شاہد لطیف
مضمون نگار روزنامہ انقلاب، ممبئی کے مدیر اورتجربہ کار صحافی، شاعر اور کالم نگار ہیں۔
ماہنامہ ’’اِنشاء‘‘ کولکاتا سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے مدیر ف س اعجاز، ملک کے اُن بزرگ قلمکاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جو بیک وقت ادیب، شاعراور ادبی صحافی ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی وہ اختراعی ذہن ہے جو اُنہیں انشاء کے ہر شمارے کو خاص شمارہ بنانے پر مجبور کرتا ہے اور جب تک وہ شمارہ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر نہیں آجاتا تب تک اُن کی طبیعت میں عجب بے چینی اور بے کلی رہتی ہے۔ اس رسالے کے تازہ شمارہ کا ہر صفحہ قاری کی نگاہوں کے سامنے ماضی کی خوبصورت یادوں کو سمیٹ کر رکھ دیتا ہے مگر مَیں اتنی جلدی اس کے مشمولات آپ پر ظاہر نہیں کروں گا۔ ہر اچھی چیز کیلئے تھوڑا بہت انتظار ضروری ہوتا ہے۔
صاحبو، ہر انسان خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خوش و خرم زندگی گزار رہا ہو یا پریشان حال ہو، ماضی بالخصوص بچپن اُس کا اثاثہ ہوتا ہے۔ دُنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو اپنے بچپن کو یاد نہ کرتا ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی دَور بے فکری کا ہوتا ہے، اس کے بعد تو عملی زندگی کی جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی بے فکری دُور کے چاند جیسی ہوجاتی ہے جو لبھاتا ہے مگر قریب نہیں آتا، یا، جس تک رسائی ممکن نہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بچپن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اُسے روزانہ یاد کیا جائےمگر زندگی اتنی فرصت ہی کہاں دیتی ہے!
بچپن حسین کیوں لگتا ہے؟ اِس کے جواب کیلئے ایک اور سوال کے جواب پر غور کیجئے کہ شاعری کیوں بھلی معلوم ہوتی ہے، مصوری کیوں اچھی لگتی ہے، افسانہ یا داستان کیوں لطف دیتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ شاعر، مصور، ادیب، داستان گو، ہر فنکار سب کچھ بیان نہیں کردیتا، بہت کچھ اپنے قاری اور سامع کے تخیل و تصور پر چھوڑ دیتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ہر فن پارہ کے چند پہلو تو سب کی سمجھ میں آتے ہیں ، بقیہ پردۂ خفا میں رہتے ہیں اور سننے یا پڑھنے والا اُنہیں اپنی فہم و دانست کے اعتبار سے سمجھتا ہے۔ بچپن بھی ایسا ہی ہے۔ اس میں کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے اور بہت کچھ فہم سے بالاتر رہتا ہے۔ سچ پوچھئے تو بچپن تب سمجھ میں آتا ہے جب وہ رخصت ہوچکا ہوتا ہے۔ اِس طرح، کچھ سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے کے دھندلکے کے درمیان سے گزرنے والا بچپن اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے۔ شاید یہی وصف اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتا ہے۔ ا س کا ایک اور وصف ہے اور وہ بھی اتنا ہی خوبصورت ہے جسے امریکی اداکار اور فلمساز رِکی اسکورڈر کی زبانی ملاحظہ کیجئے کہ ’’مَیں نے اپنا بچپن اس آرزو میں گزارا کہ بڑا ہوجاؤں ، اَب اِس آرزو میں جیتا ہوں کہ کاش بچپن لوَٹ آئے۔‘‘ اسکورڈر نے اس قول میں ہر اُس شخص کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جو بچپن کو پیچھے چھوڑ کر پختہ عمر کے گلیاروں میں سانس لے رہا ہے مگر بار بار مُڑ کر دیکھتا ہے اور مضطرؔ خیر آبادی کے الفاظ کو یاد کرتا ہے کہ ’’اسیر ِ پنجۂ عہد شباب کرکے مجھے = کہاں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے‘‘۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ بچپن، زندگی کا وہ دور ہے جو گزرتے وقت بھی لطف دیتا ہے اور بعد کی زندگی میں بھی، حتیٰ کہ دم ِ واپسیں تک۔ مجھ جیسے جتنے لوگوں نے غربت و عسرت اور محرومیوں کے باوجود شاندار بچپن گزارا اُن کیلئے اس کا ایک ایک واقعہ یادگار ہے۔ ان یادوں میں پشتینی مکان ہے، اہل خانہ ہیں ، اہل خانہ ہی کی طرح پڑوسی ہیں ، محلہ ہے، گھر اور محلے کے بزرگ ہیں ، مسجد ہے، مدرسہ ہے، اسکول ہے، اساتذہ ہیں (جن کے تئیں دل میں خو ف نہیں احترام ہے)، جان پہچان کے لوگ ہیں ، انہیں سلام کرنے کی عادت ہے، ان کا شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنا ہے، دُعا دینا ہے، دُعا سن کر بچوں کا سرشار ہوجانا ہے، دو ڈھائی کلومیٹر آگے بڑھ جائیے تو کھیت کھلیان ہیں ، دھول اُڑاتی پگڈنڈیاں ہیں ، بیر اور امرود کے پیڑ ہیں ، ندی ہے اور ایک فلٹر ہاؤس ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
میرے بچپن کی انہی یادوں میں ایک فلم ’’بالک‘‘ بھی ہے۔ اُس دور میں بچوں کو فلم دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ کوئی بچہ فلم کے تھیٹر میں دکھائی دے جاتا تو فوراً ہی والدین تک شکایت پہنچ جاتی اور تاوقتیکہ وہ واپس آتا اُس کیلئے سزا منتخب کرلی جاتی۔ چونکہ ’’بالک‘‘ دیکھنے کیلئے اسکول کی جانب سے اور اساتذہ کی موجودگی میں لے جایا گیا تھا اس لئے اس کی اجازت مل گئی تھی، سزا کا خوف دور دور تک نہیں تھا۔ فلم میں کیا تھا یہ اب یاد نہیں مگر جی چاہتا ہے کہ موقع ملے تو اسے دوبارہ دیکھا جائے اور بچپن کی یاد تازہ کی جائے۔ اس سے پہلے کہ کبھی یہ موقع ملتا، انشاء کا خاص شمارہ نظر نواز ہوا جس کا عنوان ہے: ’’بچوں کے بہترین ہندی فلمی گیت‘‘ (۱۹۴۷ء تا ۲۰۲۲ء)۔ اس کے اداریہ (گفتنی) میں مدیر نے لکھا ہے کہ ’’ہم نے یہ کام ایک نظریہ کے تحت کیا ہے۔ ان گیتوں کی فنی، تکنیکی، تعلیمی، جذباتی اور قومی حیثیت کو اُجاگر کرنے کیلئے ایک تحقیقی مضمون بھی بڑی محنت سے لکھا گیا ہے۔ اُسے پڑھنے کے بعد پہلی بار ثقافتی تناظر میں ان سدا بہار گانوں کی اہمیت کا اندازہ ہوگا، ورنہ اب تک آپ انہیں صرف مقبول گانے سمجھ کر سنتے رہے ہونگے۔‘‘
صفحات پلٹتے ہوئے آگے بڑھئے تو بار بار یہ احساس جاگتا ہے کہ اہل انشاء نے واقعی بڑی محنت کی ہے۔ جہاں پورا نغمہ نقل کیا گیا ہے وہیں وہ کس فلم کا ہے، وہ فلم کب منظر عام پر آئی تھی، نغمہ نگار کون ہے، موسیقی کس نے دی تھی اور آوازیں کس کی ہیں ۔ اس میں جن نغموں کو یکجا کیا گیا ہے اُن میں کئی ایسے ہیں جن کے بارے میں ، کم از کم، مجھے تو یہ علم نہیں تھا کہ اچھا یہ نظم فلم میں شامل کی گئی ہے! مثلاً ڈاکٹر اقبال کی مشہور نظم ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘۔ معلوم ہوا کہ یہ فلم بہت پہلے نہیں ، حال حال میں (۲۰۱۷ء) فلم سرگوشیاں میں شامل کی گئی تھی جسے خوشبو جین اور کیشو کمار نے گایا ہے۔ اسی طرح مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ اقبال ہی کا مشہور ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ ۱۹۵۹ء کی فلم ’’بھائی بہن‘‘ میں کچھ اس طرح سے شامل کیا گیا تھا کہ اولین دو مصرعے جوں کے توں رکھتے ہوئے تین بند راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے۔ آواز آشا بھوسلے کی ہے۔
ایسے ہی کئی گیت اس شمارہ میں شامل ہیں جس کے ہر صفحہ پر بچپن بکھراہوا دکھائی دیتا ہے۔ بیشتر نغمے اُس دور کے ہیں جب فلموں میں اعلیٰ درجے کی شاعری ہوتی تھی، دل پزیر موسیقی اور گلوکاری ہوتی تھی اور نغموں کے ذریعہ کوئی پیغام دیا جاتا تھا مثلاً شکیلؔ کا گیت کہ ’’انصاف کی ڈگر پر بچو دکھاؤ چل کے، یہ دیش ہے تمہارا نیتا تمہیں ہو کل کے‘‘۔ غور کیجئے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ نغمے آج بھی سنے جاتے ہیں اور آج بھی اُتنا ہی لطف دیتے ہیں ۔ کاش دور ِ حاضر کے بچے انہیں سن پاتے، کاش اُن کے والدین فکر کرتے اور اُنہیں موبائل پر ہی سہی، وہ گیت سننے پر آمادہ کرتے۔