مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
اسلامی شعائر پر حملے ،مسلم اقلیت کے لوگ پریشان علماء کا ایک بڑا طبقہ مناظرہ اور مسلکی مباحثہ میں مصروف، دانشوران اکثر خاموش اور کچھ اپنی قیادت کا لوہا منوانے میں مشغول ، یہ سبھی کے لئے لمحۂ فکریہ !
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی قوموں کا ذکر کر کے ان کے حالات سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے ، ان قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے عروج عطا کیا ، انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے ذریعہ دنیا کو مسخر کیا ، زمین پر بسنے والی قوموں پر اقتدار قائم کیا اور ان پر اپنی حکومت مسلط کردی ، یہاں تک کہ بر سر اقتدار طاقتور لوگوں میں اقتدار کی ہوس بڑھنے لگی ، اور اس کے نشے میں اتنے چوڑ ہوگئے کہ انہیں اپنے حدود اور دائرہ کا خیال نہیں رہا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے زوال کے اسباب پیدا کردیئے ، اور ان کو طرح طرح کی مصیبتوں سے دو چار کر کے بیدار ہونے کا موقع عطا فرمایا ، مگر وہ اقتدار کے نشہ میں اتنے مست ہوگئے تھے کہ ان پر کچھ بھی اثر نہیں پڑا ، آخر وہ قومیں اپنی کرتوت کی وجہ سے برباد ہوگئیں۔ دین اسلام دنیا میں شان و شوکت کے ساتھ پھیلا ، اس نے مسلمانوں کو اقتدارِ اعلیٰ تک پہنچایا ، دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور طاقتوں کو زیر کردیا ، جب تک مسلمانوں میں دین پر استقامت اور اللہ کی اطاعت کا جذبہ رہا ، اور دنیا کے لئے مفید رہے ، وہ دنیا میں پھیلے ، اللہ تعالیٰ انہیں پھلنے پھولنے کے اسباب بھی فراہم کرتا رہا ، مگر یہی مسلم قوم جب دنیا کی ہوس میں پڑ گئی ، اور دنیا کے لئے غیر مفید ہوگئی ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عروج کو ختم ہونے کے اسباب پیدا کر دیئے ۔
ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ زوال کے اسباب اور طریقے مختلف رہے ، ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے کبھی ان پر آندھی آگئی ، کبھی پانی کا عذاب آگیا ، کبھی ان کی بستیوں کو پلٹ دیا گیا ، مگر تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرح کے عذاب سے محفوظ رکھا ، البتہ ان پر انتشار ، افتراق اور آپسی اختلاف کے عذاب کو مسلط کردیا ، اسی عذاب میں یہ خیر امت کا لقب پانے والی امت آج تک مبتلا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلم قوم بے حیثیت ہوگئی ، اور ان میں وہن اور بزدلی پیدا ہوگئی۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کے اقتدار پر زوال آیا ، وہاں زوال کے اسباب میں سب سے اہم علماء کے درمیان مسلکی مباحثہ و مناظرہ اور حکمرانوں کے درمیان طوائف الملوکی رہی ہے ،اپ اسپین اندلس کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں، وہاں مسلمانوں کی نہایت ہی مضبوط حکومت رہی ، جو تقریباً 800؍ سو سال تک جاری رہی ،اور دنیا کو علم و ہنر کا درس دیا ، مگر جب زوال شروع ہوا ، اور حملہ آوروں نے اس پر حملہ کر کے قبضہ کرنا چاہا ، تواس وقت وہاں کے بڑے اور چھوٹے علماء سبھی مناظرہ بازی میں مست تھے اور حکمراں دوسرے مسلم حکمراں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے ، کسی کو ملک کی حفاظت کی فکر نہیں تھی ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کی 800؍سالہ حکومت پر غیروں کا قبضہ ہوگیا ، پھر ایسی حکومت مسلط ہوگئی کہ نماز پر پابندی ، قرآن پر پابندی ، دینی تعلیم و شعائر پر پابندی ، غرض جملہ امور پر پابندی عائد کردی گئی ، ایسا ہی معاملہ مصر کے ساتھ بھی ہوا ، جب وہاں کی مسلم حکومت کو ختم کرنے کے لیے حملے ہوئے ، تو وہاں کے حکمرانوں نے علماء سے دفاع کے لیے رائے طلب کی ،تو روایت کے مطابق وہاں کے علماء نے مقابلہ کے بجائے یہ مشورہ دیا کہ ختم بخاری کرایا جائے ، دعائے خواجگان کا اہتمام کیا جائے ، علماء اور حکمراں یہ سب کرتے رہے ،اور حملہ آوروں نے مصر پر قبضہ کرلیا ، ان واقعات میں ہندوستان کے علماء اور دانشوران کے لئے درس عبرت ہے۔
موجودہ وقت میں ہمارا ملک بحرانی دور سے گزر رہا ہے ، فرقہ پرست طاقتوں نے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کردیا ہے ، اکثریت اور اقلیت کے معاملہ کو اٹھا کر اقلیتی طبقات کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں ، ماب لنچنگ کی جارہی ہے ، جان ،مال ،عزت ،آبرو خطرے میں ہیں ، مساجد ،مدارس اور شعائر غیر محفوظ نظر آرہے ہیں ، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کا کام ہے ، مگر ملک کے بہت سے صوبوں میں فرقہ پرست طاقتوں کا غلبہ ہے ، حکومت بھی ان کی بولی بول رہی ہے ،یونیفارم سول کوڈ ، سی اے اے اور این آر سی کا خوف دکھایا جارہا ہے ، ایسے پر آشوب دور میں بھی مسلم سماج کے علماء کا بڑا طبقہ مسلکی مناظرہ اور مسلکی بحث و مباحثہ میں مست ہے ، دانشور طبقہ میں سے اکثر خاموش اور کچھ اپنی قیادت اور اپنی سیادت میں الجھا ہوا ہے ، جب علماء اور دانشوران کا یہ حال ہے تو عوام کا بڑا طبقہ بھی مطمئن بزرگان دین ور اولیاء اللہ سے مصائب کو ٹالنے کے لیے دعاؤں کی امید میں مصروف ہے ، موجودہ وقت میں مسلمانوں کی وہی حالت ہے جو اسپین اور مصر میں مسلمانوں کی حالت رہی ، ان کو اسی وقت ہوش آئے گا ، جب یہاں بھی اسپین اور مصر جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے ، اللہ تعالیٰ ایسے برے وقت سے بچائے ، اور اس ملک کو ہر قسم کے شر اور فتنہ سے حفاظت فرمائے۔
اللہ کا فضل اور شکر ہے کہ اکابر ملت نے ملک کے مستقبل کو بھانپ لیا تھا ، اور ان کی فراست نے ان کی رہنمائی کی ، جس کی وجہ سے انہوں نے ملک کی تحریک آزادی میں جم کر حصہ لیا اور اس تحریک میں برادران وطن سے آگے رہے ، اور انہوں نے اپنی حیثیت اور قربانیوں کی وجہ سے ملک کے دیگر لیڈران کے ذہن پر اپنی قربانیوں کا سکہ جمایا ، جس کے نتیجہ میں وہ حضرات آزادی کے بعد ہندوستان میں آئین کی حکومت بنوانے میں کامیاب رہے۔
ہندوستان کا آئین نہایت ہی مضبوط آئین ہے ، اس میں حکومت سازی کے اصول جمع کئے گئے ہیں ،اس میں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر بالغ شہری کو ووٹ دے کر اپنی پسند کے لیڈر کو منتخب کر کے اچھی اور سیکولر حکومت بنانے کا حق دیا گیا ہے ، اس میں جان ، مال ،عزت ،آبرو کی حفاظت کا حق دیا گیا ہے ، مذہبی ، لسانی اور ثقافتی آزادی کا حق دیا گیا ہے، اس میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو آئین کا پابند بنایا گیا ، اس میں کسی بھی ظلم کے خلاف چارہ جوئی کا حق دیا ہے ، غرض ہمارے ملک کا آئین ملک اور اس کے جمہوری نظام کی حفاظت کا ضامن ہے ، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کے آئین کی حفاظت کریں ، تاکہ ہمارے حقوق کی حفاظت ہوسکے۔
موجودہ وقت میں ملک پر فرقہ پرست طاقتوں کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے ، اور ایسے لوگ ملک کے آئین کو بدلنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں ، اس لئے موجودہ وقت میں ملک اور اس کے تحفظ کے پیش نظر آئین کی حفاظت ملک کے ہر شہری پر لازم ہے ، مسلم سماج کے لوگ ملک میں دوسری بڑی اقلیت کی پوزیشن میں ہیں ، اس لئے ان پر لازم ہے کہ وہ ملک کے آئین کی حفاظت کے لئے آگے آئیں۔
جمہوریت میں اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ووٹنگ سسٹم نہایت ہی اہم ہے ، ملک کے شہری ووٹنگ کے موقع پر اپنے ووٹ کا استعمال کر کے اچھی اور سیکولر حکومت بناکر فرقہ پرست طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 2024 ءکے الیکشن کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اس کی تیاری شروع ہوگئی ہے ، اس کا پہلا مرحلہ ووٹر لسٹ کی تیاری ہے ، ووٹر لسٹ میں نام کا اندارج اور غلطیوں کی تصحیح کا کام جاری ہے ، یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہوگا ، وہی ووٹ ڈال سکیں گے ، اور جس کا نام ووٹر لسٹ میں نہیں ہوگا ، وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے ، اس لئے ووٹر لسٹ میں نام کا ہونا اور نام کا صحیح ہونا ضروری ہے ، اور یہ کام جاری ہے ، اس لئے اس سلسلہ میں بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے ، دیگر طبقات کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بیداری کم ہے ، اس لئے اپیل ہے کہ ہم سب وقت نکال کر اس کام میں حصہ لیں ، اور میرے مطالعہ کے مطابق اس کے لئے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کئے جائیں۔
(1) سب سے پہلے آپ خود چیک کریں یا کسی سے چیک کرائیں کہ موجودہ وقت میں ووٹر لسٹ میں آپ کا نام ہے کہ نہیں ؟ اس کو الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ پر جاکر چیک کیا جاسکتا ہے ۔
(2) گاوں اور محلہ کو مختلف زون میں تقسیم کیا جائے ، اور اس میں سنٹر قائم کئے جائیں۔
(3) نوجوانوں کی ٹیم تیار کی جائے ، جو سنٹر پر کام کریں ، محلہ کے لوگوں کا سروے کریں ، اور بیداری مہم چلائیں ، سنٹر پر آنے والے لوگوں کا نام چیک کریں ، اگر کسی کا نام نہیں ہو تو اس کو درج کریں ، محلہ کے لوگوں میں سے جو ووٹ کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ، اس کے نام کو ووٹر لسٹ میں درج کرائیں۔
(4) گھر گھر جاکر ووٹر لسٹ میں نام چیک کریں ، اگر نام نہیں ہو یا جو نام شامل کرانے کی عمر کو پہنچ گئے ہوں ، ان کی تفصیلات معلوم کر کے موبائل ایپ کے ذریعہ ووٹر لسٹ میں نام درج کرانے کی کاروائی کریں۔
(5) بی ایل اور کے رابطہ میں رہیں ، تاکہ بی ایل او کے ذریعہ بھی کاروائی کی جائے ، اور ووٹر لسٹ میں نام کا اندراج ہوسکے۔
یہ چند صورتیں درج کی گئی ہیں ، ان سے بہتر بھی پلاننگ کی جا سکتی ہے ، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ اس پر بروقت کاروائی ہو۔
ہمارے علماء ، اساتذہ اور سماجی کارکنان اس میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں ، اس لئے تمام حضرات سے اپیل ہے کہ ووٹر لسٹ میں نام کے اندارج اور تصحیح میں بھرپور حصہ لیں ، اور اس کو وقت کی بڑی ضرورت سمجھیں ۔