سافٹ مشروب یا ہارڈ مشروب؟ یہ کیا ہے :کوک، کوکین یا الکحل؟
مضمون نگار: محمد برہان الدین قاسمی
مترجم: حفظ الرحمن قاسمی
زیرنظر مضمون کا حاصل یہ بنیادی سوال ہے کہ ” معروف سافٹ مشروب کوکا کولا میں کہیں الکحل والے مواد تو شامل نہیں ؟ آیا مسلمانوں کے لئے ایسی اشیاء کو پینا جن میں الکحل یا کوکین ملی ہو ، درست ہے؟” میں اس سلسلے میں اپنی تحقیقات پیش کروںگا، لیکن اصل موضوع پر آنے سے قبل کچھ ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
کوکاکولاکی دفتری ویب سائٹ اور آن لائن فری انسائیکلوپیڈیاWikipedia میں موجود تفصیلات کے مطابق کوکا کولا کاربن ڈائی آکسائڈ کی آمیزش سے تیز کیا ہوا سافٹ مشروب ہے جو دوسو سے زائد ممالک کی دوکانوں ، ریستوراںمیں اور خودکار مشینوں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے۔ اٹلانٹا، جورجیامیں واقع کوکاکولا کمپنی اسے تیار کرتی ہے اور عام طور پر اسے صرف کوک (Coke)کہا جاتا ہے جو کہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی کو کاکولا کمپنی کا ۲۷/ مارچ، ۱۹۴۴ء سے رجسٹرڈ ٹرید مارک رہا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میںجان پیمبر ٹان نے اس کا Patent Medicine (اجارہ تحفظ کے تحت بننے اور فروخت ہونے والی دوا جو بغیر ڈاکٹری تجویز کے حاصل کی جا سکے۔)کی حیثیت سے ایجاد کیا۔ پھر گرکس کینڈلرنامی ایک تاجر نے اسے خرید لیا اور اس کی تجارتی سوجھ بوجھ کی وجہ سے بیسویں صدی میں اس نے پوری طرح مقبولیت حاصل کرلی۔
۸ /مئی ۱۹۶۶ ء کو ڈاکٹر جان پیمبر ٹان نامی ایک فرماسسٹ (دوا ساز) نے کوکاکولا مشروب کا ایک جگ اٹلانٹا کے قلب میں واقع جیکوب فارمیسی کو دیا اور وہاں اس میں کیمیائی آب کی آمیزش کی گئی پھر یہ پانچ سینٹ فی گلاس کی قیمت سے فروخت ہوا۔ اور اس طرح یہ کمپنی جوآج سے سوا صدی پہلے صرف ایک پروڈکٹ تیار کرتا تھا کوکاکولا نے ایسی ترقی کی کہ ۲۰۱۱ء تک اس کے پانچ سو برانڈ ہو گئے۔ اپنی پبلک پروفائل میںکمپنی کا دعوی بھی ہے کہ ۱۹۸۶ء میں اس کی یومیہ شرح فروختگی صرف ۹ بوتلیں تھیں، جبکہ آج یومیہ ۱ء ۷ بلین ہے۔ مزید برآں یہ کہ وہ پہلے صرف ایک ملک امریکا کے ایک شہر اٹلانٹا میں تھی جبکہ آج دو سو سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی شاخوں میںدستیاب ہے۔
کوکاکولا کا اولین نسخہ کولمبس (جورجیا)میں واقع کیمیکل کمپنی اور ایگل ڈرگ میں پیمبرٹان نے کوکا وائن (شراب) کے نام سے تیار کیا جسے پیمبرٹان کی تیار کردہ فرنچ وائن کوکا کے نام سے جانا جاتا تھا۔ شاید اسے یوروپ کے کوکا وائن، Vin Mariani کی عظیم کامیابی سے تحریک ملی ہو۔ اٹلانٹا اور فلٹن نے شراب کے خلاف حکم امتنا عی جاری کیا اور اس کے استعمال کے لئے عمر کی قید لگا دی تو رد عمل کے طور پر پیمبر ٹان نے "فرنچ وائن کوکا” کو” کوکا کولا” کی شکل میں پیش کیا جس میں الکحل نہ ہونے کا دعوی کیاگیا۔
کوکاکولاکمپنی، اس کی مصنوعات اور اس کی ذیلی شاخیں بیسویں صدی کے وسط سے ہی صارفین اور واچ ڈوگ کی تنقیدوں کا سامنا کرتی رہی ہیں۔ اس کمپنی پر مختلف قسم کے الزامات ہیں اور اس پر کی جانے والی تنقیدوں کا محور مندرجہ ذیل چیزیں ہیں: (۱) کوکاکولا مصنوعات کے صارفین کی صحت پر ممکنہ منفی اثرات(۲)مزدوروں کے ساتھ نامناسب عمل (۳) ٹرید یونین کو قابو میں رکھنے کے لئے غیر سرکاری نیم فوجی تنظیموں کے ساتھ تعلقات(۴) کمزور ماحولیاتی ریکارڈ(۵) اجارہ دارانہ تصور تجارت کی حمایت(۶) نامناسب مارکیٹنگ اسٹراٹیجی(۷) تخلیقی سرمایہ(Intellectual Property) کے حقوق کی پامالی۔
کمپنی کے غیر اخلاقی رویہ کی وجہ سے تقریبا ان تمام ممالک میں جہاں اس کی تجارت چل رہی ہے، اس کی مصنوعات کی مخالفت کی گئی اور اس کے خلاف مقدمہ کے لئے مختلف جماعتیں قائم ہو گئیں، جیسے "Killer Cooke” ۔ ۱۹۴۰ ء کے بعد سے عدالتوں میں کئی ایک مقدمے دائر کئے گئے جن میں یہ الزام لگایا گیا کہ اس مشروب میں تیزابیت خطر ناک حد تک موجود ہے۔ ان میں سے کچھ مقدمات میں پیش کی جانے والی شہادتوں نے یہ ثابت کیا کہ "کوکاکولا ” متوازی مشروبات اور تیزاب آمیز پھلوں کے جوس سے بھی زیادہ مضر ہے۔ ماہرین کے مطابق تیزابی مشروبات کے ساتھ دانتوں کے مسلسل لمس کی وجہ سے دانتوں کی خرابی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور دانت گھسنے لگتے ہیں۔ مگر کمپنی ان تمام تنقیدوں اور الزامات کا نہایت کامیابی کے ساتھ دفاع کرتی رہی ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے اس کے پیچھے کون سی طاقت کار فرما ہے۔
کوک پر عرب لیگ کی جانب سے پابندی
اسرائیل کے وجود کے دو سال بعد ۱۹۴۹ء میں کوکاکولا نے اسرائیل میں ایک پلانٹ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن عرب کی زبردست مخالفت کی وجہ سے کمپنی کواپنے اس فیصلہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ عرب لیگ کی پابندی سے بچنے اور عرب کی وسیع منڈی میں اپنے مصنوعات کو فروخت کرنے کے شوق میں کمپنی اسرائیل کے ہاتھوں فروخت نہ کرنے پر رضامند ہوگئی۔ یہ معاملہ دوبارہ ایک اپریل ۱۹۶۶ء کو اٹھا جب تل ابیب کے ایک تاجر موشے بروسٹین نے کوکاکولا پر عرب منڈی کو خوش کرنے کے لئے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کا الزام لگایا۔ The Anti-Defamation League نے اس مسئلہ کو امریکا تک پہونچا یا اور اسرائیل میں اپنی مصنوعات فروخت نہ کرنے کے سلسلے میںکمپنی کی طرف سے پیش کردہ سابقہ توجیہ کے سلسلے میں سوالات اٹھائے۔ جب کوکاکولا پر امریکی پاور ہائوس کی طرف سے دبائو شدید ہوگیاتو اس نے تل ابیب میں بوتلنگ پلانٹ قائم کرنے کا وعدہ کیا۔
رد عمل کے طور پر عرب لیگ نے پورے جزیرہ عرب میں اسرائیل کے اقتصادی پانبدی کے ایک حصہ کے طور پر کوکاکولا کا بھی اگست ۱۹۶۸ء میں بائیکاٹ کردیا تھا۔ پھر ۱۹۹۱ ء میں سینئر بش کے زیر قیادت حکومت کے دبائو میں عرب لیگ کی ایک ملحقہ شاخ Boycott of Israel Office نے کوکاکولا اور تین دیگر امریکی اداروں سے پابندی ختم کر دی ،گرچہ ان کمپنیوں کے اسرائیل کے ساتھ گہرے معاملات ہیں۔
McDonald’ کے ساتھ کوکاکولا امریکی تہذیب اور خاص طور سے امریکی صارفین کے مفادات کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی علامت بن چکا ہے۔ گرچہ کمپنی کو اب بھی کافی مقبولیت حاصل ہے، لیکن کچھ شدید منفی رد عمل کا اظہار بھی ہوا ہے، ان میں سے زیادہ تر وقتا فوقتا پابندی کی شکل میں مشرق وسطی میں ظاہر ہوا۔ مثلا ۲۰۰۰ ء میں یہ بات سامنے آئی کہ کوکاکولا کا لیبل جو ۱۸۸۶ ء شیشے کی امیج میں بنایا گیا تھاوہ پوشیدہ طور پر عربی زبان میںاسلام مخالف الفاظ پر مشتمل تھا۔ کوکاکولا کمپنی نے اس بات کا دعوی کیا کہ اس افواہ کے پھیلنے کے بعد صرف مصر میں شرح فروختگی میں دس سے پندرہ فیصد کی کمی آئی۔ یہ تنازع اس قدر پھیلا کہ مصر کے مفتی اعظم کو عوامی طورپر یہ اعلان کر نا پڑاکہ اس لوگو سے اسلام یا مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
گرچہ عرب لیگ نے پابندی ختم کردی لیکن صدام حسین کے زیر قیادت عراقی حکومت نے اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا اور پابندی کو برقرار رکھا، اورکوکاکولا بشمول دوسری بہت سی کمپنیوں کے خاص طور سے تیل کی تجارت کرنے والی کمپنیاں اسی وقت عراق میں داخل ہوسکیں جب جونیئر بش کے ذریعے چھیڑی گئی دوسری خلیجی جنگ کے بعد عراق پر امریکا قابض ہو گیا۔ کوک ۲۰۰۵ء میں عراق میں داخل ہوا، جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ عرب لیگ کے تمام ۲۲/ ممبر ممالک میں سافٹ مشروب کی یہ واحد کمپنی ہے جسے مقبولیت حاصل ہے۔
سب سے پہلے ہندوستان نے کوک کے خفیہ فارمولا کے تعلق سے سوال اٹھایا
۱۹۷۷ ء تک کوکاکولاہندوستان میں سب سے نمایاں اور غیر مشتبہ سافٹ مشروب تھا۔ پھر ہندوستان نے Foreign Currency Regulation Act کے تحت کمپنی سے فارمولا M7X کی وضاحت طلب کی لیکن کمپنی نے اس فارمولا کی وضاحت کے بجائے ہندوستان کی زبردست منڈی کو خیر باد کہہ دیا۔ پھر ۱۹۹۳ء میں ہندوستان کی نام نہاد لبرلائیزیشن پالیسی کے نفاذ کے بعد اپنے خفیہ فارمولا کو واضح کئے بغیر پیپسی کے ساتھ کوک بھی دوبارہ ہندوستان آیا۔
آج تک خاص طور سے ہندوستان اور عموما پوری دنیا میں یہ تجسس پھیلا ہواہے کہ کوکاکولا تیارکیسے کیا جاتاہے۔ خاص طور سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں اس میں حشرات کش دوا اور دوسرے مضر کیمیکل کی مقدار ضرر کی حد تک تو نہیں، جبکہ کوک پر یہ الزام بھی ہے کہ مشروب بنانے کے لئے پانی کی جو مقدار صرف ہوتی ہے اس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح خشک ہو رہی ہے ، نتیجتا کسانوں کو انتقال مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
۲۰۰۳ ء میں دہلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم Centre for Science and Environment نے کہا کہ کیمیکل آمیز پانی جو سافٹ مشروب بنانے والی کمپنیا ں بشمول پیپسی اور کوکاکولا کے خارج کرتی ہیں ان میں Toxin ( نا می جسم میں پیدا ہونے والا زہر خصوصا جو ضد حیوی ذرات کی پیدائش کا سبب بنے)، Lindane (سائیکلو ہیکسین سے ماخوذ ایک بے رنگ قلمی کلورین آمیز مادہ جو کرم کش کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔)، DDT (Dichloro Dipheny Trichloroerthane ایک بے رنگ کلورین آمیز ہائڈرو کاربن مرکب جو جراثیم کش کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔)، Malathion (ایک جراثیم کش مادہ جس میں فاسفورس شامل ہوتا ہے)اور Chlorpyrifos pesticides ہوتے ہیں اور یہ کینسر کا سبب بننے کے علاوہ جسم کے دفاعی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ جن مشروبات کو تنظیم نے ٹیسٹ کیا وہ پیپسی، کوک، سیون اپ، میرنڈا، فینٹا، تھمس اپ، لمکا، اور اسپرائٹ وغیرہ ہیں، ان میںسے بیشتر کوکاکولا کمپنی کی مصنوعات ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق کوکاکولا کی تمام کار روائیاں سخت تنقید کی زد میں آ چکی ہیں، اس لئے کہ بہت سے لوگ خطر ناک حد تک پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں ، مزید براں یہ کہ چٹانوں، گڑھوں، زمینی سوتوں میں پایا جانے والا تہ نشین پانی اور مٹی میں بھی آلودگی پھیل رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ یہ سب کچھ کوکا کولا کے بوٹلنگ آپریشن کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پورے ہندوستان میں ایک زبردست تحریک ابھری کہ کوکاکولا کمپنی کو اپنی کارروائیوں کے لئے جوابدہ بنایا جائے۔ کیرا لا کی ریاست نے کوکاکولا پر پابندی لگائی جس کو کمپنی نے نہیں مانا اور مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ مارچ ۲۰۰۴ ء میںپلاچیمادا مقام کے باشندوں کے احتجاج اور ہائی کورٹ کے فرمان کے بعد کیرالا میں کو ک کا پلانٹ بند کر دیا گیا، کیونکہ اس علاقہ کے کنویں اور تالاب خشک ہوگئے تھے۔ ہندوستان کوکاکولا بیورج پرائیوٹ لمیٹڈ کے حد سے زیادہ زیر زمین سے پانی نکا لنے کی وجہ سے خطر ناک ماحولیاتی اور زمینی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پالچیمادا پنچایت کے پیرومتی اور پتتنچری گائوں میں بوٹلنگ پلانٹ کا پانی بہتا ہے جس کی وجہ سے جلدی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں، نظام تنفس میں خرابی پیدا ہورہی ہے اور علاقہ کے باشندوں کی صحت کمزور ہورہی ہے۔ کیرالا اسمبلی نے حال ہی میں ایک خصوصی بنچ بنانے کے لئے بل پاس کیا ہے جو پالاکاد ضلع کے پلاچیمادا علاقے کے ان لوگوں کو معاوضہ دلوائے گی جو کوکاکولا کی متنازع بوٹلنگ یونٹ کی کارروائیوں سے متاثر ہیں۔ اس بل کی تجویز لفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ حکومت نے پیش کی اور بارہویں اسمبلی کی آخری اجلاس میں ۲۴/ فروری ۲۰۱۱ ء کو یہ بل پاس ہوا۔ اپریل ۲۰۱۱ ء میں حکومت نے دوبارہ اس بل کی توثیق کی اور آج تک پلانٹ بند ہے۔
تمل ناڈو کے شو گنگا ضلع میں پانی کی قلت پیدا ہوجانے اور آلودگی پھیلنے کے خوف سے کوکاکولا کے مجوزہ بوٹلنگ پلانٹ کے خلاف متعدد احتجاج ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ گنگائی کوندن میں کوکاکولا بوٹلنگ پلانٹ کے خلاف غم و غصہ کے اظہار کے سلسلے میں تگ و دو کرنے کے صرف دو دنوں کے بعدگنگائی کوندن پنچائت کے صدر کی پر اسرار حالت میں موت ہوگئی۔ جب ان سے متضاد بیانات کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان پر عوام، پولس اور دوسرے گروہوں کی طرف سے زبردست دبائو تھا۔ اس لئے انھوں نے یہ بیان دیا۔ اطلاع کے مطابق دوسرے پانچ صوبوں نے جزوی طور پر اسکول، کالج اور ہسپتال میں مشروبات کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔
کوک کے پر اسرار فارمولا کا انکشاف
سافٹ مشروب کوکاکولا کمپنی اپنے پر اسرار فارمولے کو ۱۲۵ /سالوں تک کامیابی کے ساتھ چھپاتی رہی، مگر اب صارفین کے لئے وہ وقت آچکا ہے کہ وہ اس مشروب کی حقیقت کو جان لیں جو وہ خود پیتے رہے ہیں اور اپنے پیارے بچوں کو پلاتے رہے ہیں۔ امریکاکی ایک چھوٹی سی غیر معروف میڈیاکمپنی The American Life ریڈیو نے اس کی حقیقت کا انکشاف کیا ہے، لیکن کوکاکولا کے M7X کے خلاف ان کے اسٹنگ آپریشن نے اس کو معروف بنا دیا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس ریڈیو نے جو آپریشن کیا ہے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے تھا۔ البتہ اس کی وجہ سے ایک ایسے راز کا انکشاف ہوا ہے جو سوا صدی سے صرف ایک راز تھا۔ میں چاہتا ہوں کے اس تحقیق کے سلسلے میں ریڈیو کی ویب سائٹ پر موجود اصل عبارت کا اقتباس پیش کردوں۔ اس کہانی کو بڑی پرنٹ میڈیا نے جگہ دی لیکن الیکٹرونک میڈیا نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس کی وجہ کیا ہے وہ خود ہی اچھی طرح جانتے ہوں گے۔
M7X راز کیا ہے؟
This American Life ریڈیو کی اینکر اپنی بات کا آغازاس طرح کرتی ہے: "سامعین! میں کوئی ایسی بات کرنے نہیں جا رہی ہوںجو بعید از کار ہے۔ اس ہفتہ کے پروگرام کے لئے ہم نے کوکاکولا کا اصل نسخہ دریافت کر لیا ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ کرہ ارض پر موجود سب سے زیادہ پوشیدہ رکھے جانے والے تجارتی فارمولوں میں سے ایک آج ہمارے پاس ہے اور میں اسے آپ کو سنانے جا رہی ہوں، پوری دنیا کو سنانے جا رہی ہوں۔ باوجودیکہ کوکاکولا کچھ بھی کہے، میں ثابت کروںگی کہ میرے پاس کوک کا اصل نسخہ ہے۔
کو کاکولا اس فارمولا کو پوشیدہ رکھنے کے سلسلے میں کس قدر متحرک ہے اس کی اصل کہانی ہمیں چارلس ہوارڈ کینڈلر کی ایک تصنیف سے معلوم ہوتی ہے۔ اس کے والد اسا نے کوکاکولا کو ایجاد نہیں کیا بلکہ ۱۸۹۲ ء میں کوک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ کوک کے بانی کے صاحبزادے چارلس لکھتے ہیں: وہ لمحہ میری زندگی کے سب سے قابل فخر لمحوں میں تھا جب میرے والد نے میرے سامنے اس پر لطف فارمولے کے راز کا انکشاف کرنا شروع کیااور مجھے اس مقدس عہدے پر فائز کیا۔ پھر چارلس کہتا ہے ـ: حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی تحریر ی فارمولا نہیں تھا اور اس کے اجزاء کے ڈبوں سے لیبل بھی ہٹا دئے گئے تھے۔ ان کی شناخت کا طریقہ صرف دیکھنا ، سونگھنا اور اس جگہ کو یاد رکھنا تھاجہاں یہ رکھے جاتے تھے۔ میں نے ان کی ہدایت اور تعاون سے اس کا ایک بیچ بنایا جو Marchandise 7 X ہے۔ M7X بہت بڑاراز ہے اور کوکاکولا میں ذائقہ پیدا کرنے والے اجزاء کو وہ Cloak and Dagger کا نام دیتے ہیں۔” چارلس کے والد آسا اپنے M7X فارمولا کو جان لینے کے تعلق سے ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، چنانچہ کوک کمپنی کا صدر ہونے کے با وجود وہ خود ہی میل پڑھتے تھے اور کوک میں ڈالے جانے والے اجزاء کی خریدگی کے تعلق سے آنے والے تمام ای میل کو ڈلیٹ کر دیتے تھے تاکہ حسابات سے متعلق کوئی بھی شخص یہ نہ جان پائے کہ کوک بنانے کے لئے کون سے اجزاء خریدے گئے ہیں۔ ریڈیو کے اینکر ایرا گلاس کا کہنا ہے کہ مجھے یہ ساری تفصیلات تفتیشی صحافی اور مورخ مارک پینڈر گراست کی کتاب History of Coca Cola سے موصول ہوئیں۔
مارک پینڈر گراسٹ نے لکھا ہے کہ : "کمپنی نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے اور میرے خیال میں یہ بالکل درست ہے کہ ایک وقت میں صرف دو آدمی 7X اجزاء کو ملانے کے طریقہ سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ دونوں آدمی کسی نا گہانی حادثہ کے خوف سے کبھی بھی ایک ہوائی جہاز میں سفر نہیں کرتے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ پر اسرار فارمولا اگلوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ فارمولا سن ترسٹکی تجوری میں رکھا جاتا ہے جو کبھی جورجیا ٹرسٹ کمپنی ہوا کرتی تھی۔
ار گلاس اپنا تجزیہ اس طرح سے پیش کرتی ہیں: کوک کی اس خاص تجارت میں خاص بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر شخص صرف نصف فارمولا جانتا ہے۔ یہ متعدد فارمولوں میں سے ایک ہے جو ابھی حال ہی میں ظاہر ہواہے اور اس پر اسرار فارمولا کے افسانہ پر خندہ زن ہیں، جبکہ بازارمیں یہی افسانوی فارمولا فروخت ہوتاہے۔
کوک نے اٹلانٹا میں واقع اپنے میوزیم میں بھی سنسنی کی کیفیت پیدا کی ہے جہاں دو کردار اس پر اسرار فارمولا کے رازہائے سر بستہ کو واشگاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ باوجودیکہ عوام کو اس بات کا یقین دلانے کے لئے کہ کوکاکولا کا فارمولا انتہائی اہم ہے اس لئے یہ راز میں رکھا گیا ہے اور اس راز کو پالینا ناممکن ہے، لاکھوں ڈالر خرچ کئے تھے، لیکن جب کو ک کے اپنے ہی شہر سے شائع ہونے والے ایک اخبار The Atlanta Journal and Constittion کے ۱۸ /فروری ۱۹۷۹ء کے شمارے سے ایک مضمون ہمارے ہاتھ لگ گیا تو ہر طرف حیرانی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یہ مضمون پہلے صفحہ پر نہیں تھا بلکہ اندرونی صفحات پر۔ اس اخبار کے ایک کالم نگار چارلس سالٹر نے بغیر کسی دکھاوے کے اپنی تحریر میں اس چیز کو پیش کیا جو ان کے نزدیک کوکاکولا کا اصلی نسخہ تھا۔
چارلس کو یہ بات ایک فرماسسٹ کی نسخوں کی ایک قدیم کتاب سے ملی۔ بشمول کوکاکولا کے اس کتاب میں موجود تمام نسخے ہاتھ سے تحریرکئے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مرہم اور ادویات کے نسخے ہیں۔ اس کتاب میں کوکاکولا کے نسخے کا پایا جانا ایک عجیب سی بات لگتی ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوکاکولا کا موجد ایک فرماسسٹ ہی تھا اور شروع میں یہ ہلکے مشربات کی دوکانوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ مضمون میں یہ بات لکھی ہے کہ کتاب ایک فرماسسٹ سے دوسرے فرماسسٹ تک پہونچتی رہی یہاں تک کہ یہ ایویریٹ بیل نامی ایک شخص کے ہاتھ میں پہونچی جو اٹلانٹا سے ۴۰ میل دور گریفن میں ایک ڈرگ اسٹور کا مالک تھا۔
ریڈیو کی عبارت میں آگے یہ کہاگیا ہے: اور کیا آپ جاننا چاہیںگے کہ ایویریٹ کو یہ کتا ب کیسے دستیاب ہوئی؟ ایوان پیمبرٹن کا ایک اچھا دوست تھا۔اب آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ہیں۔ جس پیمبر ٹن کے بارے میں بات ہو رہی ہے وہ جان پمبر ٹن ہے جس نے ۱۸۸۶ء میں کوکاکولا کا کا ایجاد کیا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیاہے وہ ایک فرماسسٹ تھا۔ مگر وہ اجارۂ تحفظ کے تحت بننے اور بکنے والی دوا بھی بناتا تھا۔ اس نے Glob Flower Cough Syropبھی بنایا۔
ایویریٹ کی بیوی جوڈی کا کہنا ہے کہ نسخوں کی یہ کتاب اصلا ایوان کی ہے۔ اس کا نام پوری کتاب پر لکھ ہواہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب اس کے دوست پیمبرٹن نے کوک کو ایجاد کیا تو ایوان نے اس کے فارمولے کو اپنی کتاب میں نقل کر لیا ہوگا۔ اور جب ایوان کا انتقال ہو گیا تو کتاب ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتی رہی۔ ایوان نے یہ کتاب جورجیا گریفن کے رہنے والے RM Mitchell کو یہ کتاب دی جس کی بیوہ میرے شوہر کی ایک دوست تھی۔ اس نے ایوان کے انتقال کے بعد اس کتاب کے بارے میں بتایا اور کہا وہ جو کتاب بھی چاہتا ہے لائبریری سے لے لے۔ چنانچہ ایویریٹ نے اس کتاب کا انتخاب کیا۔
جوڈی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب ۱۳۳ /سال قدیم ہے۔ اس پر چمڑے کی جلد ہے۔ جب میں نے پچھلی بار اسے دیکھا تو دستانہ پہنا تھا۔
ایرا گلاس مزید کہتی ہے: ایویریٹ کوکاکولا کے نسخہ کے سلسلے میں اس قدر دلچسپی لیتا تھا کہ کینسر میں مبتلا ہونے کے باوجود اس نے اپنی زندگی کا آخری سال ایک کتاب A History of the Invertor of Coca Cola لکھنے میں صرف کیا جو ابھی بھی طباعت سے آراستہ نہ ہو سکی۔لطف کی بات یہ ہے کہ Lord of the Ring فلم میںانگوٹھی پالینے کے بعد کرداروں کی جو کیفیت ہوتی ہے اسی طرح ایویریٹ بھی پر اسرار فارمولا کو پا لینے کے بعد کوکاکولا کمپنی کے مالکین کے انداز میں اس کا تحفظ کرنے لگا۔
ایرا گلاس کا کہنا ہے کہ: ہم نے کوک نسخہ کی ایک فوٹو کاپی ایویریٹ کی بیوی جوڈی سے حاصل کر کے کتاب کے مصنف مارک پینڈر گراسٹ کے پاس یہ معلوم کرنے کے لئے بھیجی کہ آیا یہ اصلی ہے۔ مارک نے جواب دیا کہ میرے خیال میں یہ یقینا اسی فارمولا کی ایک کاپی ہے۔ اور یہ اس فارمولے کے بہت مشابہ ہے جو مجھے ملا اور جس کے بارے میں میں نے بات کی اور اپنی کتاب کی پشت پر چھپوایا۔
ایرا گلاس تجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہے: یہ ایک دلچسپ انکشاف تھا۔ اپنی کتاب میں مارک نے کوکاکولا کے دستاویزات کے کھنگالنے کی کہانی بھی لکھی ہے اور یہ بھی کہ اسے کوکاکولا کے موجد جان پیمبرٹن کی ایک زرد رنگ کی کاپی بھی دکھائی گئی۔ مارک کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ یہ حقیقت میں فارمولے کی کتاب تھی کم از کم اس وقت کی جب اس نے کوک کا ایجاد کر لیا تھا۔ اس لئے کہ ا س میں کو کا کولا کا ذکر موجود ہے۔ اس فارمولے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جس کے اوپری حصہ پر ایک بڑا سا X لکھا ہوا تھا۔ اور جب اس پر میری نظر پڑی تو میں نے سوچا کہ میں نے اس مزیدار چیز کو دیکھا ہے۔ اس میں ایک Neroli (سیول کی نارنگی کے پھولوں کا ست جو عطریات سازی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔) تھی۔ اس میں دھنیا تھی۔ میں نے سوچا ہائے اللہ! یہ ہے کوکاکولا کا فارمولا۔ مجھے اس پر یقین نہ آسکا۔
ایرا گلاس نے یہ سوال کیا کہ آیا کمپنی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہی کوکاکولا کا فارمولا تھا۔ مارک پینڈر گراسٹ نے جواب دیاکہ کمپنی اس بات کا انکار کر رہی ہے۔
۱۹۹۳ ء میں جب مارک کی کتاب شائع ہوئی تو New York Times نے دو مئی کے شمارے میں لکھا : ایک سو سات سالہ قدیم راز کے کھولنے کی ناکام کوششوں کے سلسلے کی ایک اور کڑی۔ مگر یہاں کچھ دلچسپ چیزیںہیں۔ جب آپ ان دو نسخوں میں موازنہ کریں گے، ایک تو وہ جو کوکاکولا کی دستاویزات کے بالکل اند رکھی ہوئی جان پیمبرٹن کی کاپی سے مارک نے حاصل کیا، اور دوسرے وہ جو ۴۰/ میل دور ایویریٹ کی بیوی جوڈی کے پاس رکھے ہوے اخبار کے ایک تراشے سے حاصل ہوا، تو ان سے آپ کو پورا راز معلوم ہو جائے گا۔
اخبار میں موجود نسخہ میں وہ تما م چیزیں موجود ہیں جو کوک دستاویز سے غائب ہیں۔ کوک دستاویز والے نسخہ میں ہر جز کے برابر میں نمبرا ت کی فہرست ہے۔ دستاویز میں پائے جانے والے نسخہ میں X کا لیبل لگا ہوا ہے۔ جبکہ اخبار والا نسخہ صراحت کرتا ہے کہ یہ کوکاکولا کا نسخہ ہے۔ایرا گلا س مزید کہتی ہے : میں اس عجوبہ میں اس بات کو معلوم کرنے کے لئے گھنسی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ اس پر اسرار نسخہ کو ایک قدیم اخبار کے تراشہ میں دہائیوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہو۔ لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بالکل کوکاکولا کے دستاویزات میں موجود اس نسخہ سے ملتا جلتا ہے جسے خود کو ک کے موجد نے بنا یا تھا، تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ گذشتہ دو ہفتوں سے میں جہاں بھی جاتی ہوں اس نسخہ کی پرنٹ کاپی ساتھ لے جاتی ہوںاور یہ ابھی بھی میرے ساتھ اسٹوڈیو میں موجود ہے۔ اور میں ہر شخص کو بتا رہی ہوں کہ میرے خیال میں میں نے کوک کے پر اسرار فارمولے کو پا لیا ہے۔ اب اسی وقت میں آپ کو کوک کے پر اسرار فارمولے کو پڑھ کر سنائوںگی۔ آپ نے حقیقت سن لی ہے اور اب آپ خود ہی نتیجہ پر پہونچ جائیںگے کہ یہ کیا چیز ہے۔
اس کے بعد ایرا گلاس رک جاتی ہے اور اسٹوڈیو میں موجود اپنے مہمانوں سے ایک سوال کرتی ہے۔ کیا ہمارے لئے اس سلسلے میں ریڈیو پر بات کرنا قانونا جائز ہے ؟ کیا کو ک ہم دونوں کو استعمال کرے گا؟ ریڈیو نشریہ میں موجود مارک پینڈر گراسٹ جواب دیتا ہے کہ : نہیں میرا خیا ل نہیں ہے کہ وہ ہمیں استعمال نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ اگر وہ فارمولے سے متعلق کوئی بھی چیز استعمال کرتے ہیں تو انھیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے ان کے فارمولے میں مداخلت بے جا کیاہے اپنے فارمولے کو واضح کر نا پڑے گا۔ اور وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔
اچھی بات ہے۔ ہم اب آگے بڑھتے ہیں۔ 7X فارمولاان دونوں نسخوں میں صرف ایک عنصر ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں۔
(۱) ۲۰ قطرے سنترہ کا تیل (۲) ۳۰ قطرے لیموں کا تیل
(۳) ۱۰ قطرے Nutmeg (جزائر ملکا میں پایا جانے والا سدا بہار درخت جس کی بیج سخت اور خوشبو دار ہوتی ہے۔) سے
(۴) ۵ قطرے دھنیا کا تیل (۵) ۱۰ قطرے نیرولی کا تیل
(۶) ۱۰ قطرے دال چینی کا تیل (۸) ۲۲۴ گرام الکحل
ان کے علاوہ دوسرے اجزاء ۸۴ /گرام ترنج کے پھلوں سے بنایا ہوا کیمیکل، ۲۸ /گرام Caffeine (ایک الکلی آمیز مفرد نباتی جزو جو سکر یا نشہ پیدا کرتا ہے اور چائے کی پتیوں اور کافی کے بنوں میں پایا جاتا ہے۔)اور ڈھائی گیلن پانی ہیں۔
مارک کا کہنا ہے کہ کوکاکولا کی تخلیق میں کوکین بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کوکاکولا کی ایجاد سے قبل جان پیمبر ٹن نے ایک دوسرا مشروب بنایا تھا جس کو فرنچ وائن کوکا کہتے تھے، اس کے اجزاء شراب ، کوکین اور کیفین تھے۔ ۱۸۸۵ ء میں اٹلانٹا میں فرنچ وائن پر پابندی کے لئے رائے شماری ہوئی، تو پیمبرٹن نے سوچا کہ اسے اپنے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے مشروب سے شراب کو نکالنا ہوگا۔ چنانچہ اس نے دوسرے دو اجزاء کوکین اور کیفین کو باقی رکھا۔ لوگ انھیں پسند کرتے تھے۔ مگر جب آ پ کوکین اور کیفین کو آپس میں ملا دیں تو یہ اور بھی تلخ ہوجا تاہے۔ چنانچہ اس نے تلخی کو ختم کرنے کے لئے ایک ٹن شکر انڈیل دیا۔ پیمبر رٹن اسے منشیات سے مبرا مشروب کہتا تھا۔
بہر کیف حالات کی موجودہ تمام شہادتیںاس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ نسخہ اصلا کوکاکولا کا ہی نسخہ ہے۔ یاکم از کم یہ اصلی نسخوں میں سے ایک تو ہے ہی۔
اسلام میں الکحل کا استعمال
قرآن پاک کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اور پانسے(یہ سب)ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا، تاکہ نجات پائو۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے سبب تمھارے درمیان دشمنی اور رنجش ڈلوادے اور تمھیںخدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے، تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیے۔ (سورہ مائدہ، ۹۰، ۹۱)
حضرت جبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاشراب کم ہو یا زیادہ دونوں حرام ہے۔ (ترمذی، ابودائود ، ابن ماجہ)
مزید براں نبی کریم ،ﷺ کا ارشاد ہے الکحل تمام برائیوں کی ماں ہے۔ (طبرانی)
شریعت اسلامی میں الکحل اور سور کے گوشت کا استعمال اور سود پر مبنی معاملات کرنا تو در کنار اس طرح کے معاملات کی بالواسطہ مدد کرنا بھی سخت ممنوع ہے۔ ہم کوک کے استعمال کے سلسلے میں فیصلہ تعلیم یافتہ قارئین اور خاص طور سے پوری دنیا میں پھیلے ہوے مسلمانوں کے حوالے کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ اور آپ کے بچے الکحل اور کوکین کے ساتھ زندگی گذاریں؟ ہم یقینا کوئی غیر ضروری شور و غوغا نہیں چاہتے ہیں، مگر ہمارے خیال میں کسی بھی مسلمان کے لئے یہ ایک غیر معمولی معاملہ ہے۔ آپ کا مجلہ ’ایسٹرن کریسنٹ‘ بالکل وہی کر رہا ہے جس کی آپ اس سے توقع کرتے ہیں۔
(یہ مضمون پہلی بار ایسٹرن کریسنٹ (پرنٹ ایڈیشن) کے مارچ 2012 کے شمارے میں کور اسٹوری کے طور پر شائع ہوا تھا۔ بعد میں کا اردو ترجمہ ہندوستان کے کئی مشہور اردو اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ معاملہ کی حساسیت اور مضمون کی اہمیت کے پیش نظر ہم اسے یہاں اپنے عالمی آن لائن قارئین کے لیے EC کے ڈیجیٹل ایڈیشن میں دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔)
اس مضمون کا انگلش ورژن پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں