اسلام مکمل دین، مستقل تہذہب
(یہ مولانا علی میاں ندوی رح کا چالیس صفحات کا ایک رسالہ ہے جسے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے عقائد اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے ہر شخص کو پڑھنا چاہیے)
از: اظہارالحق بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد
مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی رح کا مذکورہ رسالہ آج سے تقریباً باون سال قبل شائع ہوا تھا۔ مسلمانوں کے احوال آج سے پچاس سال قبل اگر اس قدر فکر مندی کے لائق تھے تو آج پچاس سال کے بعد جب ہر طرف ہندوانہ تہذیب کا عموم و شیوع سرکاری منشاء بل کہ سرکاری قوانین و احکام کے مطابق ہو رہا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے عقائد و افکار اور تہذیب و معاشرت پر ان کے اثرات کس قدر گہرے پڑ رہے ہوں گے۔ چناں چہ اس تہذیبی تفوق کی کوششوں کے زیر اثر آئے دن کسی کے غیر مسلم بننے، کسی مسلم لڑکی کے بھگوا لو ٹریپ کا شکار ہونے اور اسلام سے پھر جانے یا کسی کے مرتد ہو جانے کی خبریں سماعت سے ٹکراتی ہیں اور فکر مند حضرات اس سے بے قرار ہو اٹھتے ہیں جب کہ اکثر مسلمانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہندوستان بھر میں مشترکہ آبادیوں کے اکثر مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہیں بل کہ اگر کچھ پتہ ہے تب بھی وہ اغیار کے ساتھ بہت سے کفریہ اور شرکیہ اعمال میں دانستہ یا نادانستہ شریک ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان سے من و تو کا امتیاز ختم ہو رہا ہے اور وہ غیروں کی تہذیب میں ضم ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری ہندو تنظیموں بطور خاص آر ایس ایس وغیرہ کی طرف سے بھی جس طرح سے ملک بھر میں ہندو تہذیب کے احیاء کی نشر واشاعت کی کوشش ہو رہی ہے اس سے یہ خطرہ بہر حال لاحق ہے کہ کسی سخت حالات کے پیش آنے پر اچانک عمومی ارتداد کی لہریں نہ اٹھ پڑیں اور لوگ تہذیب خور اس سر زمین میں صرف بھگوا تہذیب کے عادی ہو کر اس میں ضم نہ ہو جائیں۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جائے کہ ان کا دین ایک مکمل دین اور ایک مستقل مذہب ہے۔ ان کا دین مکمل ترین اور جامع ترین نظام حیات ہے جس کی مستقل، عظیم اور قابل فخر تہذیب ہے۔ وہ غیروں کے ساتھ حسن سلوک اپناتے ہوئے رہ سکتے ہیں مگر ان کا وجود ان کی انفرادی تہذیب کی بنیاد پر ہے۔ اگر وہ اپنی دینی اور ملی تہذیب و شناخت کھو دیں گے تو ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔
ملک کے جو موجودہ حالات ہیں کچھ اسی جیسے حالات 1857 کی جنگ کے بعد تھے جس کے نتیجے میں مولانا قاسم نانوتوی رح اور ان کے اصحاب نے دارالعلوم دیوبند کو قائم فرمایا تھا۔ دارالعلوم دیوبند صرف کچھ کتابوں کے پڑھنے پڑھانے کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا بل کہ مسلمانوں کے دین و عقیدے کی حفاظت اور ان کے فکری اور عملی مجاھَدوں کو زندہ کرنے اور رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ مولانا علی میاں رح لکھتے ہیں:
مولانا قاسم نانوتوی رح کے سامنے اصل مسئلہ یہی تھا کہ کیا ہندوستان کو ان مغربی غارت گروں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہیں کہ ہمارے جگر کے ٹکڑے جنھوں نے ہمارے خون جگر سے پرورش پائی، جن کی رگوں میں علماء و اولیاء کا خون دوڑ رہا ہے ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قبضے میں چلے جائیں، اور مغربی تہذیب اور تعلیم کے سائے میں پروان چڑھ کر اور ہم سے مکمل طور پر بےگانہ و نا آشنا ہو کر نکلیں؟ انھوں نے انگریزی حکومت کے اس چیلنج کو قبول کیا اور بالکل اپنے جد امجد صدیق اکبر رض کی زبان میں یہ کہا کہ:
اینقص الدین و انا حی ( کہ کیا خدا کے دین میں میرے جیتے جی کتر بیونت کی جاسکتی ہے؟) (صفحہ 14,15)
مولانا نے بڑی وضاحت سے اس بات کو لکھا ہے کہ اسلام وحدت ادیان کا نہیں بل کہ وحدت حق کا قائل ہے یعنی سب دین ایک نہیں بل کہ حق ایک ہے۔ اس کا ایک واضح اور معین نظام عقائد ہے، اس کی ایک مستقل تہذیب ہے، مکمل قانون اور نظام معاشرت ہے۔ (ص 25)
مسلمانوں کو اپنی شناخت پر بنے رہنے اور خود کو اسی پر باقی رکھنے کے حوالے سے چند قرآنی و حدیثی حوالے پیش کرنے کے بعد مولانا لکھتے ہیں کہ: اس سب کا مقصد اور پیغام یہ ہے کہ ہمیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اور زندگی کی ہر منزل پر اس بات کو یاد رکھنا ہے کہ ہم ملت ابراہیمی اور امت محمدی کے فرد اور ایک مخصوص شریعت اور آئین و مسلکِ زندگی کے پیرو اور خدا کے موحد اور وفادار بندے ہیں، ہماری زندگی بھی اسی آئین و مسلک کی وفاداری میں گزرے اور ہمیں موت بھی اسی حال میں آئے ، ہماری موجودہ نسلیں بھی اسی راستہ پر گامزن رہیں اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اسی صراط مستقیم پر چلیں۔ (ص 33)
مولانا علی میاں رح کا یہ رسالہ ملک کے موجودماحول سے متعلق بڑا اہم اور مفید ہے۔ ہلکی رفتار سے پڑھتے ہوئے بھی ایک سوا گھنٹے میں اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ پی ڈی ایف گوگل یا ٹیلی گرام سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔