہ ایک ایسی زبان ہے جو اسی سرزمین میں پیدا ہوئی”۔بینچ کی طرف سے لکھتے ہوئے، جسٹس دھولیا نے اردو اور عمومی طور پر زبانوں سے متعلق بینچ کے خیالات کی وضاحت کی۔ فیصلے میں کہا گیا:” زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان ایک قوم، ایک خطے اور ایک برادری سے تعلق رکھتی ہے، نہ کہ کسی مذہب سے۔”
فیصلے میں مزید کہا گیا: "زبان تہذیب ہے۔ زبان ایک پیمانہ ہے جس سے کسی قوم اور اس کے عوام کی تہذیبی پیش رفت کو ناپا جاتا ہے۔ اردو بھی اسی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جو گنگا-جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کی بہترین مثال ہے، جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانوں کی مشترکہ ثقافتی روح ہے۔”جسٹس دھولیا نے کہا:”زبان کے استعمال کا ابتدائی اور بنیادی مقصد تعلیم نہیں بلکہ بات چیت ہے۔ یہاں اردو کے استعمال کا مقصد صرف ابلاغ (Communication) ہے۔ میونسپل کونسل صرف مؤثر انداز میں بات پہنچانا چاہتی تھی، اور یہی زبان کا بنیادی مقصد ہے، جس پر بمبئی ہائی کورٹ نے زور دیا۔”

عدالت نے کہا: "ہمیں اپنی تنوعات کا احترام اور جشن منانا چاہیے، بشمول ہماری بے شمار زبانوں کے۔ بھارت میں سو سے زائد بڑی زبانیں ہیں، اور پھر وہ زبانیں بھی ہیں جو بولیوں یا ‘مادری زبانوں’ کے طور پر جانی جاتی ہیں، جن کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں کل 122 بڑی زبانیں تھیں جن میں 22 سرکاری زبانیں شامل تھیں، اور 234 مادری زبانیں تھیں۔ اردو بھارت کی چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی سرکاری زبان تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان تقریباً تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کسی نہ کسی حد تک بولی جاتی ہے، شاید شمال مشرقی ریاستوں کے سوا۔”
عدالت نے مزید کہا: "2011 کی مردم شماری میں مادری زبانوں کی تعداد بڑھ کر 270 ہو گئی۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اس تعداد میں صرف وہ زبانیں شامل کی گئیں جن کے بولنے والے دس ہزار سے زیادہ تھے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت میں مادری زبانوں کی اصل تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہی بھارت کی زبردست لسانی تنوع کی مثال ہے۔”
عدالت نے کہا: "اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی سے پیدا ہوا کہ اردو بھارت کے لیے اجنبی زبان ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ یہ رائے درست نہیں، کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح ایک ہند-آریائی زبان ہے۔ یہ زبان اسی سرزمین میں پیدا ہوئی۔ اردو نے بھارت میں ان لوگوں کی ضرورت کے تحت ترقی کی جو مختلف ثقافتی پس منظر سے تھے اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ صدیوں کے دوران اردو نے عظیم نفاست حاصل کی اور کئی مشہور شعرا کی پسندیدہ زبان بن گئی۔”عدالت نے نشاندہی کی کہ زبان سے متعلق بحث آزادی سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا:”بہت سے بھارتیوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ زبان جو ہندی، اردو اور پنجابی جیسی متعدد بھارتی زبانوں کے اختلاط سے بنی ہے، ‘ہندوستانی’ کہلاتی ہے، اور یہ ملک کے ایک بڑے حصے کی بولی ہے۔”
عدالت نے مزید کہا: "جواہر لعل نہرو نے تسلیم کیا کہ ‘ہندوستانی’ لازماً ملک گیر ابلاغ کا ذریعہ بنے گی کیونکہ اسے ملک کے بیشتر لوگ بولتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے صوبائی زبانوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا اور کہا کہ مقصد یہ نہیں کہ صوبائی زبانوں کو ختم کر کے ہندوستانی کو لاگو کیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے ہندوستانی کو لازمی دوسری زبان کے طور پر اپنانے کا تصور پیش کیا۔”
عدالت نے کہا: "یہ واضح ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران ملک نے ہندوستانی کو قومی زبان کے طور پر اپنانے کی طرف قدم بڑھایا تھا، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اور اب یہ بات واضح ہے کہ اس کی بنیادی وجہ 1947 میں ملک کی تقسیم اور پاکستان کی طرف سے اردو کو قومی زبان کے طور پر اپنانا تھا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ہندوستانی زبان کو ہوا۔”عدالت نے کہا:
"آئین کے آرٹیکل 343 کے تحت ہندی سرکاری زبان ہے، جب کہ انگریزی کے استعمال کی اجازت 15 سال کے لیے دی گئی تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستانی اور اردو ختم ہو چکی ہیں۔ آئین سازوں کی نیت کبھی بھی یہ نہ تھی۔”فیصلے میں مزید کہا گیا:”آج بھی ملک کے عام لوگ جو زبان بولتے ہیں، وہ اردو الفاظ سے بھرپور ہے، چاہے انہیں اس کا ادراک نہ ہو۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کوئی بھی روزمرہ کی بات چیت ہندی میں اردو الفاظ کے بغیر نہیں کر سکتا۔ خود لفظ ‘ہندی’ فارسی کے لفظ ‘ہندوی’ سے آیا ہے۔ یہ تبادلہ دو طرفہ ہے، کیونکہ اردو میں بھی سنسکرت سمیت کئی بھارتی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔”
عدالت نے کہا: "اردو الفاظ عدالتی زبان پر بھی گہرا اثر رکھتے ہیں، چاہے وہ فوجداری ہو یا دیوانی قانون۔ عدالت، حلف نامہ، پیشی جیسے الفاظ اردو کے اثرات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 348 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی سرکاری زبان انگریزی ہے، پھر بھی کئی اردو الفاظ اب تک استعمال ہو رہے ہیں جیسے وکالت نامہ، دستی وغیرہ۔”عدالت نے کہا کہ بہت سی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا ہے۔”جب ہم اردو پر تنقید کرتے ہیں تو درحقیقت ہم ہندی پر بھی تنقید کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ لسانیات دانوں اور ادبی ماہرین کے مطابق اردو اور ہندی دو الگ زبانیں نہیں بلکہ ایک ہی زبان ہیں۔”

عدالت نے کہا: "ہندی اور اردو کو دونوں طرف کے کٹّر پسندوں نے ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا، نتیجتاً ہندی زیادہ سنسکرتی ہو گئی اور اردو زیادہ فارسی زدہ۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس فرق کو مذہب کی بنیاد پر مزید گہرا کیا۔ اب ہندی کو ہندوؤں کی اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا، جو کہ حقیقت سے ایک افسوسناک انحراف ہےہمارے اتحاد میں تنوع اور عالمی بھائی چارے کے تصور سے۔”
ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ بینچ نے کہا:”میونسپل کونسل کا کام مقامی برادری کو خدمات فراہم کرنا اور ان کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اگر کسی علاقے کے لوگ اردو جانتے ہیں تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے ساتھ ساتھ سائن بورڈ پر اردو کے استعمال پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ زبان ایک ایسا ذریعہ ہے جو مختلف خیالات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتا ہے، اور اسے ان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔”