سراج احمد ندوی ممبئی
رمضان المبارک کی اہمیت!
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ کی خاص رحمتوں، برکتوں اور نوازشوں کا مہینہ ہے، اس کی آمد پوری انسانیت کے لئے باعثِ خیر وبرکت اور سراپا ہدایت ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس ماہ کےلئے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اللہ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے، گنہگار سے گنہگار شخص بھی اگر سچی توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے کرم سے معاف فرما دیتے ہیں،اور اس پر بھی اپنی رحمتیںنازل فرماتے ہیں ، قرآن و حدیث میں رمضان المبارک کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں،
درج ذیل آیات و احادیث ملاحظہ ہوں!
قرآنی آیات!
_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون. [البقرة: 183]
”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔”
_ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ. [البقرة: 185]
”ماه رمضان وہ ماہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو، اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔”
احادیث رسول!
1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
(أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا، 2/672، الرقم: 1800،)
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”.
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے”
(صحیح بخاری : كتاب الإيمان : حدیث 38)
3. عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي آخِرِ یَومٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، قَدْ أَظَلَّکُمْ شَهْرٌ عَظِیْمٌ شَهْرٌ مُبَارَکٌ شَهْرٌ فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ جَعَلَ ﷲ صِیَامَهُ فَرِیْضَةً وَقِیَامَ لَیْلِهِ تَطَوُّعَا. مَنْ تَقَرَّبَ فِیْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدَّی فِیْهِ فَرِیْضَةً کَانَ کَمَنْ أَدَّی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ. وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ وَشَهْرٌ یَزَدَادُ فِیْهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ. مَنْ فَطَّرَ فِیْهِ صَائِمًا کَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوْبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَکَانَ لَهُ مِثْلَ أَجْرِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئٌ قَالُوْا: لَیْسَ کُلُّنَا نَجِدُ مَا یُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: یُعْطِي ﷲ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَی تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءِ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَ أَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ. مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِهِ غَفَرَ ﷲ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ وَاسْتَکْثِرُوْا فِیْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ خَصْلَتَیْنِ تُرْضَوْنَ بِهِمَا رَبَّکُمْ وَخَصْلَتَیْنِ لَا غِنَی بِکُمْ عَنْهُمَا. فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضَوْنَ بِهِمَا رَبَّکُمْ فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲ وَتَسْتَغْفِرُوْنَهُ وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَی بِکُمْ عَنْهُمَا فَتَسْأَلُوْنَ ﷲ الْجَنَّةَ. وَتَعُوْذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ وَمَنْ أَشْبَعَ فِیْهِ صَائِماً سَقَاهُ ﷲ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لاَ یَظْمَأُ حَتَّی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ.(أخرجه ابن خزیمه في الصحیح، 3/191، الرقم:)
’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل، جو شخص اس میں قرب الٰہی کی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کئے۔ یہ صبر کا مہینہ اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخص کسی روزہ دار کو افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کردیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس سے اس(روزہ دار) کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کرافطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانہ حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے، اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔‘‘
فضائل کا خلاصہ!
1. رمضان المبارک کا مہینہ اللہ کی رحمت، برکت اور مغفرت و نوازش کا مہینہ ہے،
2. اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں،
3. اس ماہ کی پہلی شب میں ہی تمام اہل ایمان کی مغفرت کردی جاتی ہے،
4. جو شخص بھی ایمان واحتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیئے جاتے ہیں،
5. سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے،
6. اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی شبِ قدر.
7. اللہ نے اس ماہ کے دنوں میں روزے فرض فرمائے اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے،
8. اس مہینے میں کسی بھی نفلی عمل کا ثواب فرض کے برابر اور اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے.
9. جو شخص کسی روزہ دار کو افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی.
10. رمضان المبارک کا مہینہ ہم سب کی تربیت و تزکیہ کا مہینہ ہے.
11. یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے.
12. اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ مہینہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے، جو اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کے لئے سراپا ہدایت و رحمت ہے،
استقبال رمضان!
……. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ تین ماہ قبل یعنی رجب سے اس مقدس مہینہ کے استقبال کا اہتمام فرماتے، اور بعض روایات میں ہے آپ اس کےلئے یہ دعا بھی فرماتے : اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبارك لنا في رمضان. /. وبلغنا رمضان.
( وقد روى الإمام أحمد في المسند وغيره عن أنس بن مالك ـ رضي الله عنه ـ قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل رجب، قال: اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبارك لنا في رمضان. وفي رواية غيره: … وبلغنا رمضان. وإسناده ضعيف،)
_ منذری کی ترغیب و ترہیب میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوال کرتے :
مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟
"کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟”
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا : نہیں، عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ.
"بے شک اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔”
(منذری، الترغيب والترهيب، 2 : 64، رقم : 1502)
*……… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ چھ ماہ قبل سے رمضان المبارک کے لئے دعائیں کرتے، اور رمضان گزر جانے کے بعد چھ ماہ تک رمضان کی عبادات و طاعات کی قبولیت کی دعا کرتے ،
لہٰذا اس بابرکت مہینہ کی آمد کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی اس کا تہہ دل سے استقبال کریں، اور اس کےلئے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں،
ہم رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
1. نیت کریں کہ ہر حال میں رمضان المبارک کی قدر کریں گے اس کے کسی ایک لمحہ کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں گے،
2. دعا کرنا شروع کردیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رمضان المبارک جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
3. ہر طرح کے گناہ چھوڑ دیں، ورنہ گناہوں کی نحوست انسان کو نیکیوں سے محروم کردیتی ہے،
4.. سچی توبہ کرلیں، اور سچی توبہ یہ ہے کہ پچھلے گناہوں پر ندامت ہو، آئندہ نہ کرنے کا پختہ عہد ہو اور اس گناہ کو مکمل طور پر ترک کر دیا جائے.
5. ابھی سے نیک اعمال میں اضافہ کرتے جائیں تاکہ ہمارا نفس اس کا عادی ہوتا جائے،
6. رمضان المبارک کے فضائل و مسائل کا علم حاصل کریں، اور معلوم کریں کہ رمضان کیا ہے؟ روزہ کیا ہے؟ روزے کے حالت میں کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں ہے؟
7. ابھی سے ہی ذرا کم کھانا شروع کردیں تاکہ نفس روزے کےلئے تیار ہوجائے،
8. تہجد کا اہتمام شروع کردیں، تاکہ رمضان میں قیام میں آسانی ہو،
9. قرآن مجید سے اپنا رشتہ مظبوط کریں، ابھی سے تلاوت، مع ترجمہ شروع کردیں، جہاں کہیں قرآن کے دروس ہوتے ہوں اس میں شریک ہوں، کیونکہ رمضان کو قرآن مجید سے بہت گہرا تعلق ہے.
10. رمضان المبارک کے لئے ایک مکمل لائحہ عمل بنائیں ،کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے ؟ اور پھر اپنے آپ کو سختی سے اس کا پاپند بنائیں.
11. رشتہ داروں، پڑوسیوں اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کے گھریلو مسائل کے حل کیلئے دامے درمے قدمے ان کا تعاون کریں، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا.
12. دعوت کا کام کریں! یعنی جہاں ہم خود رمضان المبارک کا استقبال کریں، اس کے لئے تیاری کریں وہیں اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس کی دعوت دیں،
13. عید کی جو بھی تیاری کرنی ہو ابھی سے کرلیں، خدارا رمضان کی مبارک ساعتوں کو بازار کی نذر نہ کریں، خصوصاً خواتین اس طرف ضرور متوجہ ہوں.
14. گھر میں استقبال رمضان کا ماحول بنائیں، بچوں اور خواتین کے ساتھ بیٹھیں اور انہیں بھی اس کی طرف متوجہ کریں!
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین.
Thanks for sharing excellent informations. Your site is so cool. I am impressed by the details that you have on this website. It reveals how nicely you perceive this subject. Bookmarked this website page, will come back for more articles. You, my friend, ROCK! I found just the info I already searched everywhere and just could not come across. What an ideal web site.