مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار ہیں۔
حالیہ وقت کا ایک بڑا مسئلہ جس کے تئیں کثیر تعداد میں لوگ پریشان نظر آتے ہیں، بے روزگاری ہے۔ اس مسئلے کو لے کر عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کبھی لوگ حالات کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور کبھی حکومت وقت کو اور جس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا جس کو زبان پر لانے سے کتراتے ہیں وہ ہے `خود کی کوشش۔
حالیہ وقت کا ایک بڑا مسئلہ جس کے تئیں کثیر تعداد میں لوگ پریشان نظر آتے ہیں، بے روزگاری ہے۔ اس مسئلے کو لے کر عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کبھی لوگ حالات کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور کبھی حکومت وقت کو اور جس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا جس کو زبان پر لانے سے کتراتے ہیں وہ ہے `خود کی کوشش۔ حالانکہ عقلی اعتبار سے اور شرعی نقطہ نظر سے بھی جب تک انسان خود محنت نہ کرے اور متعلقہ اسباب کو نہ اپنائے وہ بے روزگاری کے مسائل سے جوجھتا ہی رہے گا۔
اسلام میں بے روزگاری سے بچانے کیلئے بے شمار احکامات اور ہدایات قرآن مجید اور احادیث میں ملتی ہیں۔ قرآن مجید کی ذیل کی آیتوں پر ہی غور کریں اور دیکھیں کہ بے روزگاری دور کرنے کیلئے کس قدر تاکید ی احکامات دیئے گئے ہیں۔
’’ہم نے دن کو (کسبِ) معاش (کا وقت) بنایا (ہے)‘‘ ( سورہ النبا: ۱۱)۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اوردن میں اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورہ القصص: ۷۳)۔ رزق کے حصول کیلئے جدوجہد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم و مسخر کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اس کے (دئیے ہوئے) رزق میں سے کھاؤ، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘(الملک: ۱۵)۔ اسی طرح بے روزگاری کو دور کرنے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بہت ہی تاکید ی ہے کہ حلال مال کا طلب کرنا (اصل) فرائض کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
بے روزگاری کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ جو خصوصاً ہمارے نوجوانوں میں ہے وہ یہ کہ اونچے اونچے خواب دیکھتے ہیں لیکن خواب کو شرمندہ تعبیر کر نے کے لئے مطلوبہ جد و جہد اور محنت نہیں کرتے۔ اور بڑے مواقع کی امید میں چھوٹے مواقع جو میسر ہوتے ہیں اُن کو بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔ حالانکہ ہمیں یہ چاہئے کہ ہم بے روزگاری دور کرنے کے لئے مناسب کوشش کریں، ملازمت یا کام کا کوئی معیار متعین نہ کریں، کچھ کم درجہ کا روزگار یا ملازمت مل جائے تو عارضی طور پر اسے بھی اختیار کرلیں کیونکہ بے کار اور بے روزگار رہنے سے بہتر کسی کام میں لگا رہنا اور کچھ کمالینا ہے۔
عقلی طور پر یہ بات سب کی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کوئی گھر میں بیٹھا رہے گا اور بے روزگاری دور کرنے کے لئے کسی بھی لائن سے مطلوبہ محنت نہیں کر ےگا تو اس بے روزگاری کا ذمہ دار وہ خود ہوگا کوئی اور نہیں۔ یہ بات شریعت نے بھی صاف کردی ہے کہ اللہ رب العزت نے سب کے لئے رزق کا انتظام کردیا ہے، رزق تقسیم فرما دیا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث پاک سے یہ بالکل ظاہر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جس چیز کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے تو تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور جس چیز کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں جنت سے دور اور جہنم کے قریب کرنے والی ہے تو تمہیں اس سے منع کرتا ہوں، بے شک روح الامین حضرت جبرئیل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی جان اس وقت تک نہیں مرے گی جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے اگرچہ وہ اس کو دیر سے ملے۔ پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رزق کا حصول اچھے طریقے سے کرو۔ (مشکوٰۃ)
آج کل بے روزگاری کا مسئلہ عام ہے۔ اس حد تک عام ہے کہ یہ انتخابی موضوعات میں سب سے اہم موضوع بن گیا ہے۔ بے روزگاری دور کرنے کے باب میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں مقدر کردی ہیں، ان کے اسباب بھی مقدر کردیئے ہیں لیکن جس حد تک اسباب انسان کے اختیار میں رکھے ہیں ان اسباب کا اختیار کرنا انسان پر واجب ہے، اسباب تلاش کرنا اور انھیں اختیار کرنا انسان کے اختیار کی چیز ہے، لہٰذ انہیں اپنانا اور اُن کے لیے کوشش کرنا بھی لازمی ہے۔ ہاں ! اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی نتیجہ ظاہر ہونے کی امید اور یقین اللہ تعالیٰ کی ذات سے رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی نوجوان دستیاب مواقع کے باوجود محض اس لئے کہ جو مواقع مل رہے ہیں وہ اُس کی پسند کے نہیں تو وہ اپنا دُہرا نقصان کرتا ہے۔ ایک تو روزی سے دور ہوتا ہے اور دوسرا شرعی فکر سے اجتناب کرتا ہے۔ ذمہ دار نوجوان وہ ہے جو کسی بھی موقع سے بے پروائی نہ کرے۔