آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ممبئی میں تحفظ اوقاف کانفرنس: توہین رسالت اور تحفظ اوقاف و ترمیمی بل کے بابت تحفظ اوقاف کانفرنس کے منظور کردہ تجاویز
ای سی نیوز ڈیسک
5 اکتوبر 2024
تحفظ اوقاف کے سلسلے میں ملک کے تقریباً ہر گوشےمیں کانفرنس اور اجلاس کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو اوقاف کی حقائق سے واقف کرایا جائے کہ وقف ہے کیا اور اس کا کیا کام ہوتاہے، وقف ترمیمی بل 2024 سے حکومت کی کیا نیت ہے اور اس کے نفاذ کے بعد کیا نقصانات مرتب ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ اسی سلسلے میں تحفظ اوقاف کانفرنس کا انعقاد 5 اکتوبر 2024 بروز ہفتہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام صابو صدیق کالج بائیکلہ ممبئی میں کیا گیا جس کی صدارت مسلم پرسنل لاء کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی۔ اس کانفرنس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت اور نعت النبی سے ہوا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا محمود احمد خان دریابادی نے کانفرنس کی نظامت کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل کے نقصانات سے آگاہ کیا اور جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وقف مسلمانوں کی جائیداد ہے اس کی حفاظت ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ہمیں اس میں کسی کی مداخلت قطعاً قبول نہیں اس لیے یہ بل کسی بھی صورت پاس نہیں ہوناچاہیے۔ اس کانفرنس میں مختلف مکاتبِ فکر کی شخصیات نے شرکت فرماکر متفقہ طور پر اس بل کی مخالفت کی اور اس بل کے واپسی کا مطالبہ کیا۔
اس کانفرنس کے مقرر خصوصی مولانا محمّد عمرین رحمانی، سکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ "گستخانان رسول کو ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ توہینِ رسالت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے…” انہوں نے مزید کہا کہ امت مسلمہ کو اپنے قائدین پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے ان کے ہر فیصلے کا خیرمقدم اور ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہئیے۔”
رکنِ عاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے اوقاف بیداری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ یہ وقف ترمیمی بل ہماری شناخت اور شعار پر حملہ ہے، ہمیں دین کو سیکھنے، اپنے بچوں کو سیکھانے اور دین کی حفاظت کیلیے ہر طرح کے مسائل سے نبرد آزما رہنے کی سخت ضرورت ہے۔”
مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ” وقف ترمیمی بل سے حکومت کا منشاء اوقاف کو مسلمانوں کی ملکیت سے خارج کرنا ہے جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر شبخون مارنے جیسا ہے اور وقف کے متعلق یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ وقف جس جائیداد کو اپنا کہدے وہ اسی کا ہوجاتاہے جو سراسر غلط ہے بلکہ وقف اپنی رضامندی سے اپنی جائیداد کو اللہ کی ملکیت میں دینے کو کہتے ہیں۔”
پروگرام کا اختتام صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے خطبہ صدارت اور ان کی دعاء کے ساتھ ہوا۔ خطبہ صدارت میں مولانا نے چند اہم باتوں کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ "اوقاف کی حفاظت اوقاف کی جائیداد کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لاکر کیجائے اور اوقاف کی زمین پر تعمیر عمارت اور ان کی نمائش پر خرچ کرنے کے ساتھ اس بات زیادہ توجہ دی جائے کہ ان کے کاغذات درست کرائے جائیں۔”
اس کانفرنس میں مہمان اعزازی کی حیثیت سے مفتی حذیفہ قاسمی، مفتی سعید الرحمٰن قاسمی، مولانا سید روح ظفر، مولانا ظہیر عباس رضوی، مولانا نظام الدین فخر الدین، مولانا برہان الدین قاسمی، مفتی اشفاق قاضی، جناب ڈاکٹر ظہیر قاضی، جناب ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ وغیرہم جیسی عظیم شخصیات شامل رہیں۔
اس پروگرام کے کنوینر مولانا محمود دریابادی نے بورڈ کی تجاویزات پشی کںل جس مں توہنی رسالتﷺ سے متعلق اہم تجویز شامل تھی، اس کے علاوہ اوقاف کی ملکتی، تحفظ اوقاف اور دیگر ملی مسائل سے متعلق تجاویزات تھیں۔ دونوں تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:-
تجویز بابت توہن رسالت منظور کردہ تحفظ اوقاف کانفرنس
عقائد اور ایمانیات سے متعلق کچھ معاملات ایسے ہیں جن سے دنیا بھر کے تقریبا دوارب مسلمانوں کا انتہائی جذباتی تعلق ہے، ان میں ذات باری تعالیٰ، قران مجید، اور سرورکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی شامل ہے ـ خاص طور حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اہل اسلام والہانہ اور عاشقانہ تعلق رکھتے ہیں، ان کی شان اقدس میں ادنی قسم کی حرف گیری بھی اُن کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے ـ
مسلمانوں کے قلوب میں اپنے پیغمبر کی جو عظمت اور محبت ہے اُس سے سارا زمانہ واقف ہے، اس کے باوجود دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے ملک ہندوستان میں کچھ شرپسند عناصر جن میں کچھ لوگ مذہبی بہروپ میں بھی ہوتے ہیں نیز کچھ لوگ سیاسی اور سماجی خدمت گار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وقتا فوقتا شان رسالت میں بدزبانی اور گستاخی کرتے رہتے ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے ـ اس کے باوجود افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے شرپسندوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں ہوتی، ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے ایسے مدمعاشوں کو مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ـ
ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ توہیں رسالت کا معاملہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے دوارب سے زائد مسلمانوں کا معاملہ ہے، دنیا کا ہر مسلمان شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس کی حفاظت میں اپنا سب کچھ قربان کرسکتا ہے، ایسی حرکتوں سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی زبردست بدنامی ہوتی ہے، ہماری جمہوریت کے خلاف دنیا میں غلط پیغام جاتا ہے ـ
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے حضرت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اور اس کے ذریعے دنیا بھر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس کو روکا جائے، ایسے گستاخوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے، ورنہ مسلمان انتہائی سخت احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے، ہمارے ملک کا دستور وقانون بھی ایسے احتجاج کی اجازت دیتا ہے ـ
تجویز بابت تحفظ اوقاف منظور کردہ تحفظ اوقاف کانفرنس
ابتدا اسلام سے ہی مسلمانوں کے درمیان، مذہبی اور رفاہی مقاصد کے لئے اوقاف کا سلسلہ جاری ہے، چونکہ اسلام میں وقف کرنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے اس لئے ہمیشہ مسلمان اپنی ملکیت اللہ کے نام وقف کرکے اُس کے نفع کو عوام کے لئے عام کرتے رہے ہیں، نیز تمام حکومتیں بھی اوقاف کے اہتمام وانصرام کے لئے ادارے، کمیٹیاں، بورڈ وغیرہ قائم کرتی رہی ہیں، چنانچہ آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت نے بھی 1954 میں آزاد ہندوستان کا پہلا وقف قانون بنایا، اس کے بعد اُس میں متعدد ترمیمات ہوئیں 1995 میں ایک نیا ایکٹ بنا پھر 2013 میں سابقہ ایکٹ کی خامیوں کو دور کرکے نیا قانون منظور کرایا گیا ـ غرض 1954 کے بعد جتنی ترمیمات ہوئیں یا نئے ایکٹ بنے سب کا مقصد پچھلے قانون کو مضبوط کرنا اور اس کو بہتر بنانا تھا ـ
مگر اس بار موجودہ حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 جو پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اور اس میں جو ترمیمات پیش کی گئی ہیں اُن سے سابقہ وقف قانون مضبوط اور بہتر ہونے کے بجائے کمزور ہوجائے گا اور اوقاف کی جائدادیں، مساجد، قبرستان، خانقاہیں، عاشور خانے وغیرہ کی زمینیں خطرے میں پڑجائیں گی ـ
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی زبردست مخالفت کی وجہ سے فی الحال حکومت اس بل کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیجنے پر مجبور ہوگئی ہے ـ جوائنٹ پارلیمنڑی کمیٹی اس سلسلے میں الگ الگ افراد، تنظیموں، اداروں، مختلف مذاہب کے مذہبی رہنماؤں اور مرکزی وریاستی حکومتوں سے متعلق مخلتف وزارتوں سے ملاقاتیں کررہی ہے، جے پی سی نے میل اور ڈاک کے ذریعئے عوام الناس سے بھی اس بل کے بارے میں رائے طلب کی تھی ـ عام مسلمان اس بل کو پسند نہیں کرتے اور اوقاف کے لئے شدید نقصان کا باعث سمجھتے ہیں اس لئے کڑووں مسلمانوں نے آل مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایت پر ای میل اور ڈاک کے ذریعے جے پی سی کو اپنی رائے بھیج کر اس بل کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ـ
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کا مسئلہ خالص مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اوقاف کا تعلق مسلم پرسنل لاء سے بھی ہے جو دستور میں دئے گئے بنیادی حققوق میں سے ایک ہے، اس لئے حکومت دستور کی خلاف ورزی نہ کرکے اور موجودہ وقف ترمیمی بل 2024 فورا واپس لے نیز ملک کے کڑوڑوں مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور دستوری حق کے بقا و تحفظ کے لئے سخت احتجاج پر مجبور نہ کرے ـ