شمشیر حیدر قاسمی
ہندواحیاء پسند کارسیوکوں کے ذریعہ بابری مسجد کو منہدم کیا جانا پھر مسجد کے حق میں تمام تر ثبوتوں و شہادتوں کے باوجود کورٹ کا مسجد کو مندر بنانے کے لیے سپرد کردینا اور حکومت کی طرف سے مندر کی تعمیر کے لئے ہرطرح کی سہولتیں فراہم کرنا، حکومت کے ذمہ دار اعلی کا پورے تعمیری مرحلے کا بنفس نفیس جائزہ لیتے رہنا اور پھر نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ حکومتی سطح پر اس تعمیری ڈھانچہ میں رام للا کی مورتی نصب کرنے کا جشن منانا اور اس کا فخریہ مظاہرہ کرنا، اس جشن کا حصہ نہ بننے والوں پر بھبتی کسنا، ان پر طعن و تشنیع کرنا ، دھمکیاں دینا وغیرہ یہ سب دراصل ایک طرح کا تجرباتی مرحلہ تھا جس میں پوری ملت اسلامیہ بطور خاص اسلامیان ہند کے نفسیات ، جذبات اور ردعمل کو بھانپنا تھا، اور یہ اندازہ اٹھانا تھا کہ انہدام سے لیکر تعمیر اور رام للا کے براجمان کئے جانے تک کے مراحل میں مسلمان کس حد تک مخالفت کر سکتے ہیں، اور ان کی مخالفتوں کو کس طرح سے دبایا جاسکتا ہے، تاکہ ان تجربات کی روشنی میں ہندستان کے دیگر مساجد پر بھی کروائی کی جاسکے اور مسجدوں کو بت خانے میں تبدیل کیاجاسکے، اور اسی طرح مسلمانوں کے خلاف اور بھی دوسرے مہم چھیڑے جاسکیں ، ان کا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا، انھوں نے خوب اچھی طرح بھانپ لیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ، ان کے مساجد توڑے جاسکتے ہیں، گھروں کو اجاڑا جاسکتا ہے، ان کی بہن بیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کیا جاسکتا ہے، اسلامی تہذیب و کلچر کا مذاق اڑانا جاسکتا ہے، شعائر اسلامی کے خلاف دشنام طرازی کی جاسکتی ہے، حتی کہ مسلمانوں کے جان و مال کو جو چاہے جیسے چاہے نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی، چنانچہ بابری مسجد کے ذریعے تجربہ کئے جانے کے بعد پورے ملک میں ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تحریکیں شروع کردی گئیں ، ہر جگہ بھگوا غنڈا گردی کا آغاز ہوگیا، فسادیوں کو کسی کاڈر ہے نہ خوف ، وہ مکمل طور پر بے لگام ہیں، انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
سیاں بھیل کوتوال اب ڈر کاہے کا
خبردار! کسی میں اگر دم ہے تو ان فسادیوں اور دنگائیوں کا راستہ روک کے دیکھے ، انروکنے والوں کے گھروں کو منہدم کرنے کے لئے سرکاری بلڈوزر تیار ہے، بل کہ ان فسادیوں اور دنگائیوں کے خلاف اگر کسی نے اپنی زبان بھی کھولی تو اس کی خیر نہیں، کیا ہمارے پاس اس افسوسناک اور نہایت ہی روح فرسا صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے ؟ یا گھٹ گھٹ کے جینا ہی ہمارا مقدر بن گیا ہے؟
ارتدادی تحریکات کی آندھیوں میں ہماری نسلیں کہاں تک اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکیں گیں ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، تاہم وہ لوگ جو تعیش و تنعم کے سایے میں بیٹھ کر طوفان کے نظارے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، وہ اس بات کو اچھی طرف ذہن نشیں کرلیں کہ عیش و عشرت کے یہ سائے بہت جلد ساتھ چھوڑ دیں گے ، ہوا کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ حالات بدسے بدتر ہوں گے، ہماری تذلیل و تحقیر کے ایسے تانے بانے بنے جارہے ہیں’ جس کے زد میں آنے سے کوئی میر جعفر اور میر صادق بھی نہیں بچ سکے گا۔
کاش ! ہم اب بھی جاگ جاتے، آنکھیں کھولیتے، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے دائمی وابدی ہونے کا یقین اپنے اندر پیدا کرلیتے، اور دین و ایمان اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے آہنی دیوار بن کر میدان میں ڈٹ جاتے تاکہ ہم سے ٹکرانے والا ہر پتھر خود ہی چور چور ہوجاتا اور تاریخ کے صفحات میں ایک بار پھر سے طارق بن زیاد، محمدبن قاسم ، صلاح الدین ایوبی اور محمدالفاتح کی روحانی اولاد اپنی شجاعت و بہادری اور ہمت و جواں مردی کے حیات آفریں واقعات درج کرواتی ، اے کاش ایسا ہوتا۔